’’ سو یہ گردشوں میں رہا سفر ‘‘ ایک جائزہ
ایسے لوگوں کو تو آنکھوں میں دم اور ہاتھ میں جنبش ہو لکھنا ہی ہوتا ہے
جوں ہی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ''سو یہ گردشوں میں رہا سفر '' میرے ہاتھ میں آئی ، ایک دھچکا سا لگا کہ وہ زیست کے آخری پل کو گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کئی ماہ سے بیمار ہیں ، میں نے بارہا میسج بھی کیا لیکن جواب نہیں آیا ، ورنہ وہ پابندی سے اپنے پوتوں یا نواسوں کے ذریعے اپنے کالم اور مضامین شیئر کرتے ، ان کا کہنا تھا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے نا واقف ہیں۔ مذکورہ کتاب تعداد کے اعتبار سے 27 ویں ہے جوکہ ان کی زندگی ہی میں اس وقت شایع ہوئی تھی جب وہ بستر علالت پر تھے ، لیکن انھوں نے اپنی آخری کتاب کا دیدار کرلیا تھا۔
معزز حضرات ! جیساکہ آپ کے علم میں ہے صاحب کتاب کو تقریبِ رونمائی کے موقع پر محفل کا دلہا کہا جاتا ہے ، اسے عزت و احترام کے ساتھ جشن پذیرائی کے موقع پر اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں مدعوکیا جاتا ہے لیکن اب ہم ڈاکٹر صاحب کو کہاں سے لائیں؟ بنا دلہا کے باراتی اُداس ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی جاگزیں ہے کہ تخلیق کار کبھی نہیں مرتا ، وہ اپنی تحریروں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب '' اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں '' کے موقع پر موت کو قریب آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کا عنوان ہی گویا موت کا استعارہ تھا۔ دوست محمد فیضی نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ قدرت نے انھیں یہی کام تفویض کیا ہے کہ وہ لکھتے رہیں۔
ایسے لوگوں کو تو آنکھوں میں دم اور ہاتھ میں جنبش ہو لکھنا ہی ہوتا ہے۔ سو جب قدرت کو یہی منظور ہے تو لکھتے رہیے اور پھر ایسا ہی ہوا ، انھوں نے دم آخر جم کر لکھا اور یوں سات کتابیں مزید معرض وجود میں آگئیں اور سن وفات 2021 ٹھہرا۔ 2014 میں شایع ہونے والی کتاب '' بالقرض محال '' میں اپنے مضمون '' حد سے گزر جانا '' میں انھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے لکھا تھا۔
'' ہم نے جس انداز سے زندگی گزاری ، اس میں قرض کی نوبت شاید ہی آئی ہو۔ اللہ کی ہر نعمت میسر ہے، دوست احباب کی محبتیں اور عنایتیں بھی دونوں ہاتھ سے رول رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم ساری عمر جس چیز سے بچتے رہے اب اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ہم ابن انشا کی اڑتیس اشعار کی اس نظم کے چند اشعار کے ذریعے اپنی ضرورت کا اظہار کر رہے ہیں جو مرحوم نے ٹوکیو کے اسپتال میں زندگی کے آخری دنوں میں لکھی تھی۔
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگوں
پَر سود بیاج کے بن لوگو !
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہوکار گئے
ڈاکٹر معین قریشی نے 11-10 سال قبل ہی موت کی دستک کو سن لیا تھا۔ بے شک آگہی کا دکھ بڑا کرب ناک ہوتا ہے۔ ایسے ایسے حقائق اور واقعات کو سامنے لے آتا ہے جن کے ظہور پذیر ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ درویش صفت لوگ موت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
مصنف اپنے سفرکی روداد سنا کر خود سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ان کا یہ چھٹا سفرنامہ ہے جوکہ 400 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ کتاب کا سرورق دل کش ہے اور پڑھنے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔
پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی کا تحریر کردہ ہے۔ اسی مضمون سے ایک پیراگراف جسے میں نے طوالت کے باعث مختصر کردیا ہے۔
''92-93 میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کا کارنامہ اندلس کی فتح پر منتج ہوا۔ اس خطے کے ابتدائی نقوش کو ایس ایم معین قریشی نے اپنے غیر معمولی انداز بیان سے تحریری مرقع بنا دیا ہے یہ سفر انھوں نے اپنے پوتے (رمیز قریشی) کی رفاقت میں طے کیا اس رفاقت کی جھلکیاں سفرنامے میں رمیز قریشی کی ذہانت واضح کرتی ہیں نیز دادا کی فطانت دلی کی یاد دلاتی ہے۔ 1921 میں مراکش، فرانس کی نوآبادی بنا۔ اس سے قبل مراکش کا نام مغرب تھا جو فرانسیسی میں ''مراکو'' ہوگیا۔ 1956 میں آزادی کے ساتھ دوبارہ سے مغرب کا نام اختیار کر لیا گیا۔ آگے چل کر '' رباط '' اس کا دارالخلافہ کہلایا ، اسی خطے میں دنیا کا نامی گرامی صحرا ''صحارا '' پایا جاتا ہے۔ اسی خطے میں '' فیض'' نامی شہر میں دنیا کی قدیم ترین جامع کا ظہور ہوا ، یہ سفرنامہ نہایت معلوماتی اور بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کو سمجھنے میں انتہائی مفید ہے۔''
ڈاکٹر معین قریشی نے اپنی انتہائی معلوماتی کتاب میں 9 ملکوں اور ایک دلچسپ بحری سفر اور '' ورجینیا کا غار'' کے عنوان سے ملکوں کی معلومات اور ان کے عجائبات سے روشناس کرایا ہے۔ مراکش، انڈونیشیا، یونان، ایران، جنوبی کوریا اور دوسرے ممالک کی تہذیب و ثقافت، عمارات، رہن سہن، تجارت، معیشت، مساجد خصوصاً مسجد قرطبہ اہل یونان کی حکمت و دانائی کے قصائص دلچسپ انداز میں بیان کیے ہیں۔
''کیا کیا طلسم دفن ہیں'' یہ مضمون یونان کے حوالے سے ہے، ابتدائی سطور میں ایک حکایت بھی لکھی ہے اس کا جز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ کو خصوصی مشن پر یونان کے ایک شہر میں بھیجا ، حضرت جبرئیلؑ نے ایک بچے سے پوچھا'' اس وقت جبرئیلؑ کہاں ہوں گے'' بچے نے اپنی دانش مندی سے فوراً جواب دیا کہ '' جبرئیلؑ نہ آسمانوں میں ہیں، نہ زمین میں، اب یا تو آپ خود ہو سکتے ہیں یا پھر میں۔'' ڈاکٹر صاحب نے یونان کے بارے میں لکھا ہے کہ یونان فلسفیوں، دانشوروں، ادیبوں، طبیبوں، سائنسدانوں اور فاتحین کی سرزمین ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خاصیت یہ ہے کہ دنیا بھر کی معلومات اپنے سفر ناموں کے ذریعے بے حد دلچسپ انداز میں فراہم کرتے ہیں، مزاح کی چاشنی کے ساتھ ساتھ خوب صورت اشعار بھی شامل ہوتے ہیں ، اس سے قاری کا مزہ دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ بے حد قابل، با اخلاق علم و ادب کی بڑی شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔ جب بھی ان کی کتاب موصول ہوتی ان کی نفاست اور سلیقے کو دیکھ کر میں عش عش کر اٹھتی ، تحریر ایسی کہ جیسے موتی جڑے ہوں، مخاطب کرنے کا انداز اس قدر با وقارکہ پڑھ کر یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ہم سے بڑا ادیب کوئی ہے ہی نہیں، یہی ان کی بڑائی اور اعلیٰ ظرفی تھی۔
شائستگی، تہذیب، خوش اخلاقی، صداقت، دیانت، علمیت اور دانشوری کو اگر یکجا کرلیا جائے تو ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصویر اجاگر ہو جائے گی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی لائق اور فرمانبردار اولاد کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے اپنے والد مرحوم کے دوست احباب کو مدعو کرکے حدیث مبارکہ پر بھی عمل کیا اور دعوت پائے اور تقریب رونمائی کی روایت کو برقرار رکھا۔ نثرنگار جناب م۔ض ایمن کی بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب فراہم کی۔ اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گی۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کئی ماہ سے بیمار ہیں ، میں نے بارہا میسج بھی کیا لیکن جواب نہیں آیا ، ورنہ وہ پابندی سے اپنے پوتوں یا نواسوں کے ذریعے اپنے کالم اور مضامین شیئر کرتے ، ان کا کہنا تھا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے نا واقف ہیں۔ مذکورہ کتاب تعداد کے اعتبار سے 27 ویں ہے جوکہ ان کی زندگی ہی میں اس وقت شایع ہوئی تھی جب وہ بستر علالت پر تھے ، لیکن انھوں نے اپنی آخری کتاب کا دیدار کرلیا تھا۔
معزز حضرات ! جیساکہ آپ کے علم میں ہے صاحب کتاب کو تقریبِ رونمائی کے موقع پر محفل کا دلہا کہا جاتا ہے ، اسے عزت و احترام کے ساتھ جشن پذیرائی کے موقع پر اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں مدعوکیا جاتا ہے لیکن اب ہم ڈاکٹر صاحب کو کہاں سے لائیں؟ بنا دلہا کے باراتی اُداس ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی جاگزیں ہے کہ تخلیق کار کبھی نہیں مرتا ، وہ اپنی تحریروں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب '' اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں '' کے موقع پر موت کو قریب آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کا عنوان ہی گویا موت کا استعارہ تھا۔ دوست محمد فیضی نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ قدرت نے انھیں یہی کام تفویض کیا ہے کہ وہ لکھتے رہیں۔
ایسے لوگوں کو تو آنکھوں میں دم اور ہاتھ میں جنبش ہو لکھنا ہی ہوتا ہے۔ سو جب قدرت کو یہی منظور ہے تو لکھتے رہیے اور پھر ایسا ہی ہوا ، انھوں نے دم آخر جم کر لکھا اور یوں سات کتابیں مزید معرض وجود میں آگئیں اور سن وفات 2021 ٹھہرا۔ 2014 میں شایع ہونے والی کتاب '' بالقرض محال '' میں اپنے مضمون '' حد سے گزر جانا '' میں انھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے لکھا تھا۔
'' ہم نے جس انداز سے زندگی گزاری ، اس میں قرض کی نوبت شاید ہی آئی ہو۔ اللہ کی ہر نعمت میسر ہے، دوست احباب کی محبتیں اور عنایتیں بھی دونوں ہاتھ سے رول رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم ساری عمر جس چیز سے بچتے رہے اب اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ہم ابن انشا کی اڑتیس اشعار کی اس نظم کے چند اشعار کے ذریعے اپنی ضرورت کا اظہار کر رہے ہیں جو مرحوم نے ٹوکیو کے اسپتال میں زندگی کے آخری دنوں میں لکھی تھی۔
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگوں
پَر سود بیاج کے بن لوگو !
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہوکار گئے
ڈاکٹر معین قریشی نے 11-10 سال قبل ہی موت کی دستک کو سن لیا تھا۔ بے شک آگہی کا دکھ بڑا کرب ناک ہوتا ہے۔ ایسے ایسے حقائق اور واقعات کو سامنے لے آتا ہے جن کے ظہور پذیر ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ درویش صفت لوگ موت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
مصنف اپنے سفرکی روداد سنا کر خود سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ان کا یہ چھٹا سفرنامہ ہے جوکہ 400 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ کتاب کا سرورق دل کش ہے اور پڑھنے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔
پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی کا تحریر کردہ ہے۔ اسی مضمون سے ایک پیراگراف جسے میں نے طوالت کے باعث مختصر کردیا ہے۔
''92-93 میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کا کارنامہ اندلس کی فتح پر منتج ہوا۔ اس خطے کے ابتدائی نقوش کو ایس ایم معین قریشی نے اپنے غیر معمولی انداز بیان سے تحریری مرقع بنا دیا ہے یہ سفر انھوں نے اپنے پوتے (رمیز قریشی) کی رفاقت میں طے کیا اس رفاقت کی جھلکیاں سفرنامے میں رمیز قریشی کی ذہانت واضح کرتی ہیں نیز دادا کی فطانت دلی کی یاد دلاتی ہے۔ 1921 میں مراکش، فرانس کی نوآبادی بنا۔ اس سے قبل مراکش کا نام مغرب تھا جو فرانسیسی میں ''مراکو'' ہوگیا۔ 1956 میں آزادی کے ساتھ دوبارہ سے مغرب کا نام اختیار کر لیا گیا۔ آگے چل کر '' رباط '' اس کا دارالخلافہ کہلایا ، اسی خطے میں دنیا کا نامی گرامی صحرا ''صحارا '' پایا جاتا ہے۔ اسی خطے میں '' فیض'' نامی شہر میں دنیا کی قدیم ترین جامع کا ظہور ہوا ، یہ سفرنامہ نہایت معلوماتی اور بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کو سمجھنے میں انتہائی مفید ہے۔''
ڈاکٹر معین قریشی نے اپنی انتہائی معلوماتی کتاب میں 9 ملکوں اور ایک دلچسپ بحری سفر اور '' ورجینیا کا غار'' کے عنوان سے ملکوں کی معلومات اور ان کے عجائبات سے روشناس کرایا ہے۔ مراکش، انڈونیشیا، یونان، ایران، جنوبی کوریا اور دوسرے ممالک کی تہذیب و ثقافت، عمارات، رہن سہن، تجارت، معیشت، مساجد خصوصاً مسجد قرطبہ اہل یونان کی حکمت و دانائی کے قصائص دلچسپ انداز میں بیان کیے ہیں۔
''کیا کیا طلسم دفن ہیں'' یہ مضمون یونان کے حوالے سے ہے، ابتدائی سطور میں ایک حکایت بھی لکھی ہے اس کا جز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ کو خصوصی مشن پر یونان کے ایک شہر میں بھیجا ، حضرت جبرئیلؑ نے ایک بچے سے پوچھا'' اس وقت جبرئیلؑ کہاں ہوں گے'' بچے نے اپنی دانش مندی سے فوراً جواب دیا کہ '' جبرئیلؑ نہ آسمانوں میں ہیں، نہ زمین میں، اب یا تو آپ خود ہو سکتے ہیں یا پھر میں۔'' ڈاکٹر صاحب نے یونان کے بارے میں لکھا ہے کہ یونان فلسفیوں، دانشوروں، ادیبوں، طبیبوں، سائنسدانوں اور فاتحین کی سرزمین ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خاصیت یہ ہے کہ دنیا بھر کی معلومات اپنے سفر ناموں کے ذریعے بے حد دلچسپ انداز میں فراہم کرتے ہیں، مزاح کی چاشنی کے ساتھ ساتھ خوب صورت اشعار بھی شامل ہوتے ہیں ، اس سے قاری کا مزہ دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ بے حد قابل، با اخلاق علم و ادب کی بڑی شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔ جب بھی ان کی کتاب موصول ہوتی ان کی نفاست اور سلیقے کو دیکھ کر میں عش عش کر اٹھتی ، تحریر ایسی کہ جیسے موتی جڑے ہوں، مخاطب کرنے کا انداز اس قدر با وقارکہ پڑھ کر یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ہم سے بڑا ادیب کوئی ہے ہی نہیں، یہی ان کی بڑائی اور اعلیٰ ظرفی تھی۔
شائستگی، تہذیب، خوش اخلاقی، صداقت، دیانت، علمیت اور دانشوری کو اگر یکجا کرلیا جائے تو ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصویر اجاگر ہو جائے گی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی لائق اور فرمانبردار اولاد کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے اپنے والد مرحوم کے دوست احباب کو مدعو کرکے حدیث مبارکہ پر بھی عمل کیا اور دعوت پائے اور تقریب رونمائی کی روایت کو برقرار رکھا۔ نثرنگار جناب م۔ض ایمن کی بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب فراہم کی۔ اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گی۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے