کامیابی میں رکاوٹیں
انسان بے حد جلد باز اور بے صبرا واقع ہوا ہے، وہ جلد سے جلد نتائج کا متوقع رہتا ہے،
KARACHI:
انسان بے حد جلد باز اور بے صبرا واقع ہوا ہے، وہ جلد سے جلد نتائج کا متوقع رہتا ہے، یہی حال کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا کا ہے۔ جن لوگوں کو مشقیں تجویز کی گئی تھیں وہ چاہتے ہیں کہ ان مشقوں کے اثرات جلد واضح ہونا شروع ہوجائیں، حالانکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ارتکاز توجہ کی مشقوں میں استغراق کی بے حد اہمیت ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ استغراق کی حقیقی کیفیت ایک دو روز میں پیدا نہیں ہوسکتی، جب آپ کوئی بھی مشق شروع کرتے ہیں تو ابتدائی چالیس روز صرف تربیت حاصل کرنے میں گزر جاتے ہیں، یہ زمانہ سیکھنے کا زمانہ ہے۔ چالیس روز میں آپ کا جسم اور ذہن اس مشق سے مانوس ہوگا، چالیس روز کے بعد مشق کی عادت پختہ ہونا شروع ہوگی اور کہیں تین مہینے میں آپ پر مشق کے اثرات ظاہر ہوں گے، اور چھ ماہ بعد جا کر مشق کی گہرائیاں محسوس ہوں گی، الغرض یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جسمانی ورزش (فزیکل کلچر) کی طرح ذہنی اور دماغی ورزش (سیلف ٹریننگ) بھی تکمیل کے لیے وقت چاہتی ہیں۔
پہلوانوں کے پٹھے برسوں تک دنگل کی خاک اڑاتے اور مٹی چاٹتے ہیں تب کہیں جا کر رستم پاکستان کا گرز تحفتاً ملتا ہے۔ ذہنی ورزش جسمانی کرتبوں سے کہیں زیادہ دیر طلب، دقت طلب اور مشکل طلب ہے، جسم کو توڑنا مروڑنا آسان ہے، ذہن پر قابو پانا، خیال کو مسخر کرنا، تصور کو حسب مرضی استعمال کرنا، یہ ورزشیں، یہ پہلوانیاں اور یہ دائو پیچ اتنے جان لیوا ہیں کہ ان مشقوں کو کرنے والا طالب علم ہی ان دشواریوں کو سمجھ سکتا ہے، محض بیان کرنے سے ان دشواریوں کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ نیز آفتاب بینی کے حوالے سے قارئین مستقل رابطہ کررہے ہیں، ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے کہ پہلے ہمارے کالموں میں بتائی گئی ابتدائی مشقوں سے آغاز کریں، بعد ازاں شمع بینی، ماہ بینی اور آفتاب بینی کی جانب آئیں۔ آفتاب بینی کا تذکرہ اس قدر دیر سے کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ کا جسم اور ذہن ابتدائی ورزشوں کے بعد ایڈوانس مشقوں کے لیے تیار ہوسکے۔
ان مشقوں کے طلبا کی کامیابی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نفسانی (جنسی) خواہشات بھی ہیں۔ اخباری پالیسی کے مطابق ہر موضوع کا کھل کر اظہار ممکن نہیں۔ ہم تذکرہ کرچکے ہیں کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے میں روح حیات کا مرکز واقع ہے، چشم باطن سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اسے ہم کنڈالنی شکتی بھی کہتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی انسانی وجود میں بنیادی ڈھانچے کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی قوت ہے جو جنسی توانائی کا روپ دھار کر حیات انسانی کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتی ہے۔ بعض وجوہات کی بنا پرضعف کمر کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے، مختصر یہ کہ ریڑھ کی ہڈی روحی قوت کا خزانہ ہے اور اسی روحی قوت کا مظہر بلکہ سب سے بڑا مظہر جنسی توانائی بھی ہے۔ روحیت (Psychicism) کے طالب علم کو سختی کے ساتھ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ برے کاموں سے پرہیز کرے۔
برہم چاریہ پن یا عورت سے دوری ان لوگوں کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے نفس کی اعلیٰ صلاحیتوں اور تخلیقی استعدادوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قوت تخلیق کا رخ کرتی ہے تو انسان فنون لطیفہ، فلسفہ اور سائنس کے میدانوں میں ایسے شاہکاروں کو جنم دیتا ہے کہ نسلوں تک یادگار رہتے ہیں۔ کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا کو بھی میری یہی ہدایت ہے کہ ان مشقوں سے ذہنی اور روحی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں حتی الامکان مجرد (برہم چاریہ) رہنا چاہیے، اسی کے ساتھ ہیجان آور اشیا (مثلاً چائے، قہوہ، کافی، الکحل، تمباکو اور گوشت وغیرہ) سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ خون کو گرم کرنے اور ہیجان میں لانے والی چیزیں اعصاب کا سکون چھین لیتی ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے، ہماری توجہ روح سے ہٹ کر جسم کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس طرح تعمیر و تنظیم شخصیت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ سانس کی مشقیں ہوں یا ارتکاز توجہ، یہ دونوں تنویمی قوت پیدا کرتی ہیں، تنویمی قوت کا تعلق بھی ریڑھ کی ہڈی میں جاگزیں روح حیات سے ہی ہے۔
ہماری تمام ذہنی الجھنوں کا سبب ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ ارادے کی قوت مضمحل ہوجاتی ہے اور کوئی ایک منفی اور تخریبی جذبہ دل و دماغ پر حاوی ہوجاتا ہے، مریض لاکھ کوشش کرتا رہے کہ ارادے کی قوت کو بروئے کار لاکر حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرے مگر لاشعور کی ایک نہ دکھائی دینے والی زنجیر اسے اپنے مقام سے ہلنے نہیں دیتی۔ نفسیاتی طریق علاج یہ ہے کہ مریض کے ذہن کی چھان بین کی جاتی ہے تاکہ اس جذباتی کانٹے کو نکالا جاسکے جو شخصیت کو زخمی اور مجروح کررہا ہے اور آدمی ذہنی طور پر پنپنے نہیں پاتا، اس طریقہ علاج کو تحلیل نفسی (Psycho Analysis) کہتے ہیں۔ مشہور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ اور اس کے شاگردوں نے تحلیل نفسی کے ذریعے ذہنی مریضوں کے طرز علاج پر اس قدر زور دیا ہے کہ یہ باضابطہ نفسیات کا ایک مکتبہ قرار پاگیا ہے۔ بے شک نفسیاتی مریضوں کی یادوں، یادداشتوں اور ذہن کی اندرونی تہوں کو ٹٹولنے سے بہت سا گندہ جذباتی مواد برآمد ہوتا ہے اور اس طرح وقتی طور پر مریض کو افاقہ بھی محسوس ہوتا ہے، جذباتی دبائو میں کمی بھی آجاتی ہے تاہم یہ علاج اتنا دیر طلب اور مہنگا ہے کہ عام ذہنی مریض خصوصاً پاکستان میں نہ تحلیل نفسی کے مصارف برداشت کرسکتے ہیں اور نہ معالج کے ساتھ اتنا وقت گزار سکتے ہیں کہ وہ ان کی شخصیت کو ادھیڑ کر اور اس کے تمام ٹانکے توڑ کر نفس کے لباس کہنہ کو از سر نو سی سکے۔ میں ان مریضوں کو تعمیر و تنظیم شخصیت کی بعض مشقوں پر عمل کی ہدایت کے ساتھ یہی مشورہ دوں گا کہ وہ ذاتی تحلیل نفسی کی ذمے داری خود قبول کریں۔ (ذاتی تحلیل نفسی ایک مستقل موضوع ہے جس پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی)۔
میرے فیس بک پیج پر قارئین کی شکایت بجا ہے کہ ہر کالم میں کسی ماہر یا استاد کی نگرانی میں مشق کی ہدایت دی جاتی ہے لیکن اس استاد کی تلاش کیسے ممکن ہو۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سلسلے میں تحقیق کررہے ہیں اور کراچی کے مختلف اداروں کی حقیقت چھان رہے ہیں، جلد ہی کچھ حقیقی ماہرین کا تعارف اپنے کالموں میں پیش کریں گے جہاں سے قارئین استفادہ حاصل کرسکیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
انسان بے حد جلد باز اور بے صبرا واقع ہوا ہے، وہ جلد سے جلد نتائج کا متوقع رہتا ہے، یہی حال کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا کا ہے۔ جن لوگوں کو مشقیں تجویز کی گئی تھیں وہ چاہتے ہیں کہ ان مشقوں کے اثرات جلد واضح ہونا شروع ہوجائیں، حالانکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ارتکاز توجہ کی مشقوں میں استغراق کی بے حد اہمیت ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ استغراق کی حقیقی کیفیت ایک دو روز میں پیدا نہیں ہوسکتی، جب آپ کوئی بھی مشق شروع کرتے ہیں تو ابتدائی چالیس روز صرف تربیت حاصل کرنے میں گزر جاتے ہیں، یہ زمانہ سیکھنے کا زمانہ ہے۔ چالیس روز میں آپ کا جسم اور ذہن اس مشق سے مانوس ہوگا، چالیس روز کے بعد مشق کی عادت پختہ ہونا شروع ہوگی اور کہیں تین مہینے میں آپ پر مشق کے اثرات ظاہر ہوں گے، اور چھ ماہ بعد جا کر مشق کی گہرائیاں محسوس ہوں گی، الغرض یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جسمانی ورزش (فزیکل کلچر) کی طرح ذہنی اور دماغی ورزش (سیلف ٹریننگ) بھی تکمیل کے لیے وقت چاہتی ہیں۔
پہلوانوں کے پٹھے برسوں تک دنگل کی خاک اڑاتے اور مٹی چاٹتے ہیں تب کہیں جا کر رستم پاکستان کا گرز تحفتاً ملتا ہے۔ ذہنی ورزش جسمانی کرتبوں سے کہیں زیادہ دیر طلب، دقت طلب اور مشکل طلب ہے، جسم کو توڑنا مروڑنا آسان ہے، ذہن پر قابو پانا، خیال کو مسخر کرنا، تصور کو حسب مرضی استعمال کرنا، یہ ورزشیں، یہ پہلوانیاں اور یہ دائو پیچ اتنے جان لیوا ہیں کہ ان مشقوں کو کرنے والا طالب علم ہی ان دشواریوں کو سمجھ سکتا ہے، محض بیان کرنے سے ان دشواریوں کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ نیز آفتاب بینی کے حوالے سے قارئین مستقل رابطہ کررہے ہیں، ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے کہ پہلے ہمارے کالموں میں بتائی گئی ابتدائی مشقوں سے آغاز کریں، بعد ازاں شمع بینی، ماہ بینی اور آفتاب بینی کی جانب آئیں۔ آفتاب بینی کا تذکرہ اس قدر دیر سے کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ کا جسم اور ذہن ابتدائی ورزشوں کے بعد ایڈوانس مشقوں کے لیے تیار ہوسکے۔
ان مشقوں کے طلبا کی کامیابی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نفسانی (جنسی) خواہشات بھی ہیں۔ اخباری پالیسی کے مطابق ہر موضوع کا کھل کر اظہار ممکن نہیں۔ ہم تذکرہ کرچکے ہیں کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے میں روح حیات کا مرکز واقع ہے، چشم باطن سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اسے ہم کنڈالنی شکتی بھی کہتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی انسانی وجود میں بنیادی ڈھانچے کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی قوت ہے جو جنسی توانائی کا روپ دھار کر حیات انسانی کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتی ہے۔ بعض وجوہات کی بنا پرضعف کمر کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے، مختصر یہ کہ ریڑھ کی ہڈی روحی قوت کا خزانہ ہے اور اسی روحی قوت کا مظہر بلکہ سب سے بڑا مظہر جنسی توانائی بھی ہے۔ روحیت (Psychicism) کے طالب علم کو سختی کے ساتھ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ برے کاموں سے پرہیز کرے۔
برہم چاریہ پن یا عورت سے دوری ان لوگوں کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے نفس کی اعلیٰ صلاحیتوں اور تخلیقی استعدادوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قوت تخلیق کا رخ کرتی ہے تو انسان فنون لطیفہ، فلسفہ اور سائنس کے میدانوں میں ایسے شاہکاروں کو جنم دیتا ہے کہ نسلوں تک یادگار رہتے ہیں۔ کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا کو بھی میری یہی ہدایت ہے کہ ان مشقوں سے ذہنی اور روحی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں حتی الامکان مجرد (برہم چاریہ) رہنا چاہیے، اسی کے ساتھ ہیجان آور اشیا (مثلاً چائے، قہوہ، کافی، الکحل، تمباکو اور گوشت وغیرہ) سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ خون کو گرم کرنے اور ہیجان میں لانے والی چیزیں اعصاب کا سکون چھین لیتی ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے، ہماری توجہ روح سے ہٹ کر جسم کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس طرح تعمیر و تنظیم شخصیت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ سانس کی مشقیں ہوں یا ارتکاز توجہ، یہ دونوں تنویمی قوت پیدا کرتی ہیں، تنویمی قوت کا تعلق بھی ریڑھ کی ہڈی میں جاگزیں روح حیات سے ہی ہے۔
ہماری تمام ذہنی الجھنوں کا سبب ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ ارادے کی قوت مضمحل ہوجاتی ہے اور کوئی ایک منفی اور تخریبی جذبہ دل و دماغ پر حاوی ہوجاتا ہے، مریض لاکھ کوشش کرتا رہے کہ ارادے کی قوت کو بروئے کار لاکر حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرے مگر لاشعور کی ایک نہ دکھائی دینے والی زنجیر اسے اپنے مقام سے ہلنے نہیں دیتی۔ نفسیاتی طریق علاج یہ ہے کہ مریض کے ذہن کی چھان بین کی جاتی ہے تاکہ اس جذباتی کانٹے کو نکالا جاسکے جو شخصیت کو زخمی اور مجروح کررہا ہے اور آدمی ذہنی طور پر پنپنے نہیں پاتا، اس طریقہ علاج کو تحلیل نفسی (Psycho Analysis) کہتے ہیں۔ مشہور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ اور اس کے شاگردوں نے تحلیل نفسی کے ذریعے ذہنی مریضوں کے طرز علاج پر اس قدر زور دیا ہے کہ یہ باضابطہ نفسیات کا ایک مکتبہ قرار پاگیا ہے۔ بے شک نفسیاتی مریضوں کی یادوں، یادداشتوں اور ذہن کی اندرونی تہوں کو ٹٹولنے سے بہت سا گندہ جذباتی مواد برآمد ہوتا ہے اور اس طرح وقتی طور پر مریض کو افاقہ بھی محسوس ہوتا ہے، جذباتی دبائو میں کمی بھی آجاتی ہے تاہم یہ علاج اتنا دیر طلب اور مہنگا ہے کہ عام ذہنی مریض خصوصاً پاکستان میں نہ تحلیل نفسی کے مصارف برداشت کرسکتے ہیں اور نہ معالج کے ساتھ اتنا وقت گزار سکتے ہیں کہ وہ ان کی شخصیت کو ادھیڑ کر اور اس کے تمام ٹانکے توڑ کر نفس کے لباس کہنہ کو از سر نو سی سکے۔ میں ان مریضوں کو تعمیر و تنظیم شخصیت کی بعض مشقوں پر عمل کی ہدایت کے ساتھ یہی مشورہ دوں گا کہ وہ ذاتی تحلیل نفسی کی ذمے داری خود قبول کریں۔ (ذاتی تحلیل نفسی ایک مستقل موضوع ہے جس پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی)۔
میرے فیس بک پیج پر قارئین کی شکایت بجا ہے کہ ہر کالم میں کسی ماہر یا استاد کی نگرانی میں مشق کی ہدایت دی جاتی ہے لیکن اس استاد کی تلاش کیسے ممکن ہو۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سلسلے میں تحقیق کررہے ہیں اور کراچی کے مختلف اداروں کی حقیقت چھان رہے ہیں، جلد ہی کچھ حقیقی ماہرین کا تعارف اپنے کالموں میں پیش کریں گے جہاں سے قارئین استفادہ حاصل کرسکیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)