پی ٹی آئی کا مستقبل
اندازہ بھی پیش کیا تھا کہ آئندہ اس جماعت کی اقتدار میں واپسی کے امکانات محدود ہیں
سیاست کو کیسے سمجھیں، برادرم ناصر الدین محمود نے یہ فن فتح یاب علی خان صاحب سے سیکھا۔ ہماری چکا چوند سیاست اور صحافت کے عہد میں ممکن ہے کہ کوئی اس بزرگ کو جانتا ہی نہ ہو۔
خان صاحب کا شمار بلا خوف تردید ایسے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ جنھوں نے اپنی آدرشوں کے تعاقب میں پوری زندگی کھپا دی۔ ہماری قومی پالیسیوں میں خان صاحب کا کتنا مؤثر اور مثبت حصہ تھا، اس کا اندازہ سی ٹی بی ٹی جیسے پیچیدہ بین الاقوامی مسئلے سے کیا جا سکتا ہے جس کے ماننے نہ ماننے کے غیر معمولی اثرات پاکستان پر ہو سکتے تھے ۔ بے نظیر بھٹو نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا، اس سلسلے میں مسئلے کے سمجھانے سے لے کر بیانیہ بنانے تک فتح یاب علی خان صاحب ہی کا بنیادی کردار تھا۔
افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی اور اسی عرصے کے دوران میں بائیں بازو کی اس عالمی قوت کے انہدام کے نتیجے میں جو نئی دنیا وجود میں آ رہی تھی، اسی زمانے میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی اور بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد یہ ایک بدلی ہوئی دنیا تھی جس کی نزاکتیں بڑے بڑے دانش وروں اور عالمی سیاست میں اہمیت رکھنے والے سیاست دانوں کی سمجھ میں بھی مشکل سے آتی تھیں۔
اس اہم مسئلے پر فتح یاب علی خان ہی تھے جنھوں نے بے نظیر بھٹو کا ہاتھ تھاما اور انھیں بتایا کہ یک قطبی دنیا کا نظام کیسا ہوگا اور اس میں پاکستان کو اپنا مقام کیسے بنانا ہے۔یک قطبی دنیا میں پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے اور نئی رونما ہونے والی کش مکش میں پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرنا ہے؟
یہ طویل اور پیچیدہ موضوعات تھے جنھیں ایک دو نشستوں میں سمیٹا نہیں جاسکتا تھا۔ لہٰذا ایسے معاملات پر بے نظیر بھٹو اور خان صاحب کی درجنوں نشستیں رہیں۔ اللہ انھیں سلامت رکھے، ناصر الدین محمود ان تمام نشستوں کے عینی شاہد اور گواہ کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہیں ۔
دیگر سیاست دانوں، مدبرین اور فتح یاب علی خان میں ایک بڑا فرق تھا۔ لوگ اپنے فوری سیاسی فائدے اور مخالفین کی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ خان صاحب کا طریقہ مختلف تھا۔ وہ قومی صورت حال کا تجزیہ تین مرحلوں میں کرتے۔ اول، بین الاقوامی صورت حال ، دوم، علاقائی صورت حال اور سوم، پاکستان کے معروضی حالات، ہمارے طاقت کے مراکز کے مفادات، انداز فکر اور روایت۔ وہ پاکستان کے کسی بھی بحران کا تجزیہ نہایت ٹھنڈے انداز میں ان تین عوامل کی روشنی میں کر کے دو تین ممکنہ نتائج اور ان نتائج کی روشنی میں ممکنہ حل پیش کیا کرتے۔ عام طور پر ان کا تجزیہ بھی درست ہوتا اور ان کی بتائی ہوئی حکمت عملی بھی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ خان صاحب کا شمار ایسے بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پیچھے رہ کر کسی مفاد کے بغیر قوم کی خدمت کی۔ ایک ایسی خدمت جس کے اثرات اہم ترین قومی پالیسیوں میں آج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
وہ آئین، قانون اور سیاست کے کتنے بڑے نبض شناس تھے، یہ اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہر پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں ان ہی سے مشورہ کیا کرتیں۔ ان اہم ملاقاتوں میں اگر کوئی تیسرا فرد ہوتا تو ہمارے یہی ناصر الدین محمود ہوا کرتے تھے۔ خان صاحب محترمہ کو آئینی اور قانونی مشورے دیا کرتے اور سیاسی داؤ پیچ بتایا کرتے۔ ناصر اپنے وقت کے ان دو بڑوں کے درمیان تبادلہ خیال کے صرف گواہ نہیں ہیں بلکہ انھیں ان تاریخی گفتگوؤں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دوران گفتگو انھیں احساس ہوا کہ زیر بحث معاملے میں خان صاحب کوئی نکتہ بھول رہے ہیں، ناصرخاموشی کے ساتھ اٹھے اور آئین کا متعلقہ حصہ نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ خان صاحب نے شکر گزار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور اپنے مشورے میں وہ نکتہ بھی شامل کر دیا۔ اپنے خوردوں اور شاگردوں کو ایسا اعتماد اور آزادی دینے والے بزرگ چلے گئے۔ اب تو یہ زمانہ آ لگا ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ میں لیڈر ہوں، مجھے راستہ کون بتائے گا؟
خیر، اس جملہ معترضہ کو جانے دیجیے اور یہ دیکھئے کہ ہمارے بھائی ناصر نے خان صاحب سے کیا کیا سیکھ رکھا ہے۔دو ہزار تیرہ میں جب طاہر القادری صاحب نے پچاس لاکھ شرکا کے مضحکہ خیز دعوے کے ساتھ اسلام آباد میں معصوم سا دھرنا دیا تو عمومی خیال یہی تھا کہ اب انتخابات کی منزل دور ہو جائے گی۔
طاہر القادری جب تشنج کی کیفیت میں کانپتے ہوئے کہتے کہ سیاست نہیں ریاست اور نظام کی بساط لپیٹ دی جائے تو آمریت کے مختلف زمانوں کی کج ادائیوں کا تجربہ رکھنے والے پاکستانی کانپ جاتے اور سوچتے کہ کہیں یہ کسی نئی مہم جوئی کا نکتہ آغاز تو نہیں؟ مایوسی کی اس کیفیت میں ناصر ہی تھے جن کا خیال تھا کہ یہ سارا شور شرابا چند دن میں تھم جائے گا اور انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے پھر ایسا ہی ہوا۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابی نتائج کیا ہوں گے، اس پر طرح طرح کی آرا موجود تھیں۔ ایک شام گلشن اقبال کے کوئٹہ عنابی ہوٹل کے سرخ انگاروں پر دم کی ہوئی چائے کی سرکی لگاتے ہوئے ہمارے دوست نے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق مسلم لیگ ن ایک سو پچیس نشستیں لے جائے گی۔ یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ اس بیچ میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے بارے میں ہمارے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے بھانت کی بولیاں بولیں لیکن نتیجہ وہی نکلا جس کی نشان دہی ہمارے اس دوست نے کی لیکن ہم یہ داستان مختصر کرتے ہیں اور موجودہ صورت حال کی طرف آتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آیا تو ہمارے سرد و گرم چشیدہ شیخ رشید نے جو دعوے کیے سو کیے، بہت سے دیگر بھی یا ووٹ گننے پرلگے رہے یا ان کی توجہ مقامی جوڑ توڑ پر مبذول رہی۔ یہ ناصر الدین محمود ہی تھے جنھوں نے بہت پہلے صورت حال کا جامع جائزہ لے کر بتا دیا تھا کہ پاکستان کے سیاسی، اقتصادی نیز پاور اسٹرکچر کے وہ کیا مسائل ہیں جن کے باعث عمران حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔
انھوں نے صرف اس حکومت کے جانے کی پیشین گوئی نہیں کی تھی، یہ اندازہ بھی پیش کیا تھا کہ آئندہ اس جماعت کی اقتدار میں واپسی کے امکانات محدود ہیں۔حکومت سے محرومی کے بعد عمران خان کی مقبولیت کی جو لہر اٹھی، اس کے بارے میں عمومی اندازے تو یہی ہیں کہ نہ صرف آئندہ انتخابات میں یہ جماعت اپنے مخالفین کا تیا پانچہ کر کے رکھ دے گی بلکہ اپنی اسٹریٹ پاور سے مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔ ناصر کی رائے اس سلسلے میں مختلف ہے۔
ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے ایک خاص انداز کے جلسے اپنی جگہ لیکن یہ جماعت اس قسم کی سیاسی مزاحمت نہیں کر سکے گی جس کا تجربہ گزشتہ پون صدی میں پاکستان کی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہو چکا ہے۔ اختلاف رکھنے والوں نے ان سے اختلاف کیا لیکن شہباز گل کی گرفتاری کے بعد کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ رائے بھی درست ثابت ہو گی۔
خان صاحب کا شمار بلا خوف تردید ایسے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ جنھوں نے اپنی آدرشوں کے تعاقب میں پوری زندگی کھپا دی۔ ہماری قومی پالیسیوں میں خان صاحب کا کتنا مؤثر اور مثبت حصہ تھا، اس کا اندازہ سی ٹی بی ٹی جیسے پیچیدہ بین الاقوامی مسئلے سے کیا جا سکتا ہے جس کے ماننے نہ ماننے کے غیر معمولی اثرات پاکستان پر ہو سکتے تھے ۔ بے نظیر بھٹو نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا، اس سلسلے میں مسئلے کے سمجھانے سے لے کر بیانیہ بنانے تک فتح یاب علی خان صاحب ہی کا بنیادی کردار تھا۔
افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی اور اسی عرصے کے دوران میں بائیں بازو کی اس عالمی قوت کے انہدام کے نتیجے میں جو نئی دنیا وجود میں آ رہی تھی، اسی زمانے میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی اور بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد یہ ایک بدلی ہوئی دنیا تھی جس کی نزاکتیں بڑے بڑے دانش وروں اور عالمی سیاست میں اہمیت رکھنے والے سیاست دانوں کی سمجھ میں بھی مشکل سے آتی تھیں۔
اس اہم مسئلے پر فتح یاب علی خان ہی تھے جنھوں نے بے نظیر بھٹو کا ہاتھ تھاما اور انھیں بتایا کہ یک قطبی دنیا کا نظام کیسا ہوگا اور اس میں پاکستان کو اپنا مقام کیسے بنانا ہے۔یک قطبی دنیا میں پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے اور نئی رونما ہونے والی کش مکش میں پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرنا ہے؟
یہ طویل اور پیچیدہ موضوعات تھے جنھیں ایک دو نشستوں میں سمیٹا نہیں جاسکتا تھا۔ لہٰذا ایسے معاملات پر بے نظیر بھٹو اور خان صاحب کی درجنوں نشستیں رہیں۔ اللہ انھیں سلامت رکھے، ناصر الدین محمود ان تمام نشستوں کے عینی شاہد اور گواہ کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہیں ۔
دیگر سیاست دانوں، مدبرین اور فتح یاب علی خان میں ایک بڑا فرق تھا۔ لوگ اپنے فوری سیاسی فائدے اور مخالفین کی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ خان صاحب کا طریقہ مختلف تھا۔ وہ قومی صورت حال کا تجزیہ تین مرحلوں میں کرتے۔ اول، بین الاقوامی صورت حال ، دوم، علاقائی صورت حال اور سوم، پاکستان کے معروضی حالات، ہمارے طاقت کے مراکز کے مفادات، انداز فکر اور روایت۔ وہ پاکستان کے کسی بھی بحران کا تجزیہ نہایت ٹھنڈے انداز میں ان تین عوامل کی روشنی میں کر کے دو تین ممکنہ نتائج اور ان نتائج کی روشنی میں ممکنہ حل پیش کیا کرتے۔ عام طور پر ان کا تجزیہ بھی درست ہوتا اور ان کی بتائی ہوئی حکمت عملی بھی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ خان صاحب کا شمار ایسے بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پیچھے رہ کر کسی مفاد کے بغیر قوم کی خدمت کی۔ ایک ایسی خدمت جس کے اثرات اہم ترین قومی پالیسیوں میں آج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
وہ آئین، قانون اور سیاست کے کتنے بڑے نبض شناس تھے، یہ اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہر پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں ان ہی سے مشورہ کیا کرتیں۔ ان اہم ملاقاتوں میں اگر کوئی تیسرا فرد ہوتا تو ہمارے یہی ناصر الدین محمود ہوا کرتے تھے۔ خان صاحب محترمہ کو آئینی اور قانونی مشورے دیا کرتے اور سیاسی داؤ پیچ بتایا کرتے۔ ناصر اپنے وقت کے ان دو بڑوں کے درمیان تبادلہ خیال کے صرف گواہ نہیں ہیں بلکہ انھیں ان تاریخی گفتگوؤں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دوران گفتگو انھیں احساس ہوا کہ زیر بحث معاملے میں خان صاحب کوئی نکتہ بھول رہے ہیں، ناصرخاموشی کے ساتھ اٹھے اور آئین کا متعلقہ حصہ نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ خان صاحب نے شکر گزار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور اپنے مشورے میں وہ نکتہ بھی شامل کر دیا۔ اپنے خوردوں اور شاگردوں کو ایسا اعتماد اور آزادی دینے والے بزرگ چلے گئے۔ اب تو یہ زمانہ آ لگا ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ میں لیڈر ہوں، مجھے راستہ کون بتائے گا؟
خیر، اس جملہ معترضہ کو جانے دیجیے اور یہ دیکھئے کہ ہمارے بھائی ناصر نے خان صاحب سے کیا کیا سیکھ رکھا ہے۔دو ہزار تیرہ میں جب طاہر القادری صاحب نے پچاس لاکھ شرکا کے مضحکہ خیز دعوے کے ساتھ اسلام آباد میں معصوم سا دھرنا دیا تو عمومی خیال یہی تھا کہ اب انتخابات کی منزل دور ہو جائے گی۔
طاہر القادری جب تشنج کی کیفیت میں کانپتے ہوئے کہتے کہ سیاست نہیں ریاست اور نظام کی بساط لپیٹ دی جائے تو آمریت کے مختلف زمانوں کی کج ادائیوں کا تجربہ رکھنے والے پاکستانی کانپ جاتے اور سوچتے کہ کہیں یہ کسی نئی مہم جوئی کا نکتہ آغاز تو نہیں؟ مایوسی کی اس کیفیت میں ناصر ہی تھے جن کا خیال تھا کہ یہ سارا شور شرابا چند دن میں تھم جائے گا اور انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے پھر ایسا ہی ہوا۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابی نتائج کیا ہوں گے، اس پر طرح طرح کی آرا موجود تھیں۔ ایک شام گلشن اقبال کے کوئٹہ عنابی ہوٹل کے سرخ انگاروں پر دم کی ہوئی چائے کی سرکی لگاتے ہوئے ہمارے دوست نے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق مسلم لیگ ن ایک سو پچیس نشستیں لے جائے گی۔ یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ اس بیچ میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے بارے میں ہمارے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے بھانت کی بولیاں بولیں لیکن نتیجہ وہی نکلا جس کی نشان دہی ہمارے اس دوست نے کی لیکن ہم یہ داستان مختصر کرتے ہیں اور موجودہ صورت حال کی طرف آتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آیا تو ہمارے سرد و گرم چشیدہ شیخ رشید نے جو دعوے کیے سو کیے، بہت سے دیگر بھی یا ووٹ گننے پرلگے رہے یا ان کی توجہ مقامی جوڑ توڑ پر مبذول رہی۔ یہ ناصر الدین محمود ہی تھے جنھوں نے بہت پہلے صورت حال کا جامع جائزہ لے کر بتا دیا تھا کہ پاکستان کے سیاسی، اقتصادی نیز پاور اسٹرکچر کے وہ کیا مسائل ہیں جن کے باعث عمران حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔
انھوں نے صرف اس حکومت کے جانے کی پیشین گوئی نہیں کی تھی، یہ اندازہ بھی پیش کیا تھا کہ آئندہ اس جماعت کی اقتدار میں واپسی کے امکانات محدود ہیں۔حکومت سے محرومی کے بعد عمران خان کی مقبولیت کی جو لہر اٹھی، اس کے بارے میں عمومی اندازے تو یہی ہیں کہ نہ صرف آئندہ انتخابات میں یہ جماعت اپنے مخالفین کا تیا پانچہ کر کے رکھ دے گی بلکہ اپنی اسٹریٹ پاور سے مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔ ناصر کی رائے اس سلسلے میں مختلف ہے۔
ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے ایک خاص انداز کے جلسے اپنی جگہ لیکن یہ جماعت اس قسم کی سیاسی مزاحمت نہیں کر سکے گی جس کا تجربہ گزشتہ پون صدی میں پاکستان کی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہو چکا ہے۔ اختلاف رکھنے والوں نے ان سے اختلاف کیا لیکن شہباز گل کی گرفتاری کے بعد کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ رائے بھی درست ثابت ہو گی۔