میرے لوگ مر رہے ہیں

طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بلوچستان سمیت جنوبی پنجاب کی ایک ہزار سے زائد بستیاں اجڑ گئیں

صرف ایک ماہ میں سیلاب سے تقریباً چھ لاکھ 99 ہزار 502 افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اہلِ اقتدار طبقہ حکومت حکومت کھیلنے میں مصروف تھا کہ بلوچستان اور جنوبی پنجاب بشمول حال ہی میں تختِ پنجاب کے بادشاہ، وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے عثمان بزدار کے آبائی علاقہ ڈی جی خان (تونسہ شریف) سے حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد کچھ ایسی دلخراش تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں کہ دل دہل کر رہ گیا۔

کہیں ابھی تک آزادی کا جشن ہی نہیں ختم ہوا۔ نئے سے نئے گانوں کی ریلیز ہی مکمل نہیں ہوئی۔ کہیں نواز شریف کے آنے کی خبریں اور جواب میں پنجاب حکومت کے ان کو فوری گرفتار کرنے کے انتظامات میں مصروفیت کی ہائی لائٹس...

ہم تمام تر میڈیا پر ایک روز سابق حکمران پارٹی پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل کی وہیل چیئر پر بیٹھے ہذیانی انداز میں آہ و بکا سنتے اور اگلے ہی روز اسلام آباد کے پِمز اسپتال میں ان کی ٹانگ پر ٹانگ رکھے تصاویر دیکھتے۔ الزام تراشیوں، دھمکیوں، جلسے جلوسوں اور بیانات کی رنگ برنگی خون گرماتی خبروں میں جنوبی پنجاب کے عوام اور آفت زدہ بلوچستان کے کچھ نوجوان مسلسل ہمیں متوجہ کرنے کےلیے اپنے پیاروں کی کہیں سیلاب میں بہتی اور کہیں مٹی اور گارے میں دفن لاشیں دکھانے کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن ہم تو ٹھنڈے خون کے لوگ ہیں، ہمارا خون ان دور دراز بسے غریب لوگوں کی پانی میں بہتی لاشوں پر کب گرم ہوتا ہے۔ ہماری آنکھوں سے آنسو ان انجان لوگوں، جن کو ہم جانتے تک نہیں، کےلیے کب ٹپکتے ہیں۔ ہاں مگر ہم کہیں مریم نواز کے کسی پوائنٹ اسکورنگ بیان پر واہ واہ اور کہیں ہینڈسم عمران خان کے کسی جھوٹے نعرے پر اَش اَش ضرور کر اٹھتے ہیں۔

رات گئے جلسے جلوسوں میں ہمارے بچے تک سیاستدان بنے جاگتے نظر آتے ہیں، ان کی ویڈیوز وائرل ہوتی نظر آتی ہیں اور کہیں بے یارو مددگار بنا سہولتوں والے دور دراز علاقوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے لاوارث عوام پر ہمارے بڑے، اور خاص کر حکمران جن کا یہ فرض اور ذمے داری ہے، پتا نہیں کون سا نشہ کرکے سوئے ہیں کہ ضمیر کے ساتھ ان کے دل اور دماغ اور احساس تک سوگیا ہے۔ صرف چند ایک بیانات اور امداد کے اعلانات کافی نہیں۔

اب تک کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ شروع ہونے والی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بلوچستان سمیت جنوبی پنجاب کی ایک ہزار سے زائد بستیاں اجڑ گئیں۔ ساڑھے چھ سو سے زائد لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ تین بڑے ڈیم تباہ ہوگئے اور دو سو سے زائد یونین کونسلز سیلابی پانی سے متاثر ہوئیں۔ مجموعی طور پر 20 جولائی سے 20 اگست تک تقریباً چھ لاکھ 99 ہزار 502 افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔


یہاں متحدہ عرب امارات میں بھی گزشتہ ماہ ہونے والی بارشوں سے ریاستِ فجیرہ، راس الخیمہ اور شارجہ کے کچھ علاقے متاثر ہوئے اور تقریباً سات لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن جس طرح ہنگامی بنیادوں پر پورے امارات نے اس مشکل وقت میں لبیک کہا اور ایک دو دنوں میں نہ صرف سارے علاقوں کو صاف کیا بلکہ متاثرہ خاندانوں اور لوگوں کے معاش اور گھروں کی بحالی کےلیے جس طرح کے تیز ترین اقدامات کیے ان سے پسماندگان اور متاثرین کو بہت حوصلہ ملا اور ان کے دکھ بہت حد تک کم ہوگئے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل، ٹیکنالوجی اور انفرااسٹرکچر نہیں کہ حکومتِ پاکستان بھی اپنے سیلاب سے متاثرین لوگوں کی بحالی کا عمل اسی احسن انداز میں کرسکے۔ لیکن دیکھا جائے تو بلوچستان سمیت جنوبی پنجاب اس وقت آفت زدہ علاقے ہیں جہاں ناصرف حکومت کو اپنی خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے بلکہ ہر پاکستانی چاہے وہ پاکستان میں ہے یا دنیا کے کسی بھی خطے میں، اپنی تمام تر ہمدردیاں اور جہاں تک ممکن ہو عملی اقدامات اور وسائل کو مشکل میں پھنسے اپنے ان مجبور پاکستانی بہن بھائیوں کےلیے وقف کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی مدد آپ کے تحت کچھ دواؤں، کھانے، اور عارضی خیموں کا بندوبست کرکے ہم خود یا ان علاقوں کے نزدیک رہنے والے اپنے دوست احباب، رشتے داروں کی ذمے داری لگائیں کہ وہ یہ امداد ہمارے ان پریشان حال بہن بھائیوں تک پہنچائیں۔

چند سال قبل شام کے ساحل پر ایک شامی بچے کی ملنے والی لاش نے دنیا میں موجود تقریباً ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کو اشکبار کردیا۔ اس وقت کتنے ہی معصوم بچوں کی لاشیں پانی میں تیرتی دکھائی دے رہی ہیں، کتنے ہی بزرگ اس بڑھاپے میں سروں پر سامان رکھے کمر کمر پانی میں بھوکے پیاسے نقل مکانی پر مجبور ہیں اور کتنے ہی لوگ زخمی اور مدد کے منتظر ہیں لیکن ان دور افتادہ علاقوں میں نہ تو اسپتال ہیں، نہ میڈیکل کیمپ اور نہ ہی کوئی روڑ سلامت ہے۔

حکومت، عوام اور خصوصاً تارکینِ وطن، اوورسیز پاکستانیوں کو اس مشکل وقت میں باقی سب کچھ ایک طرف رکھ کر اپنے ان لوگوں کی مدد کو پہنچنا ہے تاکہ ہم ان کی محرومیوں کا کچھ نہ کچھ تو ازالہ کرسکیں اور انہیں احساس دلا سکیں کہ وہ اکیلے نہیں، ہمارے لیے غیر نہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہم سب ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story