کراچی آپریشن میں تیزی کی ہدایت
لیاری میں حالات خراب کرنے ہونے کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے ،اس غیر مرئی سرپرستی کا اعلانیہ خاتمہ ضروری ہے
وزیرا عظم میاں محمد نوازشریف نے کراچی سمیت ملک بھر میں سول سیکیورٹی اداروں میں بھرتیوں پر عائد پابندی ختم کردی اور ہدایت کی کہ پولیس میں بھرتیوں کے عمل کے لیے پاک فوج کے بھرتی کے مراکز کی خدمات حاصل کی جائیں ، بیرون ملک فرارہونے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے وفاقی وزارت داخلہ سندھ حکومت سے مشاورت کے بعد انٹرپول سے رجوع کرے گی ، کراچی آپریشن پر بلیک میل نہیں ہوں گے ۔
جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنیوالی سیاسی شخصیات کو بھی بغیر کسی دباؤ کے گرفتار کرنے کی ہدایت اس بار وزیراعظم کی طرف سے جس دو ٹوک انداز میں آئی ہے توقع کی جانی چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اسی جوش وجذبہ ، پیشہ ورانہ کمٹمنٹ اور فرض شناسی کے ساتھ اس پر عملدرآمد کرینگے۔اجلاس میں گورنر عشرت العباد ، وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی سیکریٹری داخلہ ،ڈی جی آئی بی ، چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ممتاز شاہ ،ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر، قائم مقام آئی جی سندھ اقبال محمود ،ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ کراچی و لیاری سمیت ملک کے دیگر علاقے دہشتگردی کے جن المناک واقعات سے لرز اٹھے ہیں ان کے تناظر میں جمعہ کو وزیراعظم کی زیر صدارت گورنر ہاؤس میں اجلاس امن ومان کی مجموعی بحالی اور ریاستی رٹ قائم کرنے کوششوں کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پشاور کے نواحی علاقے سربند اور کوئٹہ میں جناح روڈ پر بم دھماکوں کی ذمے داری احرارالہند نے قبول کر لی ہے جب کہ تحریک طالبان نے پشاور اور کوئٹہ بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار اور مذمت کی ہے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ وہ کراچی آپریشن کی نگرانی خود کررہے ہیں جو اس امر کا اشارہ ہے کہ اب حکومت و ریاست بد امنی اور بلا جواز قتل و غارت کی وارداتوں سے پیدا ہونے والی روز روز کی ہزیمت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں اس لیے وقت آگیا ہے کہ فاٹا ، بلوچستان ،پنجاب اور منی پاکستان میں قانون شکن قوتوں کی سرکشی کو پوری طاقت سے کچل دیا جائے ۔ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ کچھ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، لیاری میں حالات خراب کرنے ہونے کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے ،اس غیر مرئی سرپرستی کا اعلانیہ خاتمہ ضروری ہے۔ کسی گینگ وار سرغنہ،ٹارگٹ کلر،ڈرگ ولینڈ مافیا کے کارندہ ، بھتہ خور کو حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے حفاظتی چھتری ملنے کا یقین نہیں ہونا چاہیے، یہ عناصر جمہوریت کے دشمن اور معاشرے سے مستقل انتقام لے رہے ہیں ۔ سیکیورٹی حکام بیگناہوں کے خون سے گلشن سیاست کا کاروبار چلانے والوں کا احتساب کریں ۔ بلاشبہ خرابی اور انتشار کا ایک بنیادی سبب مجرموں کو حاصل داخلی سیاسی سرپرستی اور بیرونی اشیرباد ہے، لہٰذا ٹارگٹڈآپریشن کسی تخصیص و مصلحت کا شکار نہ ہو اس سے ایک گروپ کے کارندے مارے جاتے ہیں تو دیگر گروپس کو مکمل تحفظ دیے جانے کے الزامات سے فضا خراب ہوتی ہے ۔
حکومت سیاسی جماعتوں میں موجود عسکری ونگزکا بلا تاخیر نوٹس لے ،جگہ جگہ چوکیاں قائم کی جائیں، ملک بھر میں انٹیلی جنس شیئرنگ مربوط اور مضبوط بنائی جائے۔ سیکیورٹی حکام اس کوتاہی کی تہہ تک اتریں اور دیکھیں کہ حالیہ دنوں میں بد امنی میں ملوث بڑے ملزمان کس طرح ملک سے فرار ہوکر مسقط، دبئی ،بحرین، لندن اور جنوبی افریقہ پہنچ جاتے ہیں ،ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں اور انھیں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا جائے جہاں قانون کے مطابق انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔جمہوریت کو نہ اپوزیشن سے نہ فوج سے اور نہ کسی خارجی قوت سے خطرہ ہے اسے خطرہ ٹارگٹ کلرز ، وارداتوںمیں ملوث مختلف عناصر پر مشتمل گروپس ، لینڈ مافیا ، بھتہ خوروں ، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور انتظامیہ کی رگوں میںدوڑتے کرپشن کے پھیلتے زہر سے ہی ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں بد امنی پر وزیر اعظم نے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ جودہشتگرد مفرور ہیں ان کے سروں کی قیمتیں فوری مقرر کی جائیں تاکہ کراچی کومحفوظ شہر بنانے کی حکومتی خواہش پوری ہو کیونکہ کراچی کی ترقی سے ہی ملک کی ترقی وابستہ ہے، یہ ملکی معیشت کی شہ رگ اور پاکستان کا دل ہے۔
اجلاس میں سیکیورٹی حکام نے اس امر کی درست نشاندہی کی کہ لیاری میں2 گروپوں میں قبضے کی خونریز لڑائی ہورہی ہے، ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کے مطابق لیاری میں گینگسٹرز کو حکمران جماعت کے کچھ مقامی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے،جب تک سیاسی سرپرستی ختم نہیں کی جائے گی گینگسٹرز کا خاتمہ ناممکن ہے اورلیاری میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ وزیراعظم نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی خوش آئند بات کی ہے ، اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہی ملک کا مفاد ہے ۔ کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے پی اے ایف میوزیم میں کراچی ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا کراچی پاکستان کا دل اور تجارت کا دارالحکومت ہے، پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے جرائم، انتہا پسندی، دہشتگردی کا خاتمہ ہو تاکہ پاکستان مخالف غیرملکی ٹریول ایڈوائسز کااجرا رک سکے، غیرملکی دبئی میں پاکستان تاجروں کے ساتھ کاروباری معاہدے کرنے کے بجائے پاکستان آکر کاروباری و سرمایہ کاری معاہدے کرسکیں، کراچی لاہور موٹر وے منصوبے پر جلد سرگرمیاںشروع ہو جائیں گی، حکومت چند سالہ نہیں آئندہ 25 سال کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک کراچی سمیت پورا ملک تمام جرائم ، خونریزی اور بد امنی سے پاک نہیں ہوجاتا نہ صرف شہر قائد بلکہ باقی تینوں صوبوں میں بھی مجرمانہ سرگرمیوںمیں ملوث عناصر کے خلاف آپریشن کسی طور بند نہیں ہونا چاہیے۔جب جاکر مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔
جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنیوالی سیاسی شخصیات کو بھی بغیر کسی دباؤ کے گرفتار کرنے کی ہدایت اس بار وزیراعظم کی طرف سے جس دو ٹوک انداز میں آئی ہے توقع کی جانی چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اسی جوش وجذبہ ، پیشہ ورانہ کمٹمنٹ اور فرض شناسی کے ساتھ اس پر عملدرآمد کرینگے۔اجلاس میں گورنر عشرت العباد ، وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی سیکریٹری داخلہ ،ڈی جی آئی بی ، چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ممتاز شاہ ،ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر، قائم مقام آئی جی سندھ اقبال محمود ،ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ کراچی و لیاری سمیت ملک کے دیگر علاقے دہشتگردی کے جن المناک واقعات سے لرز اٹھے ہیں ان کے تناظر میں جمعہ کو وزیراعظم کی زیر صدارت گورنر ہاؤس میں اجلاس امن ومان کی مجموعی بحالی اور ریاستی رٹ قائم کرنے کوششوں کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پشاور کے نواحی علاقے سربند اور کوئٹہ میں جناح روڈ پر بم دھماکوں کی ذمے داری احرارالہند نے قبول کر لی ہے جب کہ تحریک طالبان نے پشاور اور کوئٹہ بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار اور مذمت کی ہے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ وہ کراچی آپریشن کی نگرانی خود کررہے ہیں جو اس امر کا اشارہ ہے کہ اب حکومت و ریاست بد امنی اور بلا جواز قتل و غارت کی وارداتوں سے پیدا ہونے والی روز روز کی ہزیمت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں اس لیے وقت آگیا ہے کہ فاٹا ، بلوچستان ،پنجاب اور منی پاکستان میں قانون شکن قوتوں کی سرکشی کو پوری طاقت سے کچل دیا جائے ۔ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ کچھ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، لیاری میں حالات خراب کرنے ہونے کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے ،اس غیر مرئی سرپرستی کا اعلانیہ خاتمہ ضروری ہے۔ کسی گینگ وار سرغنہ،ٹارگٹ کلر،ڈرگ ولینڈ مافیا کے کارندہ ، بھتہ خور کو حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے حفاظتی چھتری ملنے کا یقین نہیں ہونا چاہیے، یہ عناصر جمہوریت کے دشمن اور معاشرے سے مستقل انتقام لے رہے ہیں ۔ سیکیورٹی حکام بیگناہوں کے خون سے گلشن سیاست کا کاروبار چلانے والوں کا احتساب کریں ۔ بلاشبہ خرابی اور انتشار کا ایک بنیادی سبب مجرموں کو حاصل داخلی سیاسی سرپرستی اور بیرونی اشیرباد ہے، لہٰذا ٹارگٹڈآپریشن کسی تخصیص و مصلحت کا شکار نہ ہو اس سے ایک گروپ کے کارندے مارے جاتے ہیں تو دیگر گروپس کو مکمل تحفظ دیے جانے کے الزامات سے فضا خراب ہوتی ہے ۔
حکومت سیاسی جماعتوں میں موجود عسکری ونگزکا بلا تاخیر نوٹس لے ،جگہ جگہ چوکیاں قائم کی جائیں، ملک بھر میں انٹیلی جنس شیئرنگ مربوط اور مضبوط بنائی جائے۔ سیکیورٹی حکام اس کوتاہی کی تہہ تک اتریں اور دیکھیں کہ حالیہ دنوں میں بد امنی میں ملوث بڑے ملزمان کس طرح ملک سے فرار ہوکر مسقط، دبئی ،بحرین، لندن اور جنوبی افریقہ پہنچ جاتے ہیں ،ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں اور انھیں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا جائے جہاں قانون کے مطابق انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔جمہوریت کو نہ اپوزیشن سے نہ فوج سے اور نہ کسی خارجی قوت سے خطرہ ہے اسے خطرہ ٹارگٹ کلرز ، وارداتوںمیں ملوث مختلف عناصر پر مشتمل گروپس ، لینڈ مافیا ، بھتہ خوروں ، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور انتظامیہ کی رگوں میںدوڑتے کرپشن کے پھیلتے زہر سے ہی ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں بد امنی پر وزیر اعظم نے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ جودہشتگرد مفرور ہیں ان کے سروں کی قیمتیں فوری مقرر کی جائیں تاکہ کراچی کومحفوظ شہر بنانے کی حکومتی خواہش پوری ہو کیونکہ کراچی کی ترقی سے ہی ملک کی ترقی وابستہ ہے، یہ ملکی معیشت کی شہ رگ اور پاکستان کا دل ہے۔
اجلاس میں سیکیورٹی حکام نے اس امر کی درست نشاندہی کی کہ لیاری میں2 گروپوں میں قبضے کی خونریز لڑائی ہورہی ہے، ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کے مطابق لیاری میں گینگسٹرز کو حکمران جماعت کے کچھ مقامی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے،جب تک سیاسی سرپرستی ختم نہیں کی جائے گی گینگسٹرز کا خاتمہ ناممکن ہے اورلیاری میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ وزیراعظم نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی خوش آئند بات کی ہے ، اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہی ملک کا مفاد ہے ۔ کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے پی اے ایف میوزیم میں کراچی ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا کراچی پاکستان کا دل اور تجارت کا دارالحکومت ہے، پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے جرائم، انتہا پسندی، دہشتگردی کا خاتمہ ہو تاکہ پاکستان مخالف غیرملکی ٹریول ایڈوائسز کااجرا رک سکے، غیرملکی دبئی میں پاکستان تاجروں کے ساتھ کاروباری معاہدے کرنے کے بجائے پاکستان آکر کاروباری و سرمایہ کاری معاہدے کرسکیں، کراچی لاہور موٹر وے منصوبے پر جلد سرگرمیاںشروع ہو جائیں گی، حکومت چند سالہ نہیں آئندہ 25 سال کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک کراچی سمیت پورا ملک تمام جرائم ، خونریزی اور بد امنی سے پاک نہیں ہوجاتا نہ صرف شہر قائد بلکہ باقی تینوں صوبوں میں بھی مجرمانہ سرگرمیوںمیں ملوث عناصر کے خلاف آپریشن کسی طور بند نہیں ہونا چاہیے۔جب جاکر مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔