سلامتی کونسل میں اصلاح کی ضرورت

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل 5اراکین کی تعداد میں، جن کو ویٹو پاور یعنی حق استرداد کا اختیارحاصل ہے

سلامتی کونسل کے مستقل اراکین رکھنا کوئی معقول طریق کار نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں اصلاحات کا عمل رکاوٹوں سے دوچار ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل 5اراکین کی تعداد میں، جن کو ویٹو پاور یعنی حق استرداد کا اختیار حاصل ہے، مزید اضافہ کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ پر سالہا سال کے بحث مباحثے کے بعد یہ ظاہر ہوا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین رکھنا کوئی معقول طریق کار نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں اصلاحات کا عمل رکاوٹوں سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خاں نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ ہمیں 1945ء میں اختیار کیے گئے فرسودہ طریق کار کے بجائے جدید' جمہوری اور لچک دار طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو موجودہ پیچیدہ مسائل کے منصفانہ حل کے علاوہ مستقبل کے چیلنجز کا بھی سامنا کر سکے۔ واضح رہے جنگ عظیم اول میں ہونے والے بھاری جانی اور املاک کے نقصانات پر عالمی لیڈروں نے لیگ آف دی نیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تا کہ آئندہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے مگر جنگ عظیم دوئم اپنے ساتھ لیگ آف نیشنز کو بھی بہا کر لے گئی۔


اس جنگ کے اختتام پر 1945ء میں موجودہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا قیام عمل میں آیا جس کی مستقل نشستیں چار ممالک یعنی امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس کو دی گئی تھی جن کو کوئی بھی قرارداد مسترد کرنے کا اختیار بھی شامل تھا تاہم کئی سال بعد دنیا کی ان اپنے تئیں بڑی طاقتوں کو چین کی اہمیت کا بھی احساس ہوا اور سلامتی کونسل کی پانچویں مستقل نشست چین کو دے دی گئی۔ اب مزید مستقل نشستوں کے لیے بھارت، جاپان اور برازیل بھی خود کو حقدار سمجھتے ہیں۔ ان امیدواروں میں براعظم ایشیا سے دو ملک یعنی بھارت اور جاپان ، لاطینی امریکا سے ایک ملک برازیل جب کہ براعظم افریقہ سے جنوبی افریقہ کو نمائندگی کا مستحق خیال کیا جا رہا ہے تاہم پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر مسعود خاں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اراکین کی اس انداز سے درجہ بندی نہیں کی جانی چاہیے جس سے دیگر ممالک کو امتیازی سلوک کا احساس ہو نیز اس طرح اقوام متحدہ کی کارکردگی میں اصلاح اور بہتری کے لیے ایک جمہوری اور برابری کی بنیاد پر مبنی نظام کو رائج کرنا چاہیے۔ ایک ایسا نظام جس سے اس عالمی ادارے کے لیے فیصلہ سازی اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانا آسان ہو سکے۔ نیز سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی کارکردگی میں ایک توازن پیدا ہو سکے۔ اس طریقے سے عالمی تنازعات کو زیادہ بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story