اتا پاکستانی

مصطفیٰ کمال ایک انقلابی شخصیت تھا جو اپنے وطن کے لیے کچھ بہتر کر کے دکھانے کا خواہشمند تھا۔

h.sethi@hotmail.com

جن قارئین نے استنبول کے حوالے سے شائع ہونے والے میرے چار کالم بعنوان استنبول اور شہباز شریف، یہ استنبول ہے، توپ کاپی میوزیم اور گنبد اور مینار پڑھے ہیں، حیرت کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان میں چار سطریں بھی اس شخص کے بارے میں موجود نہیں جسے اہل ترک نے اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب دے رکھا ہے اور جس ایئر پورٹ پر کراچی، اسلام آباد اور لاہور سے اڑنے والی ترکش ایئرلائن کی ایک ہفتے میں نو فلائٹیں لینڈ کر کے مسافروں کو استنبول پہنچاتی ہیں اس کا تو نام ہی اتاترک ایئرپورٹ ہے۔ بہرحال آج موجودہ ترکی کے اس معمار کا ذکر ہو گا جس کا نام سنتے ہی ہر ترک جھک کر احتراماً اپنا دایاں ہاتھ چھاتی سے لگا لیتا ہے۔

مصطفیٰ کمال پاشا کی پیدائش 1881ء میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ جوان ہوئے تو عہد عثمانیہ کے دور میں فوجی ملازمت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد انھوں نے ترکی کی جنگ آزادی کی تحریک میں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقرہ میں صوبائی حکومت قائم کر لی اور پھر اتحادی فورسز کو ترکی سے نکال باہر کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس میں کامیابی دراصل ترکی کی جنگ آزادی کی فتح ثابت ہوئی۔ ری پبلک آف ترکی کا قیام عمل میں آ گیا تو مصطفیٰ کمال اس کے پہلے صدر بنے کیونکہ ری پبلک کا معرض وجوہ میں آ جانا ان ہی کی قائدانہ کوششوں کا ثمر تھا۔ اقتدار میں آنے پر انھوں نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی ریفارمز کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کے پیش نظر عثمانیہ عہد کے خاتمے کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے ملک کو جدید، سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر مستحکم کرنا تھا۔ ان کے ابتدائی دور ہی میں ہزاروں اسکول تعمیر کیے گئے۔ پرائمری تعلیم ہر بچے کے لیے لازمی اور مفت قرار دی گئی۔ خواتین کو مردوں کے برابر سول اور سیاسی حقوق کا حقدار قرار دیا گیا جب کہ ٹیکس کے نظام میں انقلابی اصلاحات عمل میں لائی گئیں۔ ان میں ریفارم پالیسیاں اتنی دوررس ثابت ہوئیں کہ اس ترکی کی بنیاد پڑی جسے آج دنیا کے مدبر رشک سے دیکھتے ہیں اور جنھیں کمالزم کا نام بلاوجہ نہیں دیا گیا۔

بعض تاریخ دانوں نے مصطفیٰ کے مذہبی رجحانات کی بابت غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی ہے کیونکہ و ہ آزاد خیال سہی لیکن ملک و قوم کے نجات دہندہ تو تھے۔ ان کی والدہ کا نام زبیدہ اور باپ علی رضا تھا۔ ماں نے انھیں ایک دینی مدرسے میں داخل کرایا لیکن وہ زیادہ عرصہ وہاں نہ پڑھے اور باپ کے کہنے پر سیسمی آفندی نامی اسکول میں چلے گئے جس کا سلیبس نسبتاً زیادہ سیکولر تھا۔ ان کے نام میں کمال کا اضافہ ان کے استاد کیپٹن مصطفیٰ آفندی کی تجویز پر ہوا۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ تجارت کریں لیکن انھوں نے ملٹری ہائی اسکول جانا پسند کیا اور پھر عثمانیہ ملٹری اکیڈمی میں چلے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے عثمانیہ ملٹری کالج سے 1905ء میں گریجویشن کی۔

مصطفیٰ کمال ایک انقلابی شخصیت تھا جو اپنے وطن کے لیے کچھ بہتر کر کے دکھانے کا خواہشمند تھا۔ اسی خواہش کے پیش نظر وہ کچھ عرصہ ایک سیکرٹ انقلابی سوسائٹی سے بھی وابستہ رہا جس کی منزل ریفارمسٹ افسروں کو تیار کرنا تھا لیکن یہ معاملہ زیادہ عرصہ نہ چلا کیونکہ وہ ملٹری ڈسپلن کا پابند تو بہرحال تھا۔


پہلی جنگ عظیم میں مصطفیٰ کمال کو کئی محاذوں پر اپنی قابلیت دکھانے کا موقع ملا لیکن ان جنگوں کی تفصیل اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن یہ ذکر ضروری ہو گا کہ 1911-12ء کی Italo-Turkish War کے دوران مصطفیٰ کمال کی بائیں آنکھ کو نقصان پہنچا۔ اس نے اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں کی اور جہاں جہاں اس کی ڈیوٹی لگی یا کمان ملی اس نے اپنی مہارت اور ثابت قدمی کے جوہر دکھائے۔ کئی معرکوں کے بعد سلطنت عثمانیہ کا کئی صدیوں تک چمکتے رہنے والا سورج غروب ہوا تو Treaty of Lausanne کے نتیجے میں ری پبلک آف ترکی معرض وجود میں آئی۔ یہ 29 اکتوبر 1923ء کا دن تھا۔ اس نئی حکومت نے کئی مغربی طاقتوں مثلاً فرانس، سویڈن، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے اداروں اور آئین کا تجزیہ و مطالعہ کرنے کے بعد ترکی کی ضروریات کے مدنظر ان سے رہنمائی لے کر ان کو خود پر لاگو کیا لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ عوامی تاثر یہ تھا کہ اب ان کی واپسی عہد خلافت کی طرف جا رہی ہے لیکن مصطفیٰ کمال نے عصمت انونو سمیت تین ساتھیوں کو اپنا ریفارم پروگرام دیا جس میں سیاسی، معاشی او رسوشل ایشوز سرفہرست تھے یہاں بھی مصطفیٰ کمال کی ماہر ملٹری افسر والی خوبی کام آئی اور 1938ء تک یعنی ان کے انتقال تک انھوں نے اپنا ترکی کو ماڈرن سیکولر اور جمہوری اسٹیٹ میں تبدیل کر دینے کا ایجنڈا مکمل کر لیا۔ انھوں نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے ڈکلیئر کیا۔

''ہمیں ملک کی مکمل خود مختاری چاہیے اور اس سے مراد ہے مکمل معاشی، عدالتی، سیاسی، حفاظتی اور ثقافتی آزادی جب کہ خود مختاری اور آزادی سے محرومی کا مطلب ہے غلامی۔''

ان کے چند فرمودات درج کرنے سے قاری کو ان کی سوچ ہی کا اندازہ نہیں ہو گا یہ بھی معلوم ہو گا کہ آج کی دنیا میں ان کی باتوں اور عمل میں کتنی صداقت اور پریکٹیکل افادیت ہے۔ ایک جگہ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ''دین اسلام آفاقی بلندیوں پر متمکن نظر آئے گا اگر اسے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔'' ایک اور جگہ قومی آزادی کے حوالے سے کہا ''قومی آزادی تعلیمی آزادی سے منسلک ہے لہٰذا فکری آزادی کے لیے علمی معاملات میں ملکی حالات و معاملات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔'' ایک جگہ ترقی کے ضمن میں کہا کہ ''سائنسی اور منطقی سوچ اور طرز عمل ہی ترقی کا رستہ متعین کر سکتا ہے نہ کہ دقیانوسی تصورات۔'' ان کا انصاف کے بارے میں کہنا ہے کہ ''انصاف اور عدل کے ضمن میں وقت کی ضروریات اور آج کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر تبدیلی، ترمیم اور اجتہاد کرنے ہی سے حق اور انصاف کے حصول کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔'' پھر کہا ''سماجی بہتری تبھی ممکن ہے اگر بچوں کی ماؤں کی تعلیم صحیح خطوط پر ہو، خواتین کو آگے بڑھنے کی آزادی دی جائے، مرد و زن مل کر ہی اخلاقی بلندی و بہتری کا لائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں۔'' ایک اور جگہ کہا ''مرد ہو یا عورت تعلیم کے میدان میں ترقی کیے بغیر اقوام عالم اور مغربی دنیا میں اپنی بڑائی کا لوہا نہیں منوا سکتے۔'' ایک جگہ کہا کہ ''جمہوریت کا حصول لفظی حد تک بے معنی ہے تا آنکہ ہر فرد کو جمہوری حق ملے۔''

اگر آج کے ترکی کو دیکھیں تو وہاں امن ہے، خوشحالی ہے، ڈسپلن ہے، قانون کی حکمرانی ہے، مذہبی و شخصی آزادی ہے، تعلیمی و صنعتی ترقی ہے، خوش اخلاقی ہے، ٹورزم ہے، دلکش و صاف ستھری مساجد ہیں، احترام آدمی ہے، ہر طرف صفائی ہے، بہترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہے مرد ہو یا عورت تعلیم و ترقی کے برابر کے مواقع و سہولیات ہیں، لوگوں میں خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی لگن ہے۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے بڑا محل چھوڑ کر جس محل نما مکان میں سکونت اختیار کی اس کی وجہ سے نہ ان کی سبکی ہوئی نہ ان کی بڑائی کم ہوئی۔ انھوں نے جو کہا کر کے دکھایا۔ ان ہی کے متعین کردہ رستے پر ترک چلنے میں فخر محسوس کرتے اور انھیں ''اتاترک'' کہتے ہیں۔ آج ہمیں بھی ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جسے لوگ ''اتا پاکستانی'' کہہ سکیں یعنی پاکستانیوں کا باپ۔
Load Next Story