ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں
قدرت نے انسانی ذہن کو جن چند خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک قوت متخیلہ بھی ہے
قدرت نے انسانی ذہن کو جن چند خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک قوت متخیلہ بھی ہے جس کی کوکھ سے ادب اور زندگی کے ایک اہم جزو یعنی Fantasy نے جنم لیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو Fantasy اور انسان کا جنم جنم کا ساتھ ہے البتہ وقت کے ساتھ اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ سائنس کے فروغ سے پہلے انسان کی Fantasies ایک تصوراتی ماضی سے وابستہ ہوتی تھیں اور آج کا انسان انھیں ایک تصوراتی مستقبل کے حوالے سے دیکھتا ہے یعنی اگلے وقتوں کی طلسم ہوش ربا اور آج کی جدید سائنس فکشن فلم Avatar اصل میں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔
کسی معاشرے کی عمومی اور ذہنی تعمیر و تشکیل کا دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس کے بچے کس طرح کے خواب دیکھتے ہیں، کن باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ Unseen کی حیرت اور Quest for Knowledge ہی مل جل کر ان رویوں کی تشکیل کرتے ہیں جن سے خواب دیکھنے والے فن کار اور ان خوابوں کو عملی شکل دینے والے سائنسدان پیدا ہوتے ہیں۔ سو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ اس سوال کا اطلاق اسکول، معاشرے اور گھر تینوں پر ایک ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کہانیوں کے کردار (Syndrella' Tome & Jerry, Lion King, Superman, Spiderman, Batman) وغیرہ وغیرہ ہوں یا ان سے متعلق کہانیاں اور ان میں استعمال ہونے والی زبان یہ سب بچوں کے ذہنوں پر ایسے اثرات مرتب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں جن سے ان کے اندر ایڈونچر، طاقت، دلچسپی، حیرت اور غیر فطری تصورات کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصورات کی نوعیت کے اعتبار سے اکیسویں صدی کا بچہ بیسویں صدی کے بچے سے آگے ہے کہ اب وہ کہانیوں سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو ان سے Relate کرکے بھی دیکھتا ہے مثال کے طور پر (کم از کم برصغیر کی حد تک) سوتیلی ماں یعنی Step Mother کا کردار بچوں کے لیے لکھی یا بنائی گئی درسی کہانیوں کا ایک مخصوص کردار ہے جو انھیں اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ سوتیلی ماں عام طور پر کہانی کے محبوب اور مظلوم کردار پر ہمہ وقت ظلم و ستم کرتی دکھائی جاتی ہے۔ چند عشرے قبل تک یہ کردار صرف ایک حقیقی صورتحال کی نمائندگی کرتا تھا مگر آج کا بچہ اس میں استعاراتی معنی بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ میرے ذاتی مشاہدے میں بھی آیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ میری نواسی آئتین علی جب پانچ برس کی تھی تو والد کی مختلف شہروں میں ٹرانسفر کی وجہ سے ایک برس میں اسے تین اسکول بدلنے پڑے، ظاہر ہے بچوں کے لیے ہم جماعتوں اور ٹیچرز کی یہ تبدیلی جذباتی حوالے سے بہت متاثر کن ہوتی ہے سو میں نے محض اسے بہلانے کے لیے اس کے ساتھ فون پر اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ تمہاری نئی ٹیچر کیسی ہیں؟ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا ، ''نانا مجھے تو وہ کوئی Step Teacher لگتی ہیں''
اب اس Step Teacher سے جس طرح اس نے متعلقہ ٹیچر کے انداز، اسلوب، سخت گیری اور عمومی تاثر کا نقشہ کھینچا ہے وہ بے حد دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بالخصوص ان تمام بڑوں کے لیے کچھ سوال بھی کھڑے کر رہا ہے جو ان بچوں کی نصابی اور ہم نصابی کتابیں لکھنے یا شائع کرنے سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی غور و فکر ضروری ہے کہ Audio Video Aids کی افراط نے لفظوں سے متعلق تصورات میں معافی کی بہت سی نئی جہتیں پیدا کر دی ہیں اور اب ہمیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور واضح رہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس کا تعلق ایک بہت بڑی بزنس مارکیٹ سے ہے اور اس مارکیٹ پر قابض لوگ بچوں کو قومی اور انسانی سرمایہ نہیں بلکہ محض ایک ''گاہک'' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا گاہک جس کی ضد بڑے بڑے اصول پسندوں اور تہذیبی رویوں کے ماہر دانش وروں کی مزاحمت کو سیلاب کے پانی کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ آپ کسی کھلونوں کی دکان پر جا کر شو کیس میں رکھے گئے کھلونوں کی نوعیت ساخت، کشش اور قیمت پر ایک نظر ڈالیے آپ پر یہ حقیقت ایک لمحے میں کھل جائے گی کہ یہ انڈسٹری کس قدر طاقتور اور ہوشیار ہے۔
غیر ملکی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف معاشروں کے تخلیق کردہ کردار آج ہمارے بچوں کے لیے ایک آئیڈیل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کتاب کارٹون ٹی وی اور فلم چاروں سطحوں پر یہ بار بار ان کے سامنے لائے جاتے ہیں اور ان کی وساطت سے کھلونا ساز کمپنیاں اور بچوں کے ملبوسات اور جوتے تیار کرنے والے سرمایہ دار ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس کے غبار میں صارف معاشروں کا مقامی کلچر، قومی تاریخ، فوک لور اور نظریاتی آورش سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس کے پس منظر میں ہمارے جیسے صارف معاشروں کی جہالت، پسماندگی اور ترقی کی دوڑ میں بروقت اور مؤثر انداز میں شامل نہ ہونا بہت اہم اور حقیقی عناصر ہیں لیکن انھیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہتھیار ڈال دینا بھی کوئی مناسب اور عقل مندی کی بات نہیں اس میں بھی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنا کسی انسان یا قوم کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے ساتھ Co-Exist کرنے کے راستے تو نکالے جا سکتے ہیں اپنے بچوں کے ذہن، ماحول، وسائل اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر ایسے اقدام تو کیے جا سکتے ہیں جن کی بدولت وہ ان تہذیبی، سماجی اور تاریخی روایات کے ساتھ بھی رشتہ آرا رہ سکیں جو ہمارے ہونے کی پہچان ہیں بچوں کے دلچسپ اور معلومات افزا گیت بالخصوص نرسری Rhymes اور کہانیاں اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں کیوں نہیں لکھی جا سکتیں، کیوں بچوں کے لیے ایسی کتابیں، کارٹون، ٹی وی سیریلز اور فلمیں نہیں بنائی جا سکتیں جو تکنیک کے اعتبار سے جدید اور مواد Content اور کرداروں کے اعتبار سے ہمارے اپنے معاشرے کی نمائندہ ہوں! مقبول کارٹون اور بچوں کے لیے تیار کی گئی نمائندہ فلموں کے تراجم اس اردو میں کیوں نہیں کیے جا سکتے جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں! ماضی قریب میں ٹی وی کے کچھ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامہ سیریل بچوں میں بے حد مقبول رہے ہیں ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ان سلسلوں کو استحکام کیوں نہیں دیا جا سکتا!
سوال تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن روایتی تنقید میں الجھنے سے بہتر ہے کہ کچھ مثبت اشاریوں پر توجہ دی جائے۔ گزشتہ چند برسوں سے بچوں کے لیے اردو میں تیار کی جانیوالی کتابوں میں معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ فیروز سنز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، سنگ میل پبلی کیشنز اور جہانگیر بکس سمیت بہت سے اداروں نے تسلسل سے خوبصورت اور دیدہ زیب کتابیں پیش کی ہیں لیکن ان میں شامل بیشتر اوریجنل یا ترجمہ شدہ مواد انگریزی یا دیگر یورپی زبانوں سے لیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشکش میں تو دل کھول کر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے مگر کہانیوں، گیتوں اور کرداروں میں ''مقامیت'' پر خصوصی توجہ دی جائے۔ زکوٹا جن اور Spider,Bat یا کسی اور Man کو ملا کر ایسے کردار تخلیق کیے جائیں جن میں ماضی، حال و مستقبل تینوں زبانوں کی جھلک موجود ہو کہ Fantasy کسی خاص زمانے کے تابع نہیں ہوتی۔ اڑن قالین اور خلائی جہاز دونوں کی تشکیل ایک ہی سوچ سے ہوئی ہے۔ ساحری جادوگر اور Bionic Man ایک ہی تصور کے دو مختلف نام ہیں۔
ضروری ہے کہ بچوں کی کہانیوں اور ان میں موجود مافوق الفطرت کرداروں میں موجود تشدد، جدید اسلحے کے بے محابا استعمال، دہشت انگیزی اور طاقت کے ذریعے دوسروں کو زیر کرنے کے منفی رجحانات کی جگہ حق اور باطل کی تفریق اور حق کی فتح کے لیے امن، دوستی، بھائی چارے نیکی اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے والا مواد تخلیق کیا جائے تا کہ ہمارے بچے بہتر، متوازن مزاج اور حق پرست انسان بن سکیں اور ان کا آئیڈیل تباہی اور بربادی پیدا کرنے والے روبوٹس کے بجائے اس طرح کے انسان ہوں جنھیں رب کریم نے احسن التقویم کا درجہ عطا کیا ہے۔
کسی معاشرے کی عمومی اور ذہنی تعمیر و تشکیل کا دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس کے بچے کس طرح کے خواب دیکھتے ہیں، کن باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ Unseen کی حیرت اور Quest for Knowledge ہی مل جل کر ان رویوں کی تشکیل کرتے ہیں جن سے خواب دیکھنے والے فن کار اور ان خوابوں کو عملی شکل دینے والے سائنسدان پیدا ہوتے ہیں۔ سو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ اس سوال کا اطلاق اسکول، معاشرے اور گھر تینوں پر ایک ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کہانیوں کے کردار (Syndrella' Tome & Jerry, Lion King, Superman, Spiderman, Batman) وغیرہ وغیرہ ہوں یا ان سے متعلق کہانیاں اور ان میں استعمال ہونے والی زبان یہ سب بچوں کے ذہنوں پر ایسے اثرات مرتب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں جن سے ان کے اندر ایڈونچر، طاقت، دلچسپی، حیرت اور غیر فطری تصورات کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصورات کی نوعیت کے اعتبار سے اکیسویں صدی کا بچہ بیسویں صدی کے بچے سے آگے ہے کہ اب وہ کہانیوں سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو ان سے Relate کرکے بھی دیکھتا ہے مثال کے طور پر (کم از کم برصغیر کی حد تک) سوتیلی ماں یعنی Step Mother کا کردار بچوں کے لیے لکھی یا بنائی گئی درسی کہانیوں کا ایک مخصوص کردار ہے جو انھیں اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ سوتیلی ماں عام طور پر کہانی کے محبوب اور مظلوم کردار پر ہمہ وقت ظلم و ستم کرتی دکھائی جاتی ہے۔ چند عشرے قبل تک یہ کردار صرف ایک حقیقی صورتحال کی نمائندگی کرتا تھا مگر آج کا بچہ اس میں استعاراتی معنی بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ میرے ذاتی مشاہدے میں بھی آیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ میری نواسی آئتین علی جب پانچ برس کی تھی تو والد کی مختلف شہروں میں ٹرانسفر کی وجہ سے ایک برس میں اسے تین اسکول بدلنے پڑے، ظاہر ہے بچوں کے لیے ہم جماعتوں اور ٹیچرز کی یہ تبدیلی جذباتی حوالے سے بہت متاثر کن ہوتی ہے سو میں نے محض اسے بہلانے کے لیے اس کے ساتھ فون پر اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ تمہاری نئی ٹیچر کیسی ہیں؟ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا ، ''نانا مجھے تو وہ کوئی Step Teacher لگتی ہیں''
اب اس Step Teacher سے جس طرح اس نے متعلقہ ٹیچر کے انداز، اسلوب، سخت گیری اور عمومی تاثر کا نقشہ کھینچا ہے وہ بے حد دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بالخصوص ان تمام بڑوں کے لیے کچھ سوال بھی کھڑے کر رہا ہے جو ان بچوں کی نصابی اور ہم نصابی کتابیں لکھنے یا شائع کرنے سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی غور و فکر ضروری ہے کہ Audio Video Aids کی افراط نے لفظوں سے متعلق تصورات میں معافی کی بہت سی نئی جہتیں پیدا کر دی ہیں اور اب ہمیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور واضح رہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس کا تعلق ایک بہت بڑی بزنس مارکیٹ سے ہے اور اس مارکیٹ پر قابض لوگ بچوں کو قومی اور انسانی سرمایہ نہیں بلکہ محض ایک ''گاہک'' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا گاہک جس کی ضد بڑے بڑے اصول پسندوں اور تہذیبی رویوں کے ماہر دانش وروں کی مزاحمت کو سیلاب کے پانی کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ آپ کسی کھلونوں کی دکان پر جا کر شو کیس میں رکھے گئے کھلونوں کی نوعیت ساخت، کشش اور قیمت پر ایک نظر ڈالیے آپ پر یہ حقیقت ایک لمحے میں کھل جائے گی کہ یہ انڈسٹری کس قدر طاقتور اور ہوشیار ہے۔
غیر ملکی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف معاشروں کے تخلیق کردہ کردار آج ہمارے بچوں کے لیے ایک آئیڈیل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کتاب کارٹون ٹی وی اور فلم چاروں سطحوں پر یہ بار بار ان کے سامنے لائے جاتے ہیں اور ان کی وساطت سے کھلونا ساز کمپنیاں اور بچوں کے ملبوسات اور جوتے تیار کرنے والے سرمایہ دار ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس کے غبار میں صارف معاشروں کا مقامی کلچر، قومی تاریخ، فوک لور اور نظریاتی آورش سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس کے پس منظر میں ہمارے جیسے صارف معاشروں کی جہالت، پسماندگی اور ترقی کی دوڑ میں بروقت اور مؤثر انداز میں شامل نہ ہونا بہت اہم اور حقیقی عناصر ہیں لیکن انھیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہتھیار ڈال دینا بھی کوئی مناسب اور عقل مندی کی بات نہیں اس میں بھی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنا کسی انسان یا قوم کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے ساتھ Co-Exist کرنے کے راستے تو نکالے جا سکتے ہیں اپنے بچوں کے ذہن، ماحول، وسائل اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر ایسے اقدام تو کیے جا سکتے ہیں جن کی بدولت وہ ان تہذیبی، سماجی اور تاریخی روایات کے ساتھ بھی رشتہ آرا رہ سکیں جو ہمارے ہونے کی پہچان ہیں بچوں کے دلچسپ اور معلومات افزا گیت بالخصوص نرسری Rhymes اور کہانیاں اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں کیوں نہیں لکھی جا سکتیں، کیوں بچوں کے لیے ایسی کتابیں، کارٹون، ٹی وی سیریلز اور فلمیں نہیں بنائی جا سکتیں جو تکنیک کے اعتبار سے جدید اور مواد Content اور کرداروں کے اعتبار سے ہمارے اپنے معاشرے کی نمائندہ ہوں! مقبول کارٹون اور بچوں کے لیے تیار کی گئی نمائندہ فلموں کے تراجم اس اردو میں کیوں نہیں کیے جا سکتے جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں! ماضی قریب میں ٹی وی کے کچھ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامہ سیریل بچوں میں بے حد مقبول رہے ہیں ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ان سلسلوں کو استحکام کیوں نہیں دیا جا سکتا!
سوال تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن روایتی تنقید میں الجھنے سے بہتر ہے کہ کچھ مثبت اشاریوں پر توجہ دی جائے۔ گزشتہ چند برسوں سے بچوں کے لیے اردو میں تیار کی جانیوالی کتابوں میں معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ فیروز سنز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، سنگ میل پبلی کیشنز اور جہانگیر بکس سمیت بہت سے اداروں نے تسلسل سے خوبصورت اور دیدہ زیب کتابیں پیش کی ہیں لیکن ان میں شامل بیشتر اوریجنل یا ترجمہ شدہ مواد انگریزی یا دیگر یورپی زبانوں سے لیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشکش میں تو دل کھول کر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے مگر کہانیوں، گیتوں اور کرداروں میں ''مقامیت'' پر خصوصی توجہ دی جائے۔ زکوٹا جن اور Spider,Bat یا کسی اور Man کو ملا کر ایسے کردار تخلیق کیے جائیں جن میں ماضی، حال و مستقبل تینوں زبانوں کی جھلک موجود ہو کہ Fantasy کسی خاص زمانے کے تابع نہیں ہوتی۔ اڑن قالین اور خلائی جہاز دونوں کی تشکیل ایک ہی سوچ سے ہوئی ہے۔ ساحری جادوگر اور Bionic Man ایک ہی تصور کے دو مختلف نام ہیں۔
ضروری ہے کہ بچوں کی کہانیوں اور ان میں موجود مافوق الفطرت کرداروں میں موجود تشدد، جدید اسلحے کے بے محابا استعمال، دہشت انگیزی اور طاقت کے ذریعے دوسروں کو زیر کرنے کے منفی رجحانات کی جگہ حق اور باطل کی تفریق اور حق کی فتح کے لیے امن، دوستی، بھائی چارے نیکی اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے والا مواد تخلیق کیا جائے تا کہ ہمارے بچے بہتر، متوازن مزاج اور حق پرست انسان بن سکیں اور ان کا آئیڈیل تباہی اور بربادی پیدا کرنے والے روبوٹس کے بجائے اس طرح کے انسان ہوں جنھیں رب کریم نے احسن التقویم کا درجہ عطا کیا ہے۔