سیاسی اور سیلابی صورتحال
تمام سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں، انہیں سیلاب زدگان کی تکالیف نظر ہی نہیں آرہیں
اس وقت ملک میں سیلاب کی صورتحال نہایت سنگین ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبے اس سے متاثر ہیں۔ اس سال توقع سے کہیں زیادہ بارشیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں دریا، ڈیم اور نہریں بپھر گئے اور کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پوری کی پوری بستیاں سیلاب سے تباہ ہوچکی ہیں، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والے جانوروں کی تعداد کا ابھی تک کوئی درست اندازہ نہیں لیکن ان کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لمحوں میں سیلاب کی نذر ہوگئی۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے غریب عوام مزید غربت اور لاچاری میں چلے گئے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پہلے ہی اپنی غربت اور محرومیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، اب سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔
بلوچستان کے 34 میں سے 27 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جہاں امدادی کام نہایت سست رفتاری سے ہورہے ہیں بلکہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں امدادی کارروائیاں شروع ہی نہیں ہوئیں۔ بلوچستان کے وسیع و عریض رقبے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عین ممکن ہے کئی دور دراز دیہاتوں کے سیلاب سے متاثر ہونے کی خبر ابھی تک امدادی ٹیموں یا محکموں تک پہنچی ہی نہ ہو۔ وہاں کے عوام پر کیا بیت رہی ہوگی؟ آسودہ حال لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
اسی طرح سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے عوام پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کئی لوگ جاں بحق ہوگئے اور جو بچ رہے ان کےلیے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔ جس کی امید عام طور پر کم ہی ہوتی ہے۔
یہ حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کےلیے فوری طور پر کام کریں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ذاتی مفادات پورے کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف جبکہ باقی ماندہ پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن کوئی حکومت سنجیدگی سے کام نہیں کر رہی۔ سب کو کیس بنانے اور کیسوں سے جان چھڑانے کی فکر ہے۔ کسی کو سیاست، تو کسی کو عہدے و کرسی کا لالچ ہے۔
تمام سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی ہے، عوام کی کس کو فکر ہے۔ کوئی جلسے کر رہا ہے تو کوئی جلسے کرنے والوں کو پکڑ رہا ہے۔ کوئی بیانات دے رہا ہے تو کوئی بیانات سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر صوبے میں سب نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کرکے دوسروں کےلیے اسے ممنوعہ علاقہ بنا رکھا ہے۔ اپنی اپنی حکومتوں کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے۔
اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیانات انتہائی قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمران لڑائیوں کے بجائے سیلاب متاثرین کی بحالی پر توجہ دیں۔ سیلاب متاثرین کو زیادہ نقصان جاگیرداروں اور وڈیروں نے پہنچایا، انہوں نے اپنی جائیدادیں بچانے کےلیے سرکاری فنڈز سے بند باندھ کر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف کردیا ہے، جس کی وجہ سے سیلاب آتا ہے تو غریبوں کے کچے مکانات اور مال مویشی اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین سیلاب کی صورتحال پر ملاقات بہت تاخیر سے ہوئی۔ عمران خان کو لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کے بجائے تونسہ میں ہونا چاہے تھا۔
ملک میں ہمیشہ جاگیرداروں اور وڈیروں کا راج رہا ہے۔ وہی اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہوتے ہیں اور اکثر یہی وزارتیں وغیرہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب ارکان اسمبلی بنتے ہیں تو وہاں بھی اپنے ہی مفادات کےلیے کام کرتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے ہی مفادات انہیں نظر آتے ہیں جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں، انہیں عوام کی تکالیف نظر ہی نہیں آرہیں۔ تمام ٹاک شوز دیکھ لیجئے، تمام پروگرام دیکھ لیجئے، سب میں یہی چل رہا ہے کہ شہباز گل کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ عمران خان گرفتار ہوں گے یا نہیں؟ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے کون سے رہنما گرفتار ہوں گے اور کن پر پابندی عائد ہوگی؟ خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت کے کون سے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کیے جارہے ہیں؟ بات نہیں ہورہی تو صرف سیلاب متاثرین پر۔ ان کے بارے میں صرف خبرنامہ میں ہی سنا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے۔ ٹی وی اینکرز بھی سیاستدانوں کو بٹھا کر ان ہی کے جھگڑے سنتے ہیں۔ ان سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ سیلاب متاثرین کےلیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کچھ دنوں کےلیے یہ جھگڑے اور گرفتاریاں روک نہیں سکتے تاکہ اسی طرف متوجہ ہوا جائے اور سیلاب متاثرین کی بحالی کےلیے یکسو ہوکر کام کیا جائے؟
لوگ سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے ہیں، انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے اور سہارا حکومت ہی ہوتی ہے، جس کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ پہلے تو وہ ایسا نظام قائم کرے جس کے ذریعے یہ پیشگی معلوم کیا جاسکے کہ کون سے علاقے میں کتنی بارش متوقع ہے اور اس کے نتیجے میں کہاں کہاں سیلاب کا خدشہ ہے۔ اگر کسی علاقے میں سیلاب کا خدشہ ہو تو وہاں کے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، جہاں ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام ہو۔ اگر اس کے باوجود کسی علاقے میں لوگ سیلاب سے متاثر ہوجائیں تو وہاں فوری طور پر منظم امدادی کارروائیاں ہونی چاہئیں۔ یوں بہت بڑے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب حکمران سیاست چمکانے کے بجائے اپنی ذمے داریوں پر توجہ دیں اور ایک سال کے نقصانات سے سبق حاصل کرکے دوسرے سال مون سون سے قبل ہی ممکنہ تباہی سے بچنے کےلیے اقدامات کرلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پوری کی پوری بستیاں سیلاب سے تباہ ہوچکی ہیں، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والے جانوروں کی تعداد کا ابھی تک کوئی درست اندازہ نہیں لیکن ان کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لمحوں میں سیلاب کی نذر ہوگئی۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے غریب عوام مزید غربت اور لاچاری میں چلے گئے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پہلے ہی اپنی غربت اور محرومیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، اب سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔
بلوچستان کے 34 میں سے 27 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جہاں امدادی کام نہایت سست رفتاری سے ہورہے ہیں بلکہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں امدادی کارروائیاں شروع ہی نہیں ہوئیں۔ بلوچستان کے وسیع و عریض رقبے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عین ممکن ہے کئی دور دراز دیہاتوں کے سیلاب سے متاثر ہونے کی خبر ابھی تک امدادی ٹیموں یا محکموں تک پہنچی ہی نہ ہو۔ وہاں کے عوام پر کیا بیت رہی ہوگی؟ آسودہ حال لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
اسی طرح سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے عوام پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کئی لوگ جاں بحق ہوگئے اور جو بچ رہے ان کےلیے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔ جس کی امید عام طور پر کم ہی ہوتی ہے۔
یہ حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کےلیے فوری طور پر کام کریں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ذاتی مفادات پورے کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف جبکہ باقی ماندہ پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن کوئی حکومت سنجیدگی سے کام نہیں کر رہی۔ سب کو کیس بنانے اور کیسوں سے جان چھڑانے کی فکر ہے۔ کسی کو سیاست، تو کسی کو عہدے و کرسی کا لالچ ہے۔
تمام سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی ہے، عوام کی کس کو فکر ہے۔ کوئی جلسے کر رہا ہے تو کوئی جلسے کرنے والوں کو پکڑ رہا ہے۔ کوئی بیانات دے رہا ہے تو کوئی بیانات سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر صوبے میں سب نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کرکے دوسروں کےلیے اسے ممنوعہ علاقہ بنا رکھا ہے۔ اپنی اپنی حکومتوں کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے۔
اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیانات انتہائی قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمران لڑائیوں کے بجائے سیلاب متاثرین کی بحالی پر توجہ دیں۔ سیلاب متاثرین کو زیادہ نقصان جاگیرداروں اور وڈیروں نے پہنچایا، انہوں نے اپنی جائیدادیں بچانے کےلیے سرکاری فنڈز سے بند باندھ کر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف کردیا ہے، جس کی وجہ سے سیلاب آتا ہے تو غریبوں کے کچے مکانات اور مال مویشی اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین سیلاب کی صورتحال پر ملاقات بہت تاخیر سے ہوئی۔ عمران خان کو لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کے بجائے تونسہ میں ہونا چاہے تھا۔
ملک میں ہمیشہ جاگیرداروں اور وڈیروں کا راج رہا ہے۔ وہی اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہوتے ہیں اور اکثر یہی وزارتیں وغیرہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب ارکان اسمبلی بنتے ہیں تو وہاں بھی اپنے ہی مفادات کےلیے کام کرتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے ہی مفادات انہیں نظر آتے ہیں جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں، انہیں عوام کی تکالیف نظر ہی نہیں آرہیں۔ تمام ٹاک شوز دیکھ لیجئے، تمام پروگرام دیکھ لیجئے، سب میں یہی چل رہا ہے کہ شہباز گل کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ عمران خان گرفتار ہوں گے یا نہیں؟ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے کون سے رہنما گرفتار ہوں گے اور کن پر پابندی عائد ہوگی؟ خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت کے کون سے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کیے جارہے ہیں؟ بات نہیں ہورہی تو صرف سیلاب متاثرین پر۔ ان کے بارے میں صرف خبرنامہ میں ہی سنا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے۔ ٹی وی اینکرز بھی سیاستدانوں کو بٹھا کر ان ہی کے جھگڑے سنتے ہیں۔ ان سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ سیلاب متاثرین کےلیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کچھ دنوں کےلیے یہ جھگڑے اور گرفتاریاں روک نہیں سکتے تاکہ اسی طرف متوجہ ہوا جائے اور سیلاب متاثرین کی بحالی کےلیے یکسو ہوکر کام کیا جائے؟
لوگ سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے ہیں، انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے اور سہارا حکومت ہی ہوتی ہے، جس کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ پہلے تو وہ ایسا نظام قائم کرے جس کے ذریعے یہ پیشگی معلوم کیا جاسکے کہ کون سے علاقے میں کتنی بارش متوقع ہے اور اس کے نتیجے میں کہاں کہاں سیلاب کا خدشہ ہے۔ اگر کسی علاقے میں سیلاب کا خدشہ ہو تو وہاں کے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، جہاں ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام ہو۔ اگر اس کے باوجود کسی علاقے میں لوگ سیلاب سے متاثر ہوجائیں تو وہاں فوری طور پر منظم امدادی کارروائیاں ہونی چاہئیں۔ یوں بہت بڑے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب حکمران سیاست چمکانے کے بجائے اپنی ذمے داریوں پر توجہ دیں اور ایک سال کے نقصانات سے سبق حاصل کرکے دوسرے سال مون سون سے قبل ہی ممکنہ تباہی سے بچنے کےلیے اقدامات کرلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔