خود انحصاری معاشی مسائل کا حل
سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے
مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آیندہ دو ماہ کے لیے پالیسی ریٹ کو موجودہ سطح پندرہ فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا ہے کہ مہنگائی کا دباؤ شدید ہوگیا ہے ، مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے زرعی پیداوار میں کمی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ' جس سے معاشی ترقی کی شرح نمو بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف جائزہ پروگرام کی متوقع تکمیل اور دوست ممالک سے اضافی اعانت کے حصول سے مالی سال 2023 کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر پیش گوئی کے مطابق تقریبا سولہ ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے ۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی اڑان اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے ملکی معیشت کو جس زبوں حالی سے دوچار کر دیا تھا ، اس سے بہت سے خدشات جنم لینے لگے تھے۔ بعض سیاستدان اور ماہرین پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھ رہے تھے لیکن اب یہ خطرات یا خدشات ختم ہوچکے ہیں۔ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔
اس کے باوجود معاشی مسائل خاصے گمبھیر ہیں، پاکستان کے معاشی میلٹ ڈاؤن کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔ عالمی کساد بازاری ، روس یو کرین جنگ، بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات خراب ہونا ، معاشی بحران میں اضافے کا سبب بنے ، اس کے ساتھ ساتھ ناقص معاشی و خارجہ حکمت عملی اور کمزور انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے بھی معاشی بحران گہرا ہوا ۔ افغانستان جو اقتصادی حوالے سے دباؤ کا شکار ہے ، امریکی انتظامیہ نے اس کی بھاری رقوم اور مالیاتی اثاثے ضبط کر رکھے ہیں۔ وہاں مالیاتی استحکام کے لیے پاکستان سے لاکھوں ڈالرز اسمگل ہوتے رہے۔
پاکستان میں مناسب مانیٹرنگ کا انتظام نہ ہونے اور چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم فعال نہ ہونے کے باعث یہاں سے افغانستان ڈالرز کی اسمگلنگ جاری رہی ۔ یوں پاکستان میں ڈالرز کی قلت پیدا ہوتی چلی گئی اور اس کے نرخ پاکستانی روپے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھتے چلے گئے۔ یہاں پر سٹہ بازی کا دھندہ بھی ڈالرز کی بلند پرواز کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے متعدد اقدامات کیے۔ بینک نے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کے فارن ایکسچینج آپریشنز کی نگرانی سخت کرتے ہوئے کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا، جس سے صورتحال میں بہتری آئی۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے معاملات اور ان کے ہماری معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی بات کرنے سے پہلے بجلی اور اس سے وابستہ معاملات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو کچھ کہتے ہیں۔
وہ اعدادوشمار کے لحاظ سے درست ہوسکتا ہے لیکن گراس روٹ لیول پر عام آدمی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ ٹیکس ضرور لگائیں لیکن کچھ تو ٹیکس ادا کرنے والوں کی سکت پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان میں اب کچھ ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہے کہ نہیں۔ بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے اور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
حکومت کے پاس اس بارے میں مناسب دلائل بھی ہیں لیکن بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ وولٹیج میں بے ترتیبی کے بارے میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی جارہی ہے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر ، کیا کسی اصول یا ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فوراً بعد ٹرانسپورٹر کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی باربرداری کی شرح میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے تھوک کا کاروبار کرنے والے، حتیٰ کہ ریڑھی فروش بھی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی پوچھنے دیکھنے والا نہیں ہے کہ اضافہ کرنے کی شرح کیسے طے کی گئی ہے۔
سب سے پہلے ملک میں نیم دلانہ نہیں بلکہ حقیقی ٹیکس سسٹم رائج کیا جائے ، اگر حکومت صرف اس ایک معاشی اصول کو اپنالے کہ ''جو ٹیکس بچائے وہ بچ نہ پائے'' تو یقین کریں پاکستان اس معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ بلا واسطہ اور بالواسطہ دونوں ٹیکس آخر میں کنزیومر پر آجاتے ہیں ،جنرل سیلز ٹیکس ہو، ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس۔
سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔ دفاع پر اخراجات اپنی ضرورت دیکھتے ہوئے خرچ کیے جائیں۔ اسمارٹ دفاع کا تصور اپنایا جائے۔ وفاقی حکومت اور اداروںکا خرچہ کم کرکے آدھا کیا جائے۔
تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمایندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔ پنشن پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے، وفاق اور صوبوں کو ملا کر ایک ہزار ارب کے قریب پنشن میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں زندہ رہنے کی شرح توقع میں اضافہ ہوا ہے جو اب 67 سال ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرکے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی جا سکتی ہے۔
صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہیں تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے '' زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت' کے اصول پر عمل کیا جائے۔
شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔ افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے سی ہی ٹیکس عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، ایسی درآمدات جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری انھیں ٹیکس میں خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونا، ایک اہم پیش رفت ضرور ہے لیکن یہ ہمارے معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ ہمارے معاشی مسائل کا حل ''اخراجات کے مطابق وسائل'' کی پالیسی میں پوشیدہ ہے۔ جتنی جلدی ہم خود انحصاری کی راہ پر چلنا طے کریں گے ، اتنی جلدی ہی ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے جو پالیسیاں بنائیں'ان کا رخ امیر طبقات اور ریاستی عہدے داروں کی مراعات کی جانب رہا ہے۔
اسکولوں 'کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کو یہی پڑھایا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہترین نہری نظام موجود ہے ' ملک کے اکنامک منیجرز بھی اپنی تقریروں اور سفارشات میں یہی سبق پڑھاتے آئے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن آج 75برس بعدبھی باتیں وہی ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی زرعی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔
زمینوں کو سراب کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن درد ناک حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان اور ان کے حواریوں نے ملک کے تین دریاؤں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا ' یوں پاکستان میں نہری نظام کے خاتمے اور پانی کی قلت پیدا ہونے کے لیے پہلی اینٹ رکھ دی ۔ اس کے بعد ریئل اسٹیٹ کو کاروبار بنا کر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے سیلاب کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا ' اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان نہ تو زرعی ملک ہے اور نہ ہی صنعتی ملک۔گندم 'دالیں 'چینی' سبزیاں 'پھل فروٹ'درختوں اور فصلوں کے بیج باہر سے منگوائے جاتے ہیں ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا ہے کہ مہنگائی کا دباؤ شدید ہوگیا ہے ، مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے زرعی پیداوار میں کمی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ' جس سے معاشی ترقی کی شرح نمو بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف جائزہ پروگرام کی متوقع تکمیل اور دوست ممالک سے اضافی اعانت کے حصول سے مالی سال 2023 کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر پیش گوئی کے مطابق تقریبا سولہ ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے ۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی اڑان اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے ملکی معیشت کو جس زبوں حالی سے دوچار کر دیا تھا ، اس سے بہت سے خدشات جنم لینے لگے تھے۔ بعض سیاستدان اور ماہرین پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھ رہے تھے لیکن اب یہ خطرات یا خدشات ختم ہوچکے ہیں۔ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔
اس کے باوجود معاشی مسائل خاصے گمبھیر ہیں، پاکستان کے معاشی میلٹ ڈاؤن کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔ عالمی کساد بازاری ، روس یو کرین جنگ، بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات خراب ہونا ، معاشی بحران میں اضافے کا سبب بنے ، اس کے ساتھ ساتھ ناقص معاشی و خارجہ حکمت عملی اور کمزور انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے بھی معاشی بحران گہرا ہوا ۔ افغانستان جو اقتصادی حوالے سے دباؤ کا شکار ہے ، امریکی انتظامیہ نے اس کی بھاری رقوم اور مالیاتی اثاثے ضبط کر رکھے ہیں۔ وہاں مالیاتی استحکام کے لیے پاکستان سے لاکھوں ڈالرز اسمگل ہوتے رہے۔
پاکستان میں مناسب مانیٹرنگ کا انتظام نہ ہونے اور چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم فعال نہ ہونے کے باعث یہاں سے افغانستان ڈالرز کی اسمگلنگ جاری رہی ۔ یوں پاکستان میں ڈالرز کی قلت پیدا ہوتی چلی گئی اور اس کے نرخ پاکستانی روپے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھتے چلے گئے۔ یہاں پر سٹہ بازی کا دھندہ بھی ڈالرز کی بلند پرواز کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے متعدد اقدامات کیے۔ بینک نے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کے فارن ایکسچینج آپریشنز کی نگرانی سخت کرتے ہوئے کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا، جس سے صورتحال میں بہتری آئی۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے معاملات اور ان کے ہماری معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی بات کرنے سے پہلے بجلی اور اس سے وابستہ معاملات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو کچھ کہتے ہیں۔
وہ اعدادوشمار کے لحاظ سے درست ہوسکتا ہے لیکن گراس روٹ لیول پر عام آدمی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ ٹیکس ضرور لگائیں لیکن کچھ تو ٹیکس ادا کرنے والوں کی سکت پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان میں اب کچھ ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہے کہ نہیں۔ بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے اور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
حکومت کے پاس اس بارے میں مناسب دلائل بھی ہیں لیکن بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ وولٹیج میں بے ترتیبی کے بارے میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی جارہی ہے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر ، کیا کسی اصول یا ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فوراً بعد ٹرانسپورٹر کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی باربرداری کی شرح میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے تھوک کا کاروبار کرنے والے، حتیٰ کہ ریڑھی فروش بھی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی پوچھنے دیکھنے والا نہیں ہے کہ اضافہ کرنے کی شرح کیسے طے کی گئی ہے۔
سب سے پہلے ملک میں نیم دلانہ نہیں بلکہ حقیقی ٹیکس سسٹم رائج کیا جائے ، اگر حکومت صرف اس ایک معاشی اصول کو اپنالے کہ ''جو ٹیکس بچائے وہ بچ نہ پائے'' تو یقین کریں پاکستان اس معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ بلا واسطہ اور بالواسطہ دونوں ٹیکس آخر میں کنزیومر پر آجاتے ہیں ،جنرل سیلز ٹیکس ہو، ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس۔
سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔ دفاع پر اخراجات اپنی ضرورت دیکھتے ہوئے خرچ کیے جائیں۔ اسمارٹ دفاع کا تصور اپنایا جائے۔ وفاقی حکومت اور اداروںکا خرچہ کم کرکے آدھا کیا جائے۔
تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمایندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔ پنشن پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے، وفاق اور صوبوں کو ملا کر ایک ہزار ارب کے قریب پنشن میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں زندہ رہنے کی شرح توقع میں اضافہ ہوا ہے جو اب 67 سال ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرکے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی جا سکتی ہے۔
صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہیں تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے '' زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت' کے اصول پر عمل کیا جائے۔
شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔ افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے سی ہی ٹیکس عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، ایسی درآمدات جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری انھیں ٹیکس میں خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونا، ایک اہم پیش رفت ضرور ہے لیکن یہ ہمارے معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ ہمارے معاشی مسائل کا حل ''اخراجات کے مطابق وسائل'' کی پالیسی میں پوشیدہ ہے۔ جتنی جلدی ہم خود انحصاری کی راہ پر چلنا طے کریں گے ، اتنی جلدی ہی ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے جو پالیسیاں بنائیں'ان کا رخ امیر طبقات اور ریاستی عہدے داروں کی مراعات کی جانب رہا ہے۔
اسکولوں 'کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کو یہی پڑھایا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہترین نہری نظام موجود ہے ' ملک کے اکنامک منیجرز بھی اپنی تقریروں اور سفارشات میں یہی سبق پڑھاتے آئے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن آج 75برس بعدبھی باتیں وہی ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی زرعی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔
زمینوں کو سراب کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن درد ناک حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان اور ان کے حواریوں نے ملک کے تین دریاؤں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا ' یوں پاکستان میں نہری نظام کے خاتمے اور پانی کی قلت پیدا ہونے کے لیے پہلی اینٹ رکھ دی ۔ اس کے بعد ریئل اسٹیٹ کو کاروبار بنا کر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے سیلاب کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا ' اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان نہ تو زرعی ملک ہے اور نہ ہی صنعتی ملک۔گندم 'دالیں 'چینی' سبزیاں 'پھل فروٹ'درختوں اور فصلوں کے بیج باہر سے منگوائے جاتے ہیں ۔