کینیڈا سے چند اور گزارشات

دنیا میں شاید ہالینڈکے علاوہ کینیڈا وہ دوسرا ملک ہے جس میں شیرخوار بچوں کے دودھ سے لے کران کی اسکول تک کی تعلیم مفت ہے

atharqhasan@gmail.com

کینیڈا کا نظام حکومت ایک مکمل فلاحی ریاست پر مشتمل ہے جس میں حکومت اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ضامن اورایک پر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان کوہرممکن سہولیات فراہم کے لیے ہر وقت کوشاں رہتی ہے۔ کینیڈین معاشرہ ایک مغربی معاشرے کی مانند ہے ، دنیا میں شاید ہالینڈ کے علاوہ کینیڈا وہ دوسرا ملک ہے جس میں شیر خوار بچوں کے دودھ سے لے کر ان کی اسکول تک کی تعلیم مفت ہے۔

یونیورسٹی لیول میں بھی حکومت کی جانب سے طالبعلموں کو بلا سود قرض فراہم کیے جاتے ہیں جو وہ اپنی ملازمت یا کاروبار شروع کرنے کے بعد نہایت آسان قسطوں میں حکومت کو واپس لوٹاتے ہیں ۔ یعنی یہ ایک طرح کا قرض حسنہ ہے جو کینیڈین حکومت اپنے شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے، ریاست کی نظر میںتمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں،گورے کالے، مذہبی غیرمذہبی کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔

کینیڈا میں مذہب وغیرہ فرد کی ذات تک محدود ہے، ریاست اور قانون کے لیے تمام شہری برابر ہیں۔ دل کرتا ہے کہ یہاں ہی رہائش اختیار کرلیں جہاں پر آپ کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کوئی خاص فکر نہیں کرنی پڑتی ، بچے حکومت پڑھاتی ہے، بچوں کی خوراک کا حکومت بندو بست کرتی ہے اور اگر آپ بے روزگار ہوں تو بے روزگاری الاؤنس بھی حکومت ادا کرتی ہے، بے گھر ہیں تو گھر کی فراہمی بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ چوری ڈکیتی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔کسی سرکاری افسر یا اہلکار کو رشوت نہیں دینی پڑتی، کسی کے لیے پروٹوکول نہیں ہے، سب شہری برابر ہیں۔

ٹورنٹو پہنچنے کے دو روز بعد جب کچھ تھکن اتری تو کینیڈا کے بڑے صوبے کیوبک جانے کا پروگرام بن گیا ۔ٹورنٹو سے کینیڈا کے دارالحکومت اٹاوا کا راستہ پانچ سو کلومیٹر پر محیط ہے، راستے میں ہر طرف ہرے بھرے کھیت دیکھنے کو ملے ۔


زیادہ تر مکئی اور مسور کی کاشت کی گئی تھی جب کہ کہیں کہیں گندم کی کاشت بھی نظر سے گزری۔ نہایت سیلقے اور نفاست کے ساتھ آباد کیے گئے کھیتوں کو دیکھ کریوں لگتاہے کہ جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے ان کھیتوں میں سبزے کی چادر بچھا دی ہو۔ دور دور جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی لہلہاتی فصلیں نظر آرہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ کینیڈا کی کھیتی باڑی کا زیادہ تر انحصار بارشوں کے پانی پر ہے یعنی کینیڈا کی زمینیں بھی میری وادی سون کی طرح بارانی ہیں لیکن ہر طرف لہلہاتی فصلیں دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے کہ پانی کی فراوانی ہے، میں بنیادی طور پر ایک بارانی علاقے کا کاشتکار ہوں، مجھے معلوم ہے کہ بارانی زمینوں میں فصلوں کی صورتحال کیا ہوتی ہے لیکن کینیڈا میں چونکہ بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے فصلوں کا اپنا الگ ہی رنگ ہوتا ہے ۔

البتہ کہیں کہیں فوارے بھی چلتے دیکھے جو فصلوں پر اپنی پھوار برسا رہے تھے، معلوم ہوا کہ اس سال چونکہ بارشیں کم ہوئی ہیں، اس لیے فصلوں کو اضافی پانی کی ضرورت ان مصنوعی فواروں کے ذریعے پانی دے کر پوری کی جارہی ہے ۔ کینیڈا کا زیادہ تر حصہ بحر اوقیانوس کے ساتھ واقع ہے، یہاںپر سال کے چھ ماہ سخت سردی کے ہوتے ہیں ،اس لیے یہاں پر فصلیں بھی صرف چھ ماہ کے لیے کاشت کی جاتی ہیںجب کہ باقی کے چھ ماہ زمین برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔

طول و عرض میں پھیلے کھیتوں میں فصلوں کی بہتات دیکھ کر میزبان سے پوچھا کہ ان کی کاشت تو مشینری سے ہو جاتی ہو گی لیکن ان کی برداشت کا کیا انتظام ہے تو بتایا گیا کہ کینیڈا کے ہمسائیہ ملک میکسیکو سے چھ ماہ کے عارضی پرمٹ پر مزدور آتے ہیں جو مقامی کسانوں کی مدد کر تے ہیں اور ان کی فصلوں کو منڈیوں میں پہنچا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اناج چونکہ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔

لہٰذا حکومت اس کی قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کے لیے کسانوں سے خود خریداری کر کے منڈی میں سپلائی کر دیتی ہے اور اضافی جنس کو دوسرے ممالک کو بیچ دیا جاتا ہے۔بہر حال ٹورنٹو سے اوٹاوا کاکئی گھنٹوں کا سفرقدرت کی رعنایاں اورچہار سو بکھری خوبصورتیاں دیکھتے گزر گیا اور ہم اوٹاوا کی مشہور زمانہ پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے پہنچ گئے جہاں پر ایک منفرد اور مخیر العقل نظارہ دیکھنے کو ملا۔ (جاری ہے)
Load Next Story