سپریم کورٹ میں بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف درخواست دائر
غریب بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائے گا اور کرایہ کیسے اداکرے گا، یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست
بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی جس میں بلوں میں اضافے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کے تحت بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ پندرہ ہزار تنخواہ لینے والے صارف کا پچیس ہزار بجلی کا بل بھی قرض لے کرجمع کرانا پڑے گا، غریب بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائے گا اور کرایہ کیسے اداکرے گا، حکومت کسی شہری پر اسکی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ بلوں میں انکم ٹیکس وصول کرنا ڈبل ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے، ایک بل میں دو دو مرتبہ انکم ٹیکس بھی شامل کیا گیا ہے جس کا کوئی قانونی جواز نہیں، بلوں میں آدر ٹیکس فردر ٹیکس کے ناموں سے ناجائز اور غیر قانونی وصولیاں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: بجلی کے بلز میں فیول ایڈجسمنٹ ٹیکس منہا کرکے باقی بل جمع کرانے کا حکم
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں لکھا گیا ہے کہ فییول ایڈجسٹمنٹ کس فارمولے کے تحت لگایا جا رہا ہے عوام کو کچھ علم نہیں، ملک بھر میں عوام پاور کمپنیوں کی جانب سے بھیجے گیے بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، حکومت کو غریب اور متوسط طبقے کو ریف فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے۔
ایڈوکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ واپڈا اہلکاروں اور مراعات یافتہ طبقے کی فری بجلی سپلائی کا اربوں روپے کابوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے، اخراجات پورے کرنے کے لئے معصوم بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہیں، مشکل حالات نے لوگوں کو غیر قانونی بیرون ملک ہجرت پرمجبور کر دیا ہے، اگر لاکھوں روپے تنخواہ لینے والوں کو یہ سہولت دی جاتی ہے تو اس کا بوجھ حکومت خود اٹھائے، اتنے بھاری بل سماجی انصاف کے آئینی تحفظ کے بھی منافی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک کیخلاف درخواست دائر، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سے روکنے کی استدعا
درخواست میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے اور معزز عدلیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت حکومت کو بلوں میں عبوری ریلیف فراہم کرے کا بھی حکم دے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کے تحت بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ پندرہ ہزار تنخواہ لینے والے صارف کا پچیس ہزار بجلی کا بل بھی قرض لے کرجمع کرانا پڑے گا، غریب بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائے گا اور کرایہ کیسے اداکرے گا، حکومت کسی شہری پر اسکی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ بلوں میں انکم ٹیکس وصول کرنا ڈبل ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے، ایک بل میں دو دو مرتبہ انکم ٹیکس بھی شامل کیا گیا ہے جس کا کوئی قانونی جواز نہیں، بلوں میں آدر ٹیکس فردر ٹیکس کے ناموں سے ناجائز اور غیر قانونی وصولیاں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: بجلی کے بلز میں فیول ایڈجسمنٹ ٹیکس منہا کرکے باقی بل جمع کرانے کا حکم
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں لکھا گیا ہے کہ فییول ایڈجسٹمنٹ کس فارمولے کے تحت لگایا جا رہا ہے عوام کو کچھ علم نہیں، ملک بھر میں عوام پاور کمپنیوں کی جانب سے بھیجے گیے بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، حکومت کو غریب اور متوسط طبقے کو ریف فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے۔
ایڈوکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ واپڈا اہلکاروں اور مراعات یافتہ طبقے کی فری بجلی سپلائی کا اربوں روپے کابوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے، اخراجات پورے کرنے کے لئے معصوم بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہیں، مشکل حالات نے لوگوں کو غیر قانونی بیرون ملک ہجرت پرمجبور کر دیا ہے، اگر لاکھوں روپے تنخواہ لینے والوں کو یہ سہولت دی جاتی ہے تو اس کا بوجھ حکومت خود اٹھائے، اتنے بھاری بل سماجی انصاف کے آئینی تحفظ کے بھی منافی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک کیخلاف درخواست دائر، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سے روکنے کی استدعا
درخواست میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے اور معزز عدلیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت حکومت کو بلوں میں عبوری ریلیف فراہم کرے کا بھی حکم دے۔