سندھ میں سیلاب سے متاثرہ درجنوں خاندانوں کی کراچی نقل مکانی
اس مشکل وقت میں ہمیں رہائش گاہ فراہم کی جائے، سیلاب زدگان کا حکومت سے مطالبہ
اندرون سندھ میں موسلا دھار بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث درجنوں خاندان کراچی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے جب کہ بڑی تعداد میں شہری اب بھی سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبے سندھ میں موسلادھار بارش اور سیلابی صورتحال سے ہزاروں خاندان رل گئے ہیں، کئی کئی فٹ پانی سے جان بچاکر 700 سے زائد سیلاب متاثرین کو گزشتہ رات سچل گوٹھ میں قائم تین سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
نوشیرو فیروز، جیکب آباد، شہزاد پور اور شیکار پور سمیت سندھ بھر سے 200 سے زائد خاندان نقل مقانی کرکے کراچی آگئے ہیں جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
اس سے قبل متاثرین گزشتہ پانچ دنوں سے بے سر و سامانی کی حالت میں رل گئے تھے،مال و مویشی تک باقی نہ رہا ہے،متاثرین کی زندگی بھر کی کمائی داؤ پر لگ گئی جب کہ بیشتر متاثرین اپنی عزیز و اقارب کے جدائی کے سبب غم سے نڈھال ہیں۔
اس دلخراش سانحہ نے لاکھوں افراد کو شدید متاثر کیا ہے، ڈی سی ایسٹ نے گزشتہ روز رہائشگاہوں کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور متاثرین کو ایشائے خود و نوش بھی فراہم کیا، اس کے بعد تمام متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کررہے ہیں جبکہ کچھ مخیر خضرات کی جانب سے بھی مدد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اس کے علاوہ حکومت کا کوئی نمائندہ سیلاب متاثرین کی مدد کرتا نظر نہ آیا۔
حکومت کی جانب سے دو ڈاکٹروں کو طبی سہولیات کیلیئے رہائش گاہوں میں بھیج دیا گیا تھا، ان ڈاکٹروں نے کہا کہ میڈیکل کیمپ کے انتظامات کررہے ہیں، 25 ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جو کہ صبح اور شام کے اوقات میں سیلاب متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کریں گے۔
دوسری جانب متاثرین نے کہا کہ طبی سہولیات کے نام پر صرف دو ڈاکٹروں کو بھیج دیا گیا ہے،جن کے پاس ادویات تک موجود نہیں ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے گندے پہنے ہوئے ہیں جس کے وجہ سے مختلف جلدی بیماریاں بچوں میں پھیل گئی ہیں۔
سیلاب زدگان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے علاج تک شروع نہیں کیا، کچھ خاندان اپنے پیاروں کو مردہ حالت میں کراچی لائے جن کی تدفین کئی گھنٹوں تک نہیں ہوسکی تھی۔ بے گھر اور بنیادی سہولیات سے محروم متاثرین زمین پر بیٹھ کر حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
متاثرین نے کہا کہ دو وقت کا کھانا تک پیٹ بھر کر نہیں کھا پارہے ہیں، وسائل کی کمی کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
سیلاب سے ہونے والی تباہ کا ذکر ہر سیاسی جماعت کررہی ہے لیکن متاثرین کو سہارا دینے کے لیئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اس سانحہ کی منفی اثرات پوری زندگی پر مرتب ہوگئے تو ہمارے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ آج ہمارے پاس بچوں کو سولانے کے لیئے بستر تک موجود نہیں ہیں۔
ہمارے گھر ہماری نظروں کے سامنے بہہ گئے ہیں، اگر کراچی نہ آتے تو پانی کا ریلا ہمیں بھی بہالے جاتا، بہت سے متاثرین اب بھی سیلاب زدہ علاقے میں موجود ہیں، جن سے رابطہ نہیں ہورہا ہے، ان کی کوئی خیر خبر نہیں ہے ہمارے پاس،پوری زندگی کی جمع پونجی سیلاب میں بہہ گئی ہے۔
متاثرین نے حکومت وقت سے درخواست کی ہے کہ اس مشکل وقت میں ہمیں رہائش گاہ فراہم کی جائے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبے سندھ میں موسلادھار بارش اور سیلابی صورتحال سے ہزاروں خاندان رل گئے ہیں، کئی کئی فٹ پانی سے جان بچاکر 700 سے زائد سیلاب متاثرین کو گزشتہ رات سچل گوٹھ میں قائم تین سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
نوشیرو فیروز، جیکب آباد، شہزاد پور اور شیکار پور سمیت سندھ بھر سے 200 سے زائد خاندان نقل مقانی کرکے کراچی آگئے ہیں جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
اس سے قبل متاثرین گزشتہ پانچ دنوں سے بے سر و سامانی کی حالت میں رل گئے تھے،مال و مویشی تک باقی نہ رہا ہے،متاثرین کی زندگی بھر کی کمائی داؤ پر لگ گئی جب کہ بیشتر متاثرین اپنی عزیز و اقارب کے جدائی کے سبب غم سے نڈھال ہیں۔
اس دلخراش سانحہ نے لاکھوں افراد کو شدید متاثر کیا ہے، ڈی سی ایسٹ نے گزشتہ روز رہائشگاہوں کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور متاثرین کو ایشائے خود و نوش بھی فراہم کیا، اس کے بعد تمام متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کررہے ہیں جبکہ کچھ مخیر خضرات کی جانب سے بھی مدد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اس کے علاوہ حکومت کا کوئی نمائندہ سیلاب متاثرین کی مدد کرتا نظر نہ آیا۔
حکومت کی جانب سے دو ڈاکٹروں کو طبی سہولیات کیلیئے رہائش گاہوں میں بھیج دیا گیا تھا، ان ڈاکٹروں نے کہا کہ میڈیکل کیمپ کے انتظامات کررہے ہیں، 25 ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جو کہ صبح اور شام کے اوقات میں سیلاب متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کریں گے۔
دوسری جانب متاثرین نے کہا کہ طبی سہولیات کے نام پر صرف دو ڈاکٹروں کو بھیج دیا گیا ہے،جن کے پاس ادویات تک موجود نہیں ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے گندے پہنے ہوئے ہیں جس کے وجہ سے مختلف جلدی بیماریاں بچوں میں پھیل گئی ہیں۔
سیلاب زدگان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے علاج تک شروع نہیں کیا، کچھ خاندان اپنے پیاروں کو مردہ حالت میں کراچی لائے جن کی تدفین کئی گھنٹوں تک نہیں ہوسکی تھی۔ بے گھر اور بنیادی سہولیات سے محروم متاثرین زمین پر بیٹھ کر حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
متاثرین نے کہا کہ دو وقت کا کھانا تک پیٹ بھر کر نہیں کھا پارہے ہیں، وسائل کی کمی کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
سیلاب سے ہونے والی تباہ کا ذکر ہر سیاسی جماعت کررہی ہے لیکن متاثرین کو سہارا دینے کے لیئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اس سانحہ کی منفی اثرات پوری زندگی پر مرتب ہوگئے تو ہمارے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ آج ہمارے پاس بچوں کو سولانے کے لیئے بستر تک موجود نہیں ہیں۔
ہمارے گھر ہماری نظروں کے سامنے بہہ گئے ہیں، اگر کراچی نہ آتے تو پانی کا ریلا ہمیں بھی بہالے جاتا، بہت سے متاثرین اب بھی سیلاب زدہ علاقے میں موجود ہیں، جن سے رابطہ نہیں ہورہا ہے، ان کی کوئی خیر خبر نہیں ہے ہمارے پاس،پوری زندگی کی جمع پونجی سیلاب میں بہہ گئی ہے۔
متاثرین نے حکومت وقت سے درخواست کی ہے کہ اس مشکل وقت میں ہمیں رہائش گاہ فراہم کی جائے۔