اگلے جنم موہے بٹیا ہی کیجو دوسرا اور آخری حصہ
عصمت آپا کی قلمی تصویریں کئی لوگوں نے کھینچی ہیں
عصمت آپا نے اپنے قلم سے برصغیر کی مفلسی، اخلاقی پستی اور منافقتوں کی ایسی تصویریں اتاری ہیں جن کی ہر لکیر سے زندگی کا زہر ٹپکتا ہے اور انسان کی مظلومیت اور اس کا ظلم، اس کی بے بسی اور اس کی قہاری، اس کی معصومیت اور اس کی کمینگی، اس کی سادہ لوحی اور اس کی عیاری کے سارے رنگ جھلکتے ہیں۔
وہ ایک بڑی لکھنے والی ہی نہیں تھیں، ایک خوش دل اور خوش ذہن انسان تھیں، زندگی سے چھلکتی ہوئی۔ ان کا قلم اور ان کی زبان جتنی کاٹ دار تھی اتنی ہی وہ ذاتی رشتوں میں گرم جوش اور نرم مزاج تھیں۔ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ان کے شوہر شاہد لطیف کے چھوٹے بھائی، خالد لطیف نے ان کے بارے میں لکھا۔
''لکھنو میں نمائش لگی ہوئی تھی۔ ہم لوگ نمائش دیکھنے گئے، عصمت، بھائی صاحب اور ایک آدھ اور عزیز۔ عصمت اور شاہد ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ نہ معلوم کیوں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے عصمت دانستہ ایک قدم پیچھے رہنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس وقت یہ خیال میرے ذہن میں بہت مبہم تھا لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عصمت شاہد سے بہت بڑی ہیں۔ یہ اور بات کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا بنا کر دوستوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اپنی اس کوشش میں وہ کہاں تک کام یاب ہوئیں؟ اس کے متعلق میں عرض کرسکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :
''1946 میں اتفاقاً میری نظر عصمت کی ڈائری پر پڑ گئی۔ اس ڈائری کو پڑھنے کے بعد ان کی فطرت کی چھپی ہوئی عظمتیں میرے سامنے کچھ اس طرح آگئیں کہ میں نے اپنا سر جھکایا۔ ایک جگہ لکھا تھا:''میں نے اونچی ایڑی کی سینڈلیں اس لیے پہننا چھوڑ دیں کہ میرے اور شاہد لطیف کے قدوں کا باہمی فرق کم ہو جائے اور وہ بڑے معلوم ہونے لگیں۔ میں نے لکھنا کم کردیا کہ میری شہرت سے وہ احساس کم تری میں مبتلا نہ ہوں۔ میں نے اچھے لباس پہننے چھوڑ دیے تاکہ لوگوں کی نظریں مجھ پر کم پڑیں۔''
یہ ہے حقیقی عصمت چغتائی کا ایک عکس، اس کی روح کی ایک جھلک۔ مولانا صلاح الدین نے کہیں لکھا ہے کہ ''آنے والی نسلوں کی ماں، بہنیں عصمت کے کرداروں کو اپنے پہلو میں مچلتا ہوا محسوس کریں گی۔'' عصمت نے بے باک افسانے لکھے۔ روایتی اخلاق کو ٹھکرایا لیکن اس ایثار پیشگی کی مثال کہیں اور مشکل ہی سے ملے گی۔
عصمت آپا کی قلمی تصویریں کئی لوگوں نے کھینچی ہیں۔ ان ہی میں اردو کی معتبر اور نامور افسانہ نگار اختر جمال بھی ہیں۔ عصمت آپا جب پاکستان آئیں تو چند دنوں کے لیے اسلام آباد اختر جمال کے گھر ٹھہریں، ان دنوں کی یادیں اختر جمال نے بہت محبت سے بیان کی ہیں، لکھتی ہیں:''سی بی کالج میں سب لوگ عصمت آپا کے منتظر تھے۔ بڑا خوب صورت جلسہ ہوا۔ طالبات نے ہال کو بڑے سلیقے سے آراستہ کیا تھا۔ جلسے میں شریک طالبات نے عصمت آپا سے بہت اچھے اچھے سوالات کیے اور سوال و جواب کا یہ سیشن بہت ہی دلچسپ رہا۔
عصمت آپا نے عورت کے مسائل پر کافی روشنی ڈالی اور ہندوستان اور پاکستان کی عورتوں میں تقابل بھی پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ آخر کار عورت کہیں کی بھی ہو، عورت ہونے کے ناتے اس کے مسائل مشترک ہیں اور پھر برصغیر کی عورتیں تو بہت سی قدریں، مشترک رکھتی ہیں۔ عصمت آپا نے جوابی تقریر بھی بہت اچھی کی اور لڑکیوں کو اپنے حقوق کا شعور دلاتے ہوئے ایک مثالی عورت کی حیثیت سے حضرت زینبؓ کا کردار پیش کیا۔''
عصمت آپا کے بہت سے روپ تھے۔ محبت بھرے لوگوں کو سمجھا رہی ہیں۔ ان کے مسائل میں شریک ہیں۔ کسی پر طنز کر رہی ہیں تو کسی کو طعنہ دے رہی ہیں۔ سمجھنے والا کسی طور تو سمجھے۔ اپنے بعد آنے والے افسانہ نگاروں کے ساتھ ان کا رویہ بہت متوازن تھا۔ نہ وہ مربیانہ انداز میں پیش آتیں اور نہ بڑا ادیب ہونے کے سبب غور سے ملتیں۔
ان کا خیال تھا کہ ان کے بعد آنے والوں کو بہت کچھ کرنا ہے اور بہت آگے بڑھنا ہے۔ وہ پاکستان کے جس شہر بھی گئیں، ان کے چاہنے والے ان کے گرد پروانوں کی طرح حلقہ کیے رہتے۔ وہ عصمت چغتائی تھیں اور انھیں دیکھنا، انھیں سننا ہم سب کے لیے اعزاز تھا۔ کراچی میں غالب لائبریری آئیں، بولنے کھڑی ہوئیں تو بجلی غائب، خاصی دیر بعد جب بجلی آئی، اس دوران کوئی شخص بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ نشستیں کم تھیں اور آنے والے بہت زیادہ، چنانچہ سو، سوا لوگ باہر کھڑے تھے۔ وہ بھی اسی طور کھڑے رہے۔ جب بجلی آئی اور عصمت آپا نے بولنا شروع کیا تو سب سانس روکے ان کی باتیں سنتے رہے۔
اردو افسانے کے چار ستون کہے جاتے تھے۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی پہلے جا چکے تھے۔ اب عصمت آپا بھی چلی گئیں۔ چاروں ستون گر گئے۔ اردو افسانے کا وہ زریں باب بند ہوا جس کا ابتدائیہ پریم چند نے رقم کیا تھا۔
چند برس پہلے قرۃ العین حیدر نے عورتوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کی بات ایک خاص ڈھب سے کی تھی اور ایک ناولٹ '' اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو'' لکھا تھا۔ یہ قرۃ العین حیدر کی ایک معرکۃالآرا تحریر ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کہانی کو عصمت آپا لکھتیں تو آستین چڑھا کر اس لوک گیت کی سیون ادھیڑتیں اور گیت کے بول میں کچھ اس طرح کی ترمیم کرتیں کہ '' اگلے جنم موہے بٹیا ہی کیجو!''
وہ ایک بڑی لکھنے والی ہی نہیں تھیں، ایک خوش دل اور خوش ذہن انسان تھیں، زندگی سے چھلکتی ہوئی۔ ان کا قلم اور ان کی زبان جتنی کاٹ دار تھی اتنی ہی وہ ذاتی رشتوں میں گرم جوش اور نرم مزاج تھیں۔ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ان کے شوہر شاہد لطیف کے چھوٹے بھائی، خالد لطیف نے ان کے بارے میں لکھا۔
''لکھنو میں نمائش لگی ہوئی تھی۔ ہم لوگ نمائش دیکھنے گئے، عصمت، بھائی صاحب اور ایک آدھ اور عزیز۔ عصمت اور شاہد ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ نہ معلوم کیوں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے عصمت دانستہ ایک قدم پیچھے رہنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس وقت یہ خیال میرے ذہن میں بہت مبہم تھا لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عصمت شاہد سے بہت بڑی ہیں۔ یہ اور بات کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا بنا کر دوستوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اپنی اس کوشش میں وہ کہاں تک کام یاب ہوئیں؟ اس کے متعلق میں عرض کرسکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :
''1946 میں اتفاقاً میری نظر عصمت کی ڈائری پر پڑ گئی۔ اس ڈائری کو پڑھنے کے بعد ان کی فطرت کی چھپی ہوئی عظمتیں میرے سامنے کچھ اس طرح آگئیں کہ میں نے اپنا سر جھکایا۔ ایک جگہ لکھا تھا:''میں نے اونچی ایڑی کی سینڈلیں اس لیے پہننا چھوڑ دیں کہ میرے اور شاہد لطیف کے قدوں کا باہمی فرق کم ہو جائے اور وہ بڑے معلوم ہونے لگیں۔ میں نے لکھنا کم کردیا کہ میری شہرت سے وہ احساس کم تری میں مبتلا نہ ہوں۔ میں نے اچھے لباس پہننے چھوڑ دیے تاکہ لوگوں کی نظریں مجھ پر کم پڑیں۔''
یہ ہے حقیقی عصمت چغتائی کا ایک عکس، اس کی روح کی ایک جھلک۔ مولانا صلاح الدین نے کہیں لکھا ہے کہ ''آنے والی نسلوں کی ماں، بہنیں عصمت کے کرداروں کو اپنے پہلو میں مچلتا ہوا محسوس کریں گی۔'' عصمت نے بے باک افسانے لکھے۔ روایتی اخلاق کو ٹھکرایا لیکن اس ایثار پیشگی کی مثال کہیں اور مشکل ہی سے ملے گی۔
عصمت آپا کی قلمی تصویریں کئی لوگوں نے کھینچی ہیں۔ ان ہی میں اردو کی معتبر اور نامور افسانہ نگار اختر جمال بھی ہیں۔ عصمت آپا جب پاکستان آئیں تو چند دنوں کے لیے اسلام آباد اختر جمال کے گھر ٹھہریں، ان دنوں کی یادیں اختر جمال نے بہت محبت سے بیان کی ہیں، لکھتی ہیں:''سی بی کالج میں سب لوگ عصمت آپا کے منتظر تھے۔ بڑا خوب صورت جلسہ ہوا۔ طالبات نے ہال کو بڑے سلیقے سے آراستہ کیا تھا۔ جلسے میں شریک طالبات نے عصمت آپا سے بہت اچھے اچھے سوالات کیے اور سوال و جواب کا یہ سیشن بہت ہی دلچسپ رہا۔
عصمت آپا نے عورت کے مسائل پر کافی روشنی ڈالی اور ہندوستان اور پاکستان کی عورتوں میں تقابل بھی پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ آخر کار عورت کہیں کی بھی ہو، عورت ہونے کے ناتے اس کے مسائل مشترک ہیں اور پھر برصغیر کی عورتیں تو بہت سی قدریں، مشترک رکھتی ہیں۔ عصمت آپا نے جوابی تقریر بھی بہت اچھی کی اور لڑکیوں کو اپنے حقوق کا شعور دلاتے ہوئے ایک مثالی عورت کی حیثیت سے حضرت زینبؓ کا کردار پیش کیا۔''
عصمت آپا کے بہت سے روپ تھے۔ محبت بھرے لوگوں کو سمجھا رہی ہیں۔ ان کے مسائل میں شریک ہیں۔ کسی پر طنز کر رہی ہیں تو کسی کو طعنہ دے رہی ہیں۔ سمجھنے والا کسی طور تو سمجھے۔ اپنے بعد آنے والے افسانہ نگاروں کے ساتھ ان کا رویہ بہت متوازن تھا۔ نہ وہ مربیانہ انداز میں پیش آتیں اور نہ بڑا ادیب ہونے کے سبب غور سے ملتیں۔
ان کا خیال تھا کہ ان کے بعد آنے والوں کو بہت کچھ کرنا ہے اور بہت آگے بڑھنا ہے۔ وہ پاکستان کے جس شہر بھی گئیں، ان کے چاہنے والے ان کے گرد پروانوں کی طرح حلقہ کیے رہتے۔ وہ عصمت چغتائی تھیں اور انھیں دیکھنا، انھیں سننا ہم سب کے لیے اعزاز تھا۔ کراچی میں غالب لائبریری آئیں، بولنے کھڑی ہوئیں تو بجلی غائب، خاصی دیر بعد جب بجلی آئی، اس دوران کوئی شخص بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ نشستیں کم تھیں اور آنے والے بہت زیادہ، چنانچہ سو، سوا لوگ باہر کھڑے تھے۔ وہ بھی اسی طور کھڑے رہے۔ جب بجلی آئی اور عصمت آپا نے بولنا شروع کیا تو سب سانس روکے ان کی باتیں سنتے رہے۔
اردو افسانے کے چار ستون کہے جاتے تھے۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی پہلے جا چکے تھے۔ اب عصمت آپا بھی چلی گئیں۔ چاروں ستون گر گئے۔ اردو افسانے کا وہ زریں باب بند ہوا جس کا ابتدائیہ پریم چند نے رقم کیا تھا۔
چند برس پہلے قرۃ العین حیدر نے عورتوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کی بات ایک خاص ڈھب سے کی تھی اور ایک ناولٹ '' اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو'' لکھا تھا۔ یہ قرۃ العین حیدر کی ایک معرکۃالآرا تحریر ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کہانی کو عصمت آپا لکھتیں تو آستین چڑھا کر اس لوک گیت کی سیون ادھیڑتیں اور گیت کے بول میں کچھ اس طرح کی ترمیم کرتیں کہ '' اگلے جنم موہے بٹیا ہی کیجو!''