شہر کو سیلاب لے گیا

ایک نیشنل کانفرنس بلائی جائے اور سیلاب اور اس کے نقصانات سے بچاؤ کا حتمی پلان اور حکمت عملی بنائی جائے

ایک نیشنل کانفرنس بلائی جائے اور سیلاب اور اس کے نقصانات سے بچاؤ کا حتمی پلان اور حکمت عملی بنائی جائے۔ فوٹو : سوشل میڈیا

وفاقی حکومت نے ملک میں سیلابی صورتحال کو قومی ایمرجنسی ڈکلیئر کردیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اپیل پر بین الاقوامی تنظیموں اور مالی اداروں نے سیلاب متاثرین کے لیے پچاس کروڑ ڈالر سے زائد کی فوری امداد کا اعلان کیا ہے۔

مون سون کی موسلا دھار بارشوں اور سیلاب سے سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور جنوبی پنجاب میں سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ، ہزاروں مکان تباہ جب کہ تین کروڑ شہری بے گھر ہوگئے ہیں۔ اب تک مجموعی اموات کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ پاک فوج کے تمام جنرل آفیسرز نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ متاثرین کی مدد کے لیے دی ہے۔

ہر سال آتا ہے یہ سیلاب۔ ہر سال ہوتی ہے تباہی، ہر سال ہوتے ہیں نوحے ، ہر سال ہوتے ہیں نئے وعدے اور دعوے۔ تمام صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی کے باعث عوام دکھ اور پریشانی میں مبتلا ہیں ، بلاشبہ 2005 کے زلزلے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA کا قیام وجود میں آیا تھا ، جو یقیناً ایک احسن قدم ہے لیکن یہ ادارہ بھی اب ایسے چیلنجز سے نمٹنے میں اس لیے ناکام نظر آتا ہے کہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

صوبائی حکومتوں کے ماتحت تمام اداروں کا اسٹاف صرف تنخواہیں اور مراعات لینا جانتا ہے ، لیکن عملی میدان میں ان کی کارکردگی صفر ہے۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی ہر طرف داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔

ہزاروں گھر بہہ گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں قیمتی جانور اور کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں ، کاروبار اجڑے، لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں ، معصوم بچوں کو سینوں سے لگائے مائیں مایوس آنکھوں سے اپنے گھروں کو ڈوبتا دیکھتی رہیں۔

موجودہ درد انگیز منظر نامے کو دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں

ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

گھر ڈوبتا اور بہتا ہے تو غریب کا۔ اور غریب کا کیا؟ دو بول دلاسوں کے ، دو تھیلے راشن کے اور دو قسطیں امداد کی اسے بہلا لیتی ہیں۔ ہر سال ہم قلم ، کیمرے اور مائیک والوں کو ایک نئی کہانی مل جاتی ہے ، لیکن جن گھروں کے مہکتے اور چہکتے دالانوں کی کہانیاں اجڑ جاتی ہیں ، جن کے پیاروں کی لاشوں کو سیلابی پانی غسل دیتا ہے۔ جن کی جوان فصلیں آن کی آن میں بوڑھے مردہ جسموں کی مانند ڈھے جاتی ہیں ان کا قصہ سال بھر بعد سب بھول جاتے ہیں۔ سیلابی پانی تو اُتر جاتا ہے لیکن جن کی آنکھیں غم سے پانی پانی ہو جاتی ہیں وہ پانی مشکل سے اترتا ہے، آخر ایسا کیوں؟ پاکستان حادثات و آفات کی زد میں ایسا گِھرا ہے کہ ہم ہر لمحے نئے حادثے سے دوچار ہوتے ہیں۔


ایسے میں پھر ذہنوں میں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا قدرتی آفات بھی طبقاتی ہوتی ہیں؟ یہ ہمیشہ استحصال زدہ اور محروم طبقوں کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہیں؟ زلزلوں اور سیلابوں میں کتنے سرمایہ دار یا جاگیر دار مرتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کراچی جیسا میگا سٹی اربن فلڈنگ کا تسلسل سے شکار ہو رہا ہے اور یہ بھی تو سچ ہے کہ ہمارا جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقہ ذرا جدید قسم کا ساہوکار بن چکا ہے لیکن مگر مچھ کے آنسو بہانے والا یہ ہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمے دار ہے اور اس نظام کے محافظ بھی۔ وہ ہیلی کاپٹر سے بربادیوں کا نظارہ کرتا ہے، اپنی سیاست چمکاتا ہے، پھرفوٹو سیشن ہوتے ہیں، عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے، جب امداد مل جاتی ہے تو یہ امداد نچلی و بالائی افسر شاہی سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک کی غربت دور کرنے کے کام آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار کو بارش اور سیلاب سے جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ فی کس آمدنی کی نشوونما سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نقصان تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان شمار کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے، یقیناً یہ ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔

محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی ان بارشوں کا 75 فی صد صرف چار مہینوں میں یعنی جون سے ستمبر تک ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی بروقت اطلاعات اور پیشن گوئیوں کے باوجود حکومت کسی بھی مناسب منصوبہ بندی سے عاری نظر آئی۔ ہم بحیثیت قوم آفت کا انتظار کرتے ہیں اور گزر جانے والی آفت اور حادثے کے انجام پر غور نہیں کر پاتے۔

ہر سال فلڈ کمیشن بنتے رہے اور نظر انداز ہوتے رہے۔ آخر ہم رپورٹس بھی کتنی پڑھیں؟ حادثات ہی اتنے ہیں! لیکن کیا یہ سیلاب کی آفت کو کہیں ہم خود دعوت تو نہیں دیتے؟ آخر ہم نئے ڈیمز کیوں نہیں بناتے؟ آخر ہم نہری نظام کو بہتر کیوں نہیں کرتے؟ آخر ہم دریا کنارے غیرقانونی بند اور آبادیاں ختم کیوں نہیں کرتے؟ آخر ہم جنگلات کی غیر قانونی کٹائی روکتے کیوں نہیں؟ آخر ہم طوفانی بارشوں سے نمٹنے کا نظام کیوں نہیں بناتے؟ ایسی بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں۔

صرف پاکستان میں ہی تو نہیں ہوتیں۔ دوسرے ممالک کے نظام سے ہم سیکھتے کیوں نہیں؟ مانا کہ سیلاب ایک ایسی قدرتی آفت ہے جسے مکمل روکنا بس میں نہیں لیکن کیا اس کے نقصانات کم سے کم کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں؟ چلیے کالا باغ ڈیم کو تو ہم نے ایک متنازع مسئلہ بنا دیا لیکن چھوٹے ڈیمز بنانے پر کس نے اعتراض کیا؟ عالمی ادارے بھی پاکستان میں سیلاب کے متعلق اپنی رپورٹس جاری کرتے ہیں اور نئے چھوٹے ڈیم کی تعمیر اور نہری نظام کی بہتری کی تجویز دیتے ہیں۔ ہر سال یہ بیش قیمت پانی، جو ہمارے زرعی ملک کے لیے رب کی رحمت ہو سکتا ہے۔

ایک زحمت بن جاتا ہے۔ قصبے، گاؤں ، شہر ڈوب جاتے ہیں اور ہم صرف امداد پہنچانے کے لیے رہ جاتے ہیں۔ عوام کی حفاظت کا باعث کیوں نہیں بنتے؟ ریاست اور سیاست نام ہے عوام کی خدمت کا اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا اور یہی درس تو دیتا ہے اسلام جس کے نام پر مبنی ہے ہماری اسلامی مملکت پاکستان! اس سال کا سیلاب تو سمندر میں غرق ہوا۔ لیکن اگلے سال کے لیے کیا بندوبست ہے؟

ہمیں اگلے سال کی تدبیر بھی کرنی ہے ، پھر مون سون آئے گا ، پھر پانی چڑھے گا اور کہیں یہ سیلابی پانی پھر سے غریب کی آنکھ کا پانی نہ بن جائے اس کی تدبیر کرنی ہو گی۔ متعلقہ حکومتی ادارے ابھی سے بیٹھیں اور کوتاہیوں پر خلوصِ نیت سے غور کریں، نشاندہی کریں اور جہاں غلطی ہو، اسے درست کریں اور اس ضمن میں کسی اثر و رسوخ یا دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں۔ جہاں غیر قانونی یا '' زمیندارہ '' بند ہو اُسے ختم کروایا جائے۔ جہاں غیر قانونی آبادیاں ہیں انھیں بھی ختم کروائیں۔ نئے ڈیم بنوائے جائیں، نہری اور آب پاشی کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ جتنی فلڈ کمیشن رپورٹس ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔

ایک نیشنل کانفرنس بلائی جائے اور سیلاب اور اس کے نقصانات سے بچاؤ کا حتمی پلان اور حکمت عملی بنائی جائے۔ جہاں جہاں ضرورت ہو افواج پاکستان کی مدد بھی ضرور حاصل کی جائے اور یہ آج ہی کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پانچ سال کی مدت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ بارشیں اور سیلاب پانچ سال کسی کا انتظار نہیں کرتیں۔ اگلے سال بارشوں اور سیلاب سے کسی کا گھر نہ اجڑے۔ اس کہانی کی تحریر آج سے ہی لکھنی ہوگی۔ سیلاب ہمارے وطن کی زمینوں کو سیراب ضرور کرے لیکن سیلابی پانی کسی کی آنکھ کا پانی نہ بنے، یہ سوچنا ہو گا اور عمل کرنا ہوگا۔

اس وقت ہمارے سیاسی رہنماؤں کی آپس میں ضد اور انا پرستی سے پوری قوم انتشار کا شکار ہوچکی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، یہ لوگ اپنی جمع پونجی بارشوں اور سیلاب میں ہار چکے ہیں۔ اس المناک صورت حال میں جہاں ایک طرف پاکستانی قوم مسائل و مشکلات اور سیلاب جیسی مشکل سے دوچار ہے۔ دوسری طرف افسوس ناک طرز عمل یہ بھی رہا کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بیان بازی میں مصروف رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ملکی قائدین اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر ان مسائل اور مشکلات سے نجات حاصل کریں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور انھیں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔
Load Next Story