ٹریفک حادثات اور احتیاطی تدابیر

اسکول کے بچوں کی وین اور بسوں کے حادثات کی دلخراش خبریں ابھی کچھ عرصے قبل ہی نظر سے گزری ہیں

apro_ku@yahoo.com

اگر بات صرف انسانی ہلاکتوں کی تعداد کے اعتبار سے کی جائے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے اس ملک میں دہشت گردی اور بم دھماکوں سے چار گنا زائد اموات جس مسئلے پر ہوتی ہیں اس پر نہ ملکی سطح پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، نہ ہی عوام میں آگہی کے لیے کوئی باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے، نہ ہی اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کے سبب ملک میں سالانہ 12 ہزار لوگ جاں بحق اور لگ بھگ 50 ہزار کے قریب زخمی ہوجاتے ہیں۔

یہ مسئلہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس انسپکٹر جنرل ذوالفقار احمد چیمہ نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ بم دھماکوں سے چار گنا زائد لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد سالانہ بالترتیب 12 ہزار 50 ہزار بنتی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں مزید آگاہی فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک حادثات کی اکثریت میں 18 سے 30 سال کے افراد شامل ہوتے ہیں جو روڈ سیفٹی اصولوں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بات بھی بتائی کہ 80 فیصد حادثات تیز رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ اور موبائل وغیرہ کے دوران ڈرائیونگ استعمال کے سبب ہوتے ہیں۔ اسی طرح حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کی 60 سے 70 فیصد تعداد محض سیٹ بیلٹ نہ باندھنے والی ہوتی ہے۔

اسکول کے بچوں کی وین اور بسوں کے حادثات کی دلخراش خبریں ابھی کچھ عرصے قبل ہی نظر سے گزری ہیں جب کہ یہ سلسلہ رکتا نہیں سال بھر جاری رہتا ہے۔ بچوں کے اسکول کی وین اور بسوں یا مسافر بسوں کو چلانے والے تو عام ڈرائیور ہوتے ہیں جو یقیناً پڑھے لکھے نہیں ہوتے، ظاہر ہے کہ جب پڑھے لکھے نہیں تو شعور بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ قانون کی بالادستی نہ ہونے کے سبب ایک اسکول وین سے لے کر انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں تک کی غلطی کا خمیازہ مسافروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ان حادثات کا دوسرا پہلو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ان پڑھ نہیں تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ کراچی جیسا شہر جہاں ملک کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنی نجی گاڑیاں خود چلاتے ہیں، قانون کی صبح و شام کھلی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور یہی قانون کی خلاف ورزیاں پھر حادثات پر منتج بھی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سڑکوں پر چلتے ٹریفک سے کسی قوم کے کلچر اور مزاج کا اور ان کے شعور کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، یقیناً یہ بات کراچی جیسے شہر پر بھی صحیح ثابت ہوتی ہے۔ ٹریفک جام کا ایک بڑا سبب اس شہر کے بیشتر لوگوں کا جلدی کرنے اور دوسرے کے حق کو روندتے ہوئے اپنی گاڑی نکالنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ سب کچھ اس خطرناک انداز میں کیا جاتا ہے کہ لوگ حادثات کا شکار ہوکر گرتے رہتے ہیں، کچھ دیر کو ایک مجمع جائے حادثہ پر جمع ہوتا ہے اور پھر چند منٹوں بعد سب کچھ رواں دواں ہوجاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن شہر کے سول جیسے بڑے اسپتال کے گیٹ پر آپ کھڑے ہوجائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر 5 منٹ بعد کوئی نہ کوئی چیختی چلاتی ایمبولینس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو لا رہی ہوتی ہے۔


صبر و تحمل کا مزاج جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں ختم ہوکر رہ گیا ہے وہیں سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے لوگوں میں بھی صبر وتحمل مشکل سے ہی نظر آتا ہے، منزل پر محض پانچ دس منٹ پہلے پہنچنے کے لیے وہ رسک لیا جاتا ہے کہ جس میں حادثہ ہوجائے تو کم ازکم پانچ چھ ماہ بیڈ ریسٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ حال گاڑیوں کے پارک کرنے کے حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ہم میں سے ہر دوسرا شخص اس قدر جلدی میں دکھائی دیتا ہے کہ کبھی لب سڑک اور کبھی بیچ سڑک ہی گاڑی روک کر خریداری شروع کردیتا ہے۔ ایسی غلط پارکنگ کے باعث شاپنگ سینٹر اور بازاروں کے قریب خاص کر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم سب مل کر صبح و شام ٹریفک جام کرنے میں اپنا اپنا کردار تندہی سے انجام دے رہے ہوتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ٹریفک جام کے باعث ایمبولینس بھی مریضوں کو بروقت اسپتال نہیں پہنچا سکتی۔ غلط اوور ٹیکنگ اور ہارن کا غلط استعمال تو کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔

بہرکیف ایک اور خطرناک بات جس کی طرف توجہ دلانا نہایت اہم ہے وہ نو عمر اور کم عمر بچوں کو موٹرسائیکل اور گاڑیاں چلانے کے لیے والدین کی طرف سے آزادی دینا ہے۔ کم از کم کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ ایک خطرناک ترین غلطی ہے جس کے باعث خود ان نوعمروں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ راقم کے ایک محلے دار نے شادی کی تقریب میں جاتے ہوئے موٹرسائیکل پر تو اپنے نوعمر بیٹے اور بچوں کو سوار کرادیا اور خود کار میں شادی ہال جانے لگے۔ بیٹے نے شو بازی کرتے ہوئے شادی کی کار سے آگے پیچھے موٹرسائیکل دوڑانا شروع کردی اور ایک غلطی کے باعث حادثہ ہوگیا جس میں بچہ ہلاک اور لڑکے کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا۔ ایک اور واقعے میں دو نوجوان لڑکے کار کی ریس لگاتے ہوئے تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہے تھے، انھوں نے ہمارے ایک عزیز کو جو سڑک کنارے رکشے کے انتظار میں تھے ایسی ٹکر ماری کہ وہ دو فرلانگ دور جاگرے اور ان کے ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں میں فریکچر ہوگیا۔ ایک اور واقعے میں گیارہویں جماعت کا لڑکا اپنی سالگرہ کے دن اپنے دوستوں کو لے کر کیک خریدنے جا رہا تھا اور دوستوں کو دکھانے کے لیے اتنی تیز کار چلائی کہ کار چلتے چلتے الٹ گئی، دوست تو زخمی ہوگئے مگر وہ خود سالگرہ والے دن ہلاک ہوگیا۔

ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کو نظرانداز نہ کیا جائے، حادثات میں ہلاک وزخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہم ڈینگی وائرس کے سبب گنتی کی ہلاکتوں پر احتیاطی تدابیر کے لیے بھاگتے پھرتے ہیں، کیا اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے صبر و تحمل سے ڈرائیو نہیں کرسکتے؟ صبر وتحمل اور قانون کو اپناکر ڈینگی اور بم دھماکوں سے بھی خطرناک حملوں (حادثات) سے بچا جاسکتا ہے۔ آئیے آج سے عہد کریں اور ان باتوں پر عمل کریں کہ (1) موٹرسائیکل بغیر ہیلمٹ کے نہ چلائیں گے اور چین کور بھی مکمل طور پر لگا کر رکھیں گے کیونکہ اکثر اوقات خواتین کے دوپٹے یا کپڑے موٹرسائیکل کی چین میں آجاتے ہیں جس سے وہ گر کر زخمی ہوجاتی ہیں۔ (2) گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ بھی باندھیں گے کیونکہ حادثات میں زخمی ہونے والوں کی شرح 60 سے 70 فیصد ایسے ہی لوگوں کی ہے۔

(3) اپنے کم عمر بچوں کو گاڑی یا موٹرسائیکل مین شاہراہوں پر چلانے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ حادثات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی اکثریت ان ہی پر مبنی ہوتی ہے۔
Load Next Story