امن و امان کا مسئلہ

آج صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بدامنی کا راج ہے۔ عوام امن، چین، سکون، روزگار، تعلیم، صحت و دیگر مسائل سے دوچار ہیں

آج صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بدامنی کا راج ہے۔ عوام امن، چین، سکون، روزگار، تعلیم، صحت و دیگر مسائل سے دوچار ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کیوں بھئی! ایسا کیوں ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ عوام کے مسائل و مشکلات کی طرف سوچے اور دیکھے، ہر کوئی اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ کوئی وزیر، کوئی مشیر، کوئی کسی اعلیٰ ادارے کا سربراہ تو کوئی انتظامیہ میں اہم عہدہ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ پھر عوام کو کون پوچھ سکتا ہے۔ عوام تو بے بس، لاچار، مجبور ہیں، اپنے ہی نجی مسائل کے ہاتھوں۔ اسے کیا خبر کہ کون ان کی فکر کر رہا ہے، کون ان کی طرف سے غافل ہے۔ عوام تو خود دال، آٹے کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مزدوروں کا یہ حال ہے کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں مزدوری کی تلاش میں کہ کہیں مزدوری مل جائے گی تو شام کو گھر بچوں کے لیے دال آٹا لے کر جاؤں گا اور اس پر ستم یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر مزدوری نہ ملی تو پھر گھر میں تو فاقہ ہی ہوتا ہے۔

جب مزدوروں کا یہ حال ہے تو دیگر طبقات کی طرف کون توجہ دے گا۔ ہاں یہ ضرور دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ طبقے کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی زندگیوں میں بھی اندھیرا نہیں ہونے دیا جاتا۔ یہی امتیازی اور تفرقاتی عمل عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے۔ باتیں عدل و مساوات کی تو بہت کی جاتی ہیں لیکن معاملہ ''دور کے ڈھول سہانے'' سے آگے نہیں بڑھتا۔ عوام کے پاس آج کھانے کے لیے روٹی نہیں ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کل کھا لینا۔ ایسے معاشرے کو کیا نام دیا جاسکتا ہے جہاں صرف ہوائی باتیں اور جھوٹی یقین دہانیوں سے عوام کو بہلایا جاتا ہے۔ محض لولی پاپ دینے سے عوام کے پیٹ کیا بھر جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ انسان کو کوئی شے میسر ہو نہ ہو، ہوا، پانی، غذا اور تندرستی بنیادی سہولیات ہیں۔ بغیر اس کے انسان زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔

ظاہر ہے جب معاشرے میں ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو وہ معاشرہ ''بیزار معاشرہ'' کہلاتا ہے۔ جب عوام حکمرانوں کے رویے سے بیزار ہوجاتے ہیں تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہی بنیادی سبب بنتا ہے شہروں اور ملکوں میں بدامنی اور لاقانونیت کے پیدا ہونے کا۔ بھوکا شیر بھی اپنے شکار کی تلاش میں نہیں دیکھتا ہے کہ کون سا جانور بڑا ہے یا کون سا چھوٹا۔ بس اپنی بھوک مٹانے کے لیے چیر پھاڑ کرتا ہے۔ یہی حال بھوکے عوام کا ہوتا ہے کہ وہ نہیں دیکھتے کون قابل رحم ہے اور کون ناقابل رحم ہے۔ وہ ایوانوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگتے ہیں اور اپنے حکمرانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ان حالات میں حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نتیجتاً عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ہر صورت عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اپنے رویے میں توازن برقرار رکھے۔

تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، لہٰذا حکومت اور عوام کے درمیان بھی تعلقات کا توازن برقرار رکھا جائے گا تو کبھی صورتحال بگڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مشکل ہماری حکومتوں کے ساتھ یہی ہوتی ہے کہ وہ کبھی متاثرہ فریق کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتیں۔ بس اختلافات برائے اختلافات کا رویہ اختیار کرلیتی ہیں۔ جب حکومت اور عوام دونوں جانب سے تناؤ کی صورتحال ہوگی تو مسائل حل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کسی نہ کسی فریق کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت سندھ اور حزب اختلاف میں تنازعات کی وجہ یہی ہے۔ شہر کراچی میں قتل و غارت گری کھلے عام ہو رہی ہے۔ عوام کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہے، میڈیا چیخ چیخ کر صورت حال کے مناظر دکھا رہا ہے، اخبارات میں سرخیاں لگ رہی ہیں کہ روزانہ اتنے افراد قتل ہوئے، اتنے افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، اتنے افراد اغوا کیے گئے۔ لیکن جب ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات و داخلہ کا بیان آتا ہے تو وہ یہی بیان داغ دیتے ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج آ رہے ہیں، جرائم میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آگئی ہے۔ لیکن ان کا ایسا بیان حقائق کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اسی حقائق پوشی کا خمیازہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھگت رہے ہیں۔


محترم وزیر سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ عوام کے سامنے حقائق سے پردہ پوشی نہ کریں۔ اس طرح حقائق کے برعکس بیانات دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں۔ اب تو میڈیا بہت فعال ہوگیا ہے۔ عوام کو پل پل کی خبریں بتا دیتا ہے۔صرف خبر ہی نہیں دیتا بلکہ حقیقی مناظر بھی دکھا دیتا ہے۔ حکومتی ناکامیوں پر پردہ پوشی پر اگر حقائق کا اعتراف کرلیا جائے تو عوام میں حکومت کی پذیرائی ہوگی ورنہ دیگر صورت میں عوام میں حکومت کی بدنامی اور تذلیل ہوگی۔

عوامی حلقوں میں چہ میگوئیاں سننے میں آرہی ہیں کہ حکومت دانستہ طور پر ایسا ماحول پیدا کر رہی ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف سے ہٹ جائے اور حکومت کو اپنی من مانی کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔ کیا یہی ہوتا ہے انداز جمہوری حکمرانی کا۔ ہوش کے ناخن لو، عوام کی صحیح ترجمانی کے ساتھ خدمت کرو، عوام میں تفرقات پیدا کرنے کے بجائے اتفاق و اتحاد قائم کرو۔

صوبے کے حالات انتہائی مخدوش ہو رہے ہیں بالخصوص صوبائی دارالخلافہ کراچی کے حالات۔ لیکن حکومت سندھ کی سربراہی کون کر رہا ہے؟ یہ نہیں معلوم ہو رہا۔ بلکہ اس کے برعکس صوبے کے موجودہ حالات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پورے کا پورا صوبہ پولیس اسٹیٹ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لیکن حالات کیا کہہ رہے ہیں ''وہی ڈھاک کے تین پات''۔ وزیراعلیٰ صاحب کو چاہیے کہ میدان میں آئیں، اپنی خدمات عوام کو پیش کریں جنھوں نے انھیں تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب کیا ہے۔ عوام میں محبت، اخوت اور قومی یکجہتی کی فضا قائم کریں۔ آپ گلی، محلوں اور شہروں میں گھوم پھر کر تو دیکھیں، آپ کو میری تحریر حقائق کی ترجمانی کرتی نظر آئے گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ خلوص دل، خلوص نیت، عوام کی خدمت کے جذبے کے ساتھ نکلیں، محض سرکاری منصب کی لاج رکھنے کی غرض سے باہر نہ نکلیں۔

یہ تو سب ہی کو پتہ چل جاتا ہے جب وزرا باہر آتے ہیں تو سڑکیں بند ہوجاتی ہیں، سیکیورٹی اسکواڈ کی گاڑیاں سیٹیاں بجاتی، زناٹے بھرتی ہوئی گزرتی نظر آتی ہیں لیکن کبھی یہ خبر نہیں آتی کہ وزیراعلیٰ محلوں محلوں ، شہروں شہروں گھوم کر عوام کی حالت کا جائزہ لے رہے ہوں، عوام سے ان کے مسائل، ان کی مشکلات وغیرہ معلوم کر رہے ہوں۔ لیکن کیا کریں، آج کل تو عوام تو کیا حکومتی شخصیات کی جان کو خطرات ہیں۔ ان کو تو سخت سے سخت سیکیورٹی درکار ہے۔ اختتامی کلمات میں یہی کہوں گا کہ ہماری حکومت صوبے (بالخصوص شہر کراچی) میں امن و امان بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے اور عوام کو بھی چین و سکون نصیب ہوجائے۔ (آمین)
Load Next Story