انسان اندھیرے کب بنتے ہیں
جب سماج زندگی عام لوگوں کے لیے مردہ ہوجائے تو پھر سماج کی ہر شے مردہ ہوجاتی ہے
کائنات کی سب سے مردہ چیز اندھیرا ہے، اندھیرے میں کوئی حرکت نہیں ، کوئی حیات نہیں ۔ پتھر حرکت کرتے ہیں، پہاڑ سرکتے ہیں لیکن اندھیرا بغیر حرکت کے ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے۔
آئیں! کچھ دیر کے لیے ہم اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے پوری دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کرلیتے ہیں اب ہم صرف اپنی زندگی کے متعلق سوچنا شروع کردیتے ہیں۔
ایک لمحے میں ہم اس حقیقت کو جان لیں گے کہ ہم اب صرف اندھیرے ہیں اور کچھ نہیں ، بے جان ، بے حس، مر دہ اندھیرے جو بغیر حرکت کیے ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں ، جن کے قریب سے زندگی کا کوئی گزر نہیں۔ ہمارے اردگرد کچھ بھی ہوجائے ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آسمان بھی آ گرے تو ہم بے حرکت ہی رہیں گے ۔ دنیا بھر میں تخت اور تاج اچھالے جارہے ہیں ، لیکن مجال ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی حرکت ہورہی ہو ۔ ظاہر ہے اندھیروں نے کیا نوٹس لینا ۔ سوچتے تو انسان ہیں اندھیرے نہیں ، کیونکہ سوچیں زندہ چیزیں ہوتی ہیں ۔
انسان سانس کے ذریعے نہیں بلکہ سوچوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں جب انسان سو چنا چھوڑ دیتے ہیں تو سوچیں مرنا شروع ہوجاتی ہیں اور جب سو چیں مر جاتی ہیں تو انسان مردہ ہوجاتے ہیں اندھیرے ہوجاتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہم نے سوچنا کیوں چھوڑ دیا ہے اور اندھیرے کیوں بن گئے ہیں اس کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا او ر سمجھنا ہوگا کہ ایک انسان ہوتا کیا ہے ؟ قدیم ایتھنز میں افلاطون کے پیرو کار ایک دن خود سے یہ سوال کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے کہ '' ایک انسان کیا ہوتا ہے؟'' ایک طویل سوچ بچار کے بعد وہ لوگ اس جواب تک پہنچے کہ '' ایک انسان ایک بے بال و پر د و پایہ ہوتا ہے '' ۔
ہر فرد انسان کی اس تعریف پہ مطمئن نظر آتا تھا یہاں تک کہ دیو جانس کلبی لیکچر ہال میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں پر نوچی ہوئی ایک مرغی تھی۔ اس نے با آواز بلند کہا '' ٹہرو'' میں تمہیں ایک انسان دکھا تا ہوں ہر طرف ایک کھلبلی مچ گئی ۔ جب یہ شور ختم ہوا تو فلسفیوں نے پھر سر جوڑا اور انسان کی اپنی تعریف میں اصلاح کی انھوں نے کہا '' ایک انسان ایسا بے بال و پر دو پایہ ہوتا ہے ، جس کے ناخن چپٹے ہوتے ہیں۔'' انسان کیا ہے اور اس کی تقدیر کیا ہے ان سوالوں کے جواب کی تلاش اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان خود ہے لیکن ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی شدید پیاس آپ کو جو سالرو، سارتر ، کامیو اور سین میں ملے گی ویسی کسی اور فلسفی یا ماہر عمرانیات میں نظر نہیں آئے گی۔
70سال پہلے انگلستان کے ادبی حلقوں میں اس پورے موضوع کا ایک تجزیہ بہت مقبول ہوا ، اس نظریے کے مطابق بیسویں صدی کے ناول نگار انسان کے تین تصورات پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (1) سیاسی انسان ، لارنس نے اس کا نام سماجی انسان رکھا ہے، اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی کہ خارجی زندگی اس کی شخصیت اور عمل کا دارومدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے اگر سماجی نظام بدل دیا جائے تو انسان کو اپنی مرضی کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔
یہ تصور ایچ ویلز اور گالذ وردی کے یہاں ملتا ہے اور ان کے بعد اشتراکی ادیبوں کے یہاں بھی (2) فطری انسان ، یہ ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر فطری جبلتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے ، اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمے داریوں سے آزاد ہوکر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ (3) نامکمل انسان، یہ وہ انسان ہوتا ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعے واقع ہوسکتی ہے یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طور پر نہیں ہوسکتا پورا سکون اور پوری خوشی کبھی کبھی حاصل نہیں کرسکتا ، جب کہ فرائڈ انسانی شخصیت کو تین حصوں کا مجموعہ قرار دیتا ہے جسے فرائڈ (۱)ID (۲) Ego(۳)Super Egoکہتا ہے اس کے نزدیک انسانی شخصیت کے توازن کے لیے ان تینوں اجزاء میں ایک مخصوص توازن ہونا لازمی ہے با صورت دیگر طبیعت و مزاج یا شخصیت نفسیاتی عارضوں میں پھنس جاتی ہے۔
(۱)ID کا تعلق لا شعورUnconscious Mind سے ہے ۔ یوں تو روز مرہ کے معاملات و تجربات و خیالات کا حصہ شعور Consious Mindسے تحت الشعور Sub-Conscious Mind یا لاشعورUnconsious Mind کے زندانوں میں چلا جاتا ہے جب کہ لاشعور کا ایک ایسا جبلی اور شرستی حصہ ہوتا ہے جسے فرائڈPrimary Unconsious Mindکہتا ہے جس کا اظہار کسی طور پر بھی شعور کی سرزمین پر نہیں ہوتا ہے اس کو وہ ID کا نام دیتا ہے۔ ID بنیادی طور پر لذت و انبساط ، خوشی و مسرت ، سکون و راحت کے حصول کے لیے انسان کو متحرک کرتی ہے۔
ID کی دنیا میں نہ تو کوئی اخلاقیات کی روک تھام کا گزر ہوتا ہے نہ کوئی منطق ، نہ کوئی اصول اس سر زمین پر قدم رکھنے کی جسارت کرسکتا ہے ID کے زیر تشکیل پانے والی شخصیات عموما غیر اخلاقی ، غیر سماجی اور عصمت گری کے واقعات میں پیش پیش ہوتی ہیں یہIDکی ہی سر کش قوتیں ہوتی ہیں جو انسانوں کو مجرموں کے روپ میں بدل دیتی ہیں۔ (۲)Ego ،حالات و واقعات ، علم و عرفان سے لیس قوت ہوتی ہے جو ہر چیز کا فیصلہ سو چ بچار اور تفکر سے کرتی ہے جب کہ ID کا کام صرف حصول مقصد ہے ۔
Ego ذہن انسانی میں ID کے تحت تشکیل پانے والی خواہشات کو تھامنے اور موخر کرنے کا کام کرتی ہے ۔ ذہن میں رہے IDانسان میں جنم سے لے کر موت تک غیر متبدل اور غیر متغیر رہتی ہے جب کہ Ego میں بتدریج ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ (۳)Super Ego، اصل میں وہ آواز اور قوت ہوتی ہے جسے ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے یہ قوت ہمیشہ ID کے متضاد سر گرم رہتی ہے اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگ و جدل کا ماحول رہتا ہے ۔
ہماری بدقسمتوں میں سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے ہی روز سے ملک کے وسائل، اختیار ، حقوق ، خوشحالی ، ترقی پرID کے زیر اثر و تشکیل شدہ گروہ قابض ہوگیا اور وہ گروہ اپنے گروہ کو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا اور پھر وہ گروہ اس قدر مضبوط ہوگیا کہ اس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا تب وہ اپنے علاوہ کسی اور کو خوشحالی، اختیار ، حقوق ، خوشیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہوا ، جس کے نتیجے میں لوگوں کی اکثریت بدحالی ، بربادی کی اس چکی میں پسنا شروع ہوگئی جو چکی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
بس دن رات لگا تار مسلسل اپنا کام کیے جارہی ہے نتیجے میں لوگوں کے ذہنوں پر جمود طاری ہونا شروع ہوگیا جو روز بروز گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا جو لوگوں کے ذہنی فالج اور تعطل کا سبب بنا انسانی ذہن براہ راست سماج سے متاثر ہوتا ہے انسانی ذہن کی ساخت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی ساری کارکردگی سماج سے وابستہ ہوتی ہے۔
جب سماج زندگی عام لوگوں کے لیے مردہ ہوجائے تو پھر سماج کی ہر شے مردہ ہوجاتی ہے یعنی آپ اگر لوگوں کے مسائل اس قدر بڑھادیں کہ لوگوں کے پاس ان کو حل کر نے کے لیے کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچے تو پھر لوگ مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت و افلاس ، جہالت کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور وہ بے بسی ان کو مختلف قسم کی نفسیاتی اور جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے اور یہ امراض ان کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔
پھر انسان سو چنا چھوڑ دیتے ہیں اور سوچیں مرنا شروع ہوجاتی ہیں اور انسان اندھیرے بن جاتے ہیں اور ان میں انسان ہونے کی تمام صلاحیت اور قابلیت مر جاتی ہیں۔ اس لیے آج ہمارے سماج میں صرف چند ہزار ہی انسان بستے ہیں اور باقی سب اندھیرے ۔ وہ اندھیرے جو کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے ، چیخ و پکار نہیں کرتے ۔ احتجاج نہیں کرتے ، انسان ہونے کا ثبوت نہیں دیتے بس ایک جگہ پڑے رہتے ہیں۔
آئیں! کچھ دیر کے لیے ہم اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے پوری دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کرلیتے ہیں اب ہم صرف اپنی زندگی کے متعلق سوچنا شروع کردیتے ہیں۔
ایک لمحے میں ہم اس حقیقت کو جان لیں گے کہ ہم اب صرف اندھیرے ہیں اور کچھ نہیں ، بے جان ، بے حس، مر دہ اندھیرے جو بغیر حرکت کیے ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں ، جن کے قریب سے زندگی کا کوئی گزر نہیں۔ ہمارے اردگرد کچھ بھی ہوجائے ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آسمان بھی آ گرے تو ہم بے حرکت ہی رہیں گے ۔ دنیا بھر میں تخت اور تاج اچھالے جارہے ہیں ، لیکن مجال ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی حرکت ہورہی ہو ۔ ظاہر ہے اندھیروں نے کیا نوٹس لینا ۔ سوچتے تو انسان ہیں اندھیرے نہیں ، کیونکہ سوچیں زندہ چیزیں ہوتی ہیں ۔
انسان سانس کے ذریعے نہیں بلکہ سوچوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں جب انسان سو چنا چھوڑ دیتے ہیں تو سوچیں مرنا شروع ہوجاتی ہیں اور جب سو چیں مر جاتی ہیں تو انسان مردہ ہوجاتے ہیں اندھیرے ہوجاتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہم نے سوچنا کیوں چھوڑ دیا ہے اور اندھیرے کیوں بن گئے ہیں اس کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا او ر سمجھنا ہوگا کہ ایک انسان ہوتا کیا ہے ؟ قدیم ایتھنز میں افلاطون کے پیرو کار ایک دن خود سے یہ سوال کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے کہ '' ایک انسان کیا ہوتا ہے؟'' ایک طویل سوچ بچار کے بعد وہ لوگ اس جواب تک پہنچے کہ '' ایک انسان ایک بے بال و پر د و پایہ ہوتا ہے '' ۔
ہر فرد انسان کی اس تعریف پہ مطمئن نظر آتا تھا یہاں تک کہ دیو جانس کلبی لیکچر ہال میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں پر نوچی ہوئی ایک مرغی تھی۔ اس نے با آواز بلند کہا '' ٹہرو'' میں تمہیں ایک انسان دکھا تا ہوں ہر طرف ایک کھلبلی مچ گئی ۔ جب یہ شور ختم ہوا تو فلسفیوں نے پھر سر جوڑا اور انسان کی اپنی تعریف میں اصلاح کی انھوں نے کہا '' ایک انسان ایسا بے بال و پر دو پایہ ہوتا ہے ، جس کے ناخن چپٹے ہوتے ہیں۔'' انسان کیا ہے اور اس کی تقدیر کیا ہے ان سوالوں کے جواب کی تلاش اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان خود ہے لیکن ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی شدید پیاس آپ کو جو سالرو، سارتر ، کامیو اور سین میں ملے گی ویسی کسی اور فلسفی یا ماہر عمرانیات میں نظر نہیں آئے گی۔
70سال پہلے انگلستان کے ادبی حلقوں میں اس پورے موضوع کا ایک تجزیہ بہت مقبول ہوا ، اس نظریے کے مطابق بیسویں صدی کے ناول نگار انسان کے تین تصورات پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (1) سیاسی انسان ، لارنس نے اس کا نام سماجی انسان رکھا ہے، اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی کہ خارجی زندگی اس کی شخصیت اور عمل کا دارومدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے اگر سماجی نظام بدل دیا جائے تو انسان کو اپنی مرضی کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔
یہ تصور ایچ ویلز اور گالذ وردی کے یہاں ملتا ہے اور ان کے بعد اشتراکی ادیبوں کے یہاں بھی (2) فطری انسان ، یہ ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر فطری جبلتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے ، اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمے داریوں سے آزاد ہوکر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ (3) نامکمل انسان، یہ وہ انسان ہوتا ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعے واقع ہوسکتی ہے یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طور پر نہیں ہوسکتا پورا سکون اور پوری خوشی کبھی کبھی حاصل نہیں کرسکتا ، جب کہ فرائڈ انسانی شخصیت کو تین حصوں کا مجموعہ قرار دیتا ہے جسے فرائڈ (۱)ID (۲) Ego(۳)Super Egoکہتا ہے اس کے نزدیک انسانی شخصیت کے توازن کے لیے ان تینوں اجزاء میں ایک مخصوص توازن ہونا لازمی ہے با صورت دیگر طبیعت و مزاج یا شخصیت نفسیاتی عارضوں میں پھنس جاتی ہے۔
(۱)ID کا تعلق لا شعورUnconscious Mind سے ہے ۔ یوں تو روز مرہ کے معاملات و تجربات و خیالات کا حصہ شعور Consious Mindسے تحت الشعور Sub-Conscious Mind یا لاشعورUnconsious Mind کے زندانوں میں چلا جاتا ہے جب کہ لاشعور کا ایک ایسا جبلی اور شرستی حصہ ہوتا ہے جسے فرائڈPrimary Unconsious Mindکہتا ہے جس کا اظہار کسی طور پر بھی شعور کی سرزمین پر نہیں ہوتا ہے اس کو وہ ID کا نام دیتا ہے۔ ID بنیادی طور پر لذت و انبساط ، خوشی و مسرت ، سکون و راحت کے حصول کے لیے انسان کو متحرک کرتی ہے۔
ID کی دنیا میں نہ تو کوئی اخلاقیات کی روک تھام کا گزر ہوتا ہے نہ کوئی منطق ، نہ کوئی اصول اس سر زمین پر قدم رکھنے کی جسارت کرسکتا ہے ID کے زیر تشکیل پانے والی شخصیات عموما غیر اخلاقی ، غیر سماجی اور عصمت گری کے واقعات میں پیش پیش ہوتی ہیں یہIDکی ہی سر کش قوتیں ہوتی ہیں جو انسانوں کو مجرموں کے روپ میں بدل دیتی ہیں۔ (۲)Ego ،حالات و واقعات ، علم و عرفان سے لیس قوت ہوتی ہے جو ہر چیز کا فیصلہ سو چ بچار اور تفکر سے کرتی ہے جب کہ ID کا کام صرف حصول مقصد ہے ۔
Ego ذہن انسانی میں ID کے تحت تشکیل پانے والی خواہشات کو تھامنے اور موخر کرنے کا کام کرتی ہے ۔ ذہن میں رہے IDانسان میں جنم سے لے کر موت تک غیر متبدل اور غیر متغیر رہتی ہے جب کہ Ego میں بتدریج ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ (۳)Super Ego، اصل میں وہ آواز اور قوت ہوتی ہے جسے ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے یہ قوت ہمیشہ ID کے متضاد سر گرم رہتی ہے اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگ و جدل کا ماحول رہتا ہے ۔
ہماری بدقسمتوں میں سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے ہی روز سے ملک کے وسائل، اختیار ، حقوق ، خوشحالی ، ترقی پرID کے زیر اثر و تشکیل شدہ گروہ قابض ہوگیا اور وہ گروہ اپنے گروہ کو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا اور پھر وہ گروہ اس قدر مضبوط ہوگیا کہ اس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا تب وہ اپنے علاوہ کسی اور کو خوشحالی، اختیار ، حقوق ، خوشیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہوا ، جس کے نتیجے میں لوگوں کی اکثریت بدحالی ، بربادی کی اس چکی میں پسنا شروع ہوگئی جو چکی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
بس دن رات لگا تار مسلسل اپنا کام کیے جارہی ہے نتیجے میں لوگوں کے ذہنوں پر جمود طاری ہونا شروع ہوگیا جو روز بروز گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا جو لوگوں کے ذہنی فالج اور تعطل کا سبب بنا انسانی ذہن براہ راست سماج سے متاثر ہوتا ہے انسانی ذہن کی ساخت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی ساری کارکردگی سماج سے وابستہ ہوتی ہے۔
جب سماج زندگی عام لوگوں کے لیے مردہ ہوجائے تو پھر سماج کی ہر شے مردہ ہوجاتی ہے یعنی آپ اگر لوگوں کے مسائل اس قدر بڑھادیں کہ لوگوں کے پاس ان کو حل کر نے کے لیے کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچے تو پھر لوگ مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت و افلاس ، جہالت کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور وہ بے بسی ان کو مختلف قسم کی نفسیاتی اور جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے اور یہ امراض ان کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔
پھر انسان سو چنا چھوڑ دیتے ہیں اور سوچیں مرنا شروع ہوجاتی ہیں اور انسان اندھیرے بن جاتے ہیں اور ان میں انسان ہونے کی تمام صلاحیت اور قابلیت مر جاتی ہیں۔ اس لیے آج ہمارے سماج میں صرف چند ہزار ہی انسان بستے ہیں اور باقی سب اندھیرے ۔ وہ اندھیرے جو کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے ، چیخ و پکار نہیں کرتے ۔ احتجاج نہیں کرتے ، انسان ہونے کا ثبوت نہیں دیتے بس ایک جگہ پڑے رہتے ہیں۔