عقیدت میں پھنسی ریاست…
یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک غریب بے شعور رہے گا
ہمارے ملک کی تاریخ عقیدت اور حقیقت پسندوں کی فکری آہ و بکا سے بھری پڑی ہے۔ روز اول سے ملک کے طول عرض میں پھیلے ہر قد اور طرز کے عقیدت پسند اپنی عقیدت کے چشمے کی بصارت سے ہر حقیقی چیز کو عقیدتی معنی دینے میں مصروف رہے ہیں۔
اس اندھی تقلید نے جہاں سماجی طور پر عقیدت پسندوں کو وابستگی اور واہمے کا احساس دیا وہاں جدید دنیا کے معلوماتی سیلاب میں یکسر اجنبیت میں بھی دھکیل دیا۔ دوسری طرف حقیقت پسند بھی اپنی اخلاقی رجعت پسندی میں کسی سے پیچھے نہ رہے اور بنیادی انسانی ضرورت کے احساسات جو کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کے زمینی حقائق قدیم دنیا سے زیادہ مماثلت رکھتے ہوں اور جہاں کی زندگی کی کل حقیقت بھوک و پیاس پر ہی ختم ہوجاتی ہو۔
ایسے سماج میں شعور کی بیداری ہر حقیت پسند پر فرض تھی، لیکن کٹر حقیت پسند بھی 90 کی دہائی سے شروع ہوئے معلوماتی سیلاب اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے مجازی سماجی انقلاب (virtual social revolution) میں ڈوب گئے۔جہاں دنیا میں شعور کی بیداری کے لیے (Decentralization) یا مرکزیت کے خاتمے کی آوازیں بلند تھیں اور سماج اب ایک محلے، علاقے، صوبے اور ملک کا نام نہیں رہا تھا وہاں اس ملک کے حقیقت اور عقیدت پسند اور دونوں ''نیم حکیم وبال جان بنے'' اس علمی انقلاب کو بھی اپنے روایت کی رلی میں لپیٹتے رہے۔
ان سب کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ پہچان کی تلاش جو70سال پہلے تھی وہ آج بھی ویسے ہی رہی اور اس (Identity Crisis) یا شخصیت کا بحران مزید گہرا ہوگیا۔ معلومات اور شعور کی اس کشمکش میں عقیدت کی حقیقت اور حقیقت سے عقیدت کی سب لکیریں دھندلا سی گئی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ عقیدت کے نام پر عقائد سے لے کر سیاسی قید تک سب خوشی خوشی خرید لیتے ہیں وہاں معلومات کا دروازہ روکنے کے بجائے اْس سے پہلے تربیت کا ایک (filter) لگانے کی ضرورت تھی، لیکن یہ کون سوچے گا، ہمارے ہاں تربیت کرنیوالوں کی تربیت خود نہیں ہوئی۔
ہمارے تربیت کار صرف اس جستجو میں رہے کہ ہمیں کیا سوچنا ہے؟ کیسے سوچنا ہے؟ یہ ان کا مسئلہ کبھی غور فکر نہیں رہا کیونکہ سوچ ہوگی تو معلومات کا تبادلہ ہوگا، یہ تبادلہ سوالات کو جنم دے گا اور سوال کی پیاس جواب سے ہی بجھے گی اور یہ سچا جواب تربیت کاروں کی دکان پر بجلی بن کر گرے گا۔
اس لیے ہم نا تو مکمل عقیدت پسند بن سکے اور نا حقیت پسند اور اس صورت حال نے ہمیں شخصیت پرستی کی طرف دھکیل دیا۔ اب نہ ہمیں عقیدت ہے اور نہ ہم حقیت جاننا چاہتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا یہ معلوماتی انقلاب بھی ہمارے گلے کا طوق بن گیا ہے جہاں دنیا کے حقیقت اور عقیدت پسند اپنی سوچوں میں (Pararral Draw) کرنے یا متوازی حقیقتوں میں ہم آہنگی ڈھوندنے میں مصروف ہیں ،وہاں ہم اس معلوماتی انقلاب کو اپنی شعوری صلاحیت بڑھانے کے بجائے اس (Tool) کو اپنی بدگمانی کا گھوڑا سمجھ کر اس پر سوار ہیں اور نفرت کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی لاش سے اٹھتے ہوئے تعفن کی بو میں اگر کوئی حقیقت پسند یا عقیدت پسند کسی بھی نوعیت کے اشرافیت کا علم نکالنے کی ہمت بھی کرتا ہے تو عالم حیوان کو ہم پر (Identity Theft)کا کلیم ڈال دینا چاہیے۔
غوروفکر کی ایک واجبی سی نگاہ اگر ہم کائنات پر ڈالیں تو ہمیں ہر چیز ایک دائرے میں نظر آتی ہے ہماری زندگی بھی چند دائروں میں معلق ہے۔ معاشی دائرہ، سماجی دائرہ، اخلاقی دائرہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں جانے کا راستہ شعور سے ہوتا ہوا جاتا ہے شعور کا حصول معلومات کی اس بارش میں حقیقت کی چھتری اور عقیدت کی چھڑی رکھنے کا نام ہے بس بحیثیت معاشرہ ہم ابھی دائرہ حیوانی میں زندہ ہیں، دائرہ انسانی میں جانے کے لیے اس صدی کی شعوری حقیقت کو گلے لگانا ہوگا۔فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور ہمارے جیسے ناخواندہ سماج میں کایاں پلٹ حقیقی تبدیلی کا عمل کسی لیڈر سے نہیں فرد سے شروع ہوتا ہے۔ حقیقت پر مبنی تبدیلی پر ایک طریقے کارواضح ہے جو کہ آپ کو (Norm) معمول کو بدلنے سے ہوگا۔
اس سے نظام قدر(Value System) بدلے گا جو یقین (Believe) پر اثر انداز ہوگا اور حقیقی معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی۔ یہ تبدیلی نہ تو سماجی اسٹیج پرنظر آنے والے اداکاروں کی تبدیلی ہوگی اور نہ ہی نئے اداکاروں سے پرانی اداکاری والی تبدیلی ہوگی۔ دنیا میں دوہی قسم کے لوگ ہیں، دو ہی قسم کے لوگ ہی آباد ہیں دو ہی قسم کی لسانی اکایاں ہیں، دو ہی فرقے اورمسلک ہے اور دوہی قسم کی زبانیں بولنے والے ہیں۔ ایک امیر اورایک غریب، امیر کو نہ غریب کے مسئلوں کا پتہ ہے اور نہ وہ جاننا چاہتا ہے، مضحکہ خیزی کی حد تک غریب کو امیر کے سارے مسائل پتہ ہے مگر وہ ان مسائل کی مادیت میں کھوکر وہ اپنے مسئلے بھول جاتا ہے۔ امیر لیڈر ہے غریب اس کا ورکر ہے۔
امیر غریب کو دوسرے غریب کے خلاف اپنی طاقت کے حصول کے لیے اکساتا ہے۔غریب اپنی حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی آنکھوں پراپنے امیرلیڈر کی عقیدت کا چشمہ لگا کر دوسرے غریب سے لڑجاتا ہے جب کہ دوسرے غریب کے ساتھ بھی اس کے لیڈر نے یہی کھیل کھیلا ہوتا ہے۔ اس طرح تمام لیڈرساتھ بیٹھ کر غریب کا بندر تماشہ دیکھتے ہیں اور اگلے تماشے کے لیے اپنا راستہ ہموارکرتے ہیں۔
یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک غریب بے شعور رہے گا،اگر آپ کے امیر لیڈر کے پاس آپ کے غریب مسائل کے حل کے بدلے میں دینے کے لیے صرف حوالے، ماضی کے جھوٹے وفرضی قصے، کہانیاں، مخالفین کے لیے گالیاں، معاشرے کے لیے صرف نفرت اور تقسیم ہے، تو آپ کو اپنے حق کے لیے ایک ہوجانا چاہیے کیونکہ آپ کا مسئلہ آپ کا سیاسی مخالف نہیں آپ کا اپنا لیڈر ہے۔
اس اندھی تقلید نے جہاں سماجی طور پر عقیدت پسندوں کو وابستگی اور واہمے کا احساس دیا وہاں جدید دنیا کے معلوماتی سیلاب میں یکسر اجنبیت میں بھی دھکیل دیا۔ دوسری طرف حقیقت پسند بھی اپنی اخلاقی رجعت پسندی میں کسی سے پیچھے نہ رہے اور بنیادی انسانی ضرورت کے احساسات جو کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کے زمینی حقائق قدیم دنیا سے زیادہ مماثلت رکھتے ہوں اور جہاں کی زندگی کی کل حقیقت بھوک و پیاس پر ہی ختم ہوجاتی ہو۔
ایسے سماج میں شعور کی بیداری ہر حقیت پسند پر فرض تھی، لیکن کٹر حقیت پسند بھی 90 کی دہائی سے شروع ہوئے معلوماتی سیلاب اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے مجازی سماجی انقلاب (virtual social revolution) میں ڈوب گئے۔جہاں دنیا میں شعور کی بیداری کے لیے (Decentralization) یا مرکزیت کے خاتمے کی آوازیں بلند تھیں اور سماج اب ایک محلے، علاقے، صوبے اور ملک کا نام نہیں رہا تھا وہاں اس ملک کے حقیقت اور عقیدت پسند اور دونوں ''نیم حکیم وبال جان بنے'' اس علمی انقلاب کو بھی اپنے روایت کی رلی میں لپیٹتے رہے۔
ان سب کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ پہچان کی تلاش جو70سال پہلے تھی وہ آج بھی ویسے ہی رہی اور اس (Identity Crisis) یا شخصیت کا بحران مزید گہرا ہوگیا۔ معلومات اور شعور کی اس کشمکش میں عقیدت کی حقیقت اور حقیقت سے عقیدت کی سب لکیریں دھندلا سی گئی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ عقیدت کے نام پر عقائد سے لے کر سیاسی قید تک سب خوشی خوشی خرید لیتے ہیں وہاں معلومات کا دروازہ روکنے کے بجائے اْس سے پہلے تربیت کا ایک (filter) لگانے کی ضرورت تھی، لیکن یہ کون سوچے گا، ہمارے ہاں تربیت کرنیوالوں کی تربیت خود نہیں ہوئی۔
ہمارے تربیت کار صرف اس جستجو میں رہے کہ ہمیں کیا سوچنا ہے؟ کیسے سوچنا ہے؟ یہ ان کا مسئلہ کبھی غور فکر نہیں رہا کیونکہ سوچ ہوگی تو معلومات کا تبادلہ ہوگا، یہ تبادلہ سوالات کو جنم دے گا اور سوال کی پیاس جواب سے ہی بجھے گی اور یہ سچا جواب تربیت کاروں کی دکان پر بجلی بن کر گرے گا۔
اس لیے ہم نا تو مکمل عقیدت پسند بن سکے اور نا حقیت پسند اور اس صورت حال نے ہمیں شخصیت پرستی کی طرف دھکیل دیا۔ اب نہ ہمیں عقیدت ہے اور نہ ہم حقیت جاننا چاہتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا یہ معلوماتی انقلاب بھی ہمارے گلے کا طوق بن گیا ہے جہاں دنیا کے حقیقت اور عقیدت پسند اپنی سوچوں میں (Pararral Draw) کرنے یا متوازی حقیقتوں میں ہم آہنگی ڈھوندنے میں مصروف ہیں ،وہاں ہم اس معلوماتی انقلاب کو اپنی شعوری صلاحیت بڑھانے کے بجائے اس (Tool) کو اپنی بدگمانی کا گھوڑا سمجھ کر اس پر سوار ہیں اور نفرت کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی لاش سے اٹھتے ہوئے تعفن کی بو میں اگر کوئی حقیقت پسند یا عقیدت پسند کسی بھی نوعیت کے اشرافیت کا علم نکالنے کی ہمت بھی کرتا ہے تو عالم حیوان کو ہم پر (Identity Theft)کا کلیم ڈال دینا چاہیے۔
غوروفکر کی ایک واجبی سی نگاہ اگر ہم کائنات پر ڈالیں تو ہمیں ہر چیز ایک دائرے میں نظر آتی ہے ہماری زندگی بھی چند دائروں میں معلق ہے۔ معاشی دائرہ، سماجی دائرہ، اخلاقی دائرہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں جانے کا راستہ شعور سے ہوتا ہوا جاتا ہے شعور کا حصول معلومات کی اس بارش میں حقیقت کی چھتری اور عقیدت کی چھڑی رکھنے کا نام ہے بس بحیثیت معاشرہ ہم ابھی دائرہ حیوانی میں زندہ ہیں، دائرہ انسانی میں جانے کے لیے اس صدی کی شعوری حقیقت کو گلے لگانا ہوگا۔فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور ہمارے جیسے ناخواندہ سماج میں کایاں پلٹ حقیقی تبدیلی کا عمل کسی لیڈر سے نہیں فرد سے شروع ہوتا ہے۔ حقیقت پر مبنی تبدیلی پر ایک طریقے کارواضح ہے جو کہ آپ کو (Norm) معمول کو بدلنے سے ہوگا۔
اس سے نظام قدر(Value System) بدلے گا جو یقین (Believe) پر اثر انداز ہوگا اور حقیقی معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی۔ یہ تبدیلی نہ تو سماجی اسٹیج پرنظر آنے والے اداکاروں کی تبدیلی ہوگی اور نہ ہی نئے اداکاروں سے پرانی اداکاری والی تبدیلی ہوگی۔ دنیا میں دوہی قسم کے لوگ ہیں، دو ہی قسم کے لوگ ہی آباد ہیں دو ہی قسم کی لسانی اکایاں ہیں، دو ہی فرقے اورمسلک ہے اور دوہی قسم کی زبانیں بولنے والے ہیں۔ ایک امیر اورایک غریب، امیر کو نہ غریب کے مسئلوں کا پتہ ہے اور نہ وہ جاننا چاہتا ہے، مضحکہ خیزی کی حد تک غریب کو امیر کے سارے مسائل پتہ ہے مگر وہ ان مسائل کی مادیت میں کھوکر وہ اپنے مسئلے بھول جاتا ہے۔ امیر لیڈر ہے غریب اس کا ورکر ہے۔
امیر غریب کو دوسرے غریب کے خلاف اپنی طاقت کے حصول کے لیے اکساتا ہے۔غریب اپنی حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی آنکھوں پراپنے امیرلیڈر کی عقیدت کا چشمہ لگا کر دوسرے غریب سے لڑجاتا ہے جب کہ دوسرے غریب کے ساتھ بھی اس کے لیڈر نے یہی کھیل کھیلا ہوتا ہے۔ اس طرح تمام لیڈرساتھ بیٹھ کر غریب کا بندر تماشہ دیکھتے ہیں اور اگلے تماشے کے لیے اپنا راستہ ہموارکرتے ہیں۔
یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک غریب بے شعور رہے گا،اگر آپ کے امیر لیڈر کے پاس آپ کے غریب مسائل کے حل کے بدلے میں دینے کے لیے صرف حوالے، ماضی کے جھوٹے وفرضی قصے، کہانیاں، مخالفین کے لیے گالیاں، معاشرے کے لیے صرف نفرت اور تقسیم ہے، تو آپ کو اپنے حق کے لیے ایک ہوجانا چاہیے کیونکہ آپ کا مسئلہ آپ کا سیاسی مخالف نہیں آپ کا اپنا لیڈر ہے۔