انسانی رنگ اور زبان میں فرق جینیاتی ٹائم مشین پہلا حصہ

جینیاتی ٹائم مشین کے ذریعے بخوبی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی انسان کی رنگت کیا تھی

دنیا کے ہر خطے میں انسانی جلد کی رنگت مختلف نظر آئے گی۔ (فوٹو: فائل)

صرف ہمارے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ارتقاء کے حوالے سے بحث ایمان اور الحاد کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ مغرب میں اہل مذہب ڈارون کے اس نظریہ کو لادینیت اور خدا بیزاری کی بنیاد سمجھ کر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہیں، تو ہمارے ہاں بھی اہلِ کلیسا کے یہی دلائل من و عن تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اسی ماحول میں بحیثیت ایک روایتی مسلمان میرا ارتقاء سے ابتدائی تعارف ''انسان بندر سے بنا ہے'' کے حوالے سے ہوا۔

کافی عرصے تک میں اس مخمصے کا شکار رہا کہ آیا ارتقاء ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اس مخمصے کی بنیادی وجہ عمومی مشاہدات ہیں، جو کہ کوئی خفیہ یا ڈھکے چھپے نہیں۔ مثلاً ہم سب ڈائنوسارز کے بارے میں جانتے ہیں، طرح طرح کے نباتات و حیوانات موجود ہیں، کچھ ایک دوسرے سے بہت مماثل ہیں تو کچھ بالکل ہی مختلف۔ پھرحضرتِ انسان کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی نسلیں ان کے خدوخال میں جتنا تنوع ہے اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابر تخلیق کیا تو یہ اختلاف کیوں؟

اگر صرف انسانی جلد کی رنگت کی ہی بات کرلیں تو آپ کو ہر خطے میں مختلف رنگت نظر آئے گی۔ یورپ اور امریکا کے سفید فام الگ ہیں۔ افریقی سیاہ فام، ایشیا کی گندمی رنگت اور چین و جاپان وغیرہ میں بسنے والی زرد اقوام۔ ایک معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس چیز کو محسوس کیے بغیر رہ نہیں سکتا کہ اگر کوئی تبدیلی نہیں ہورہی ہے تو پھر ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والی اولاد میں اتنا فرق کیسے ہوسکتا ہے؟

اسلام، عیسائیت اور یہودیت، تینوں ابراہیمی مذاہب میں حضرت آدمؑ کو بطور اولین بشر ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام میں تو انسانوں کی تصویر کشی اور وہ بھی محترم مذہبی شخصیات کی سخت منع ہے لیکن عیسائیت میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ وہاں حضرت عیسیٰؑ سے لے کر حضرت آدمؑ تک، سب کو کاکیشیائی اور سفید رنگت والا دکھایا جاتا ہے۔ تو کیا یہ سب حقیقت میں بھی گوری رنگت والے تھے؟

اسرائیلیات (ایسے قصے جو اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے لیے گئے ہیں، جن کا براہِ راست اسلامی عقائد سے کوئی ٹکراؤ نہیں) اور دیگر روایات میں آتا ہے کہ حضرت آدمؑ افریقہ سے نکلے اور اماں حوا کے ساتھ ان کی ملاقات جزیرہ نما عرب میں ہوئی۔ لیکن نہ تو افریقہ اور نہ ہی جزیرہ نما عرب میں مقیم وہاں کے آبائی رہائشی کاکیشیائی ہیں اور نہ ہی سفید رنگت کے حامل۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی رنگت اور خدوخال کیا تھے؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب تو ٹائم مشین ہی ہے کہ ہم ماضی میں جاکر دیکھ سکتے کہ ان کی شکل و صورت اور رنگت کیسی تھی۔ مگر افسوس کہ یہ نکمے سائنس دان آج تک ٹائم مشین بھی نہیں ایجاد کرپائے۔

اس سوال کو تھوڑی دیر کےلیے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر بسنے والے تمام جانداروں کا جینیاتی مادہ یعنی ڈی این اے کروموسومز کی شکل میں ہوتا ہے اور انسانوں میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ بہت ساری بیماریاں انہی کروموسوم کی تعداد میں گڑبڑ کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ان کی تشخیص مریض کے کروموسومز کی تعداد گن کر کی جاتی ہے۔ یہ 46 کروموسومز جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں، یعنی اصل میں 23 کروموسومز ہیں جن کی ایک کاپی ہمیں اپنے والد سے ملتی ہے اور دوسری والدہ سے، یوں 23 جوڑے بنے۔ ان 23 جوڑوں میں ایک جوڑا ایسے کروموسومز کا ہے جو کہ ہماری جنس کا تعین کرتا ہے۔ اس جوڑے میں ایکس (X) اور وائے (Y) کروموسوم ہوتے ہیں۔ خواتین میں دو عدد ایکس (XX) کروموسوم ہوتے ہیں اور مردوں میں ایک ایکس اور ایک وائے (XY)۔ وائے کروموسوم کا بنیادی کام جنس کا تعین ہوتا ہے، اس لیے اس پر بہت تھوڑی تعداد میں جینز پائی جاتی ہیں اور اس کا سائز بھی ایکس کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہوتا ہے، اور مردوں میں زیادہ تر جینز ایکس کروموسوم والی ہی استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ انسانوں میں اولاد کی جنس کا تعین باپ کی طرف سے ہوتا ہے کہ اگر باپ کی جانب سے وائے کروموسوم آیا تو بیٹا ہوگا اور اگر ایکس آیا تو بیٹی۔ ماں بیچاری تو صرف ایکس کروموسوم ہی دے گی اپنی اولاد کو۔

اتنی بات تو واضح ہوگئی کہ وائے کروموسوم صرف مردوں میں پایا جاتا ہے اور اس کروموسوم میں ہمارا ڈی این اے ہوتا ہے۔ ہماری بہت سی بیماریاں جو عام طور پر مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں ان کی اکثریت کا تعلق بھی انہی ایکس اور وائے کروموسومز کے ساتھ ہے۔ مثلاً ہیموفیلیا وہ بیماری ہے جس میں مریض کا خون جمتا نہیں اور کسی معمولی سی چوٹ یا زخم کی صورت میں اس کے جسم کا سارا خون بہہ سکتا ہے۔ اس بیماری کو یورپ میں شاہی بیماری بھی کہا جاتا تھا کیونکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں برطانیہ، جرمنی، روس، اور اسپین کے شاہی خاندانوں میں یہ بیماری عام تھی۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اس بیماری کی کیریئر تھی (کیریئر اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کو بذاتِ خود تو ظاہری طور پر بیماری نہیں ہوتی لیکن اس شخص سے دوسروں کو بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔ اگر بیماری موروثی ہو تو اولاد کو منتقل ہوگی اور اگر متعدی ہو تو اس کے اردگرد رہنے والے افراد کو۔ ملکہ وکٹوریہ کے نو میں سے تین بچوں میں یہ بیماری آئی اور ایک بیٹے کی موت بھی اسی کی وجہ سے ہوئی۔ ہیموفیلیا روسی شاہی خاندان میں اس وقت داخل ہوئی جب ملکہ وکٹوریہ کی نواسی کی شادی روسی زار نکولس سے ہوئی اور نتیجتاً ان کے بیٹے الیکسی کی موت بھی ہیموفیلیا کے باعث ہوئی اور اس کے بعد ہی روس میں سوویت انقلاب آیا۔ خیر اس بیماری کی وجہ ہمارے ڈی این اے میں موجود خون جمانے والی جینز میں میوٹیشن ہے۔


آپ نے اوپر پڑھا کہ وکٹوریہ کا بیٹا اس بیماری سے مرا تو دوسری طرف روسی زار خاندان کے جانشین اور ولی عہد کی موت بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہوئی لیکن کوئی لڑکی یا بیٹی نہیں مری۔ اس کی وجہ یہی ایکس اور وائے کروموسومز ہیں۔ جتنی بھی جینیاتی یا موروثی بیماریاں ہیں وہ ہمارے کروموسومز میں موجود جینز کی میوٹیشنز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اگر والدین میں سے کسی ایک سے بچے کو کوئی بیماری والی جین ملتی ہے تو اس کے توڑ کےلیے صحت مند جین والدین میں سے دوسرے سے آجاتی ہے اور یوں اس بچے یا بچی کو وہ بیماری نہیں ہوتی۔ ہیموفیلیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہماری خون کو جمانے والی جینز ایکس کروموسوم پر واقع ہوتی ہیں، اب چونکہ مردوں میں ایک ہی ایکس کروموسوم ہوتا ہے تو ان جینز کی ایک ہی کاپی دستیاب ہوتی ہے کیونکہ وائے پر یہ جینز موجود نہیں، اور اس کے مقابلے میں خواتین میں دو ایکس ہوتے ہیں تو ان میں ہیموفیلیا کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن اگر یہ بیماری والا ایکس کروموسوم اپنے بیٹے کو دیں تو بیٹے کو لازمی یہ بیماری ہوگی۔

خیر بات کافی دور نکل گئی، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وائے کروموسوم صرف مردوں میں ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اولین وائے کروموسوم حضرت آدمؑ کا ہی ہونا چاہیے۔ تو اگر ہم کسی طرح ٹائم مشین کے بغیر ہی ماضی میں جاکر دیکھ سکیں تو کیا ہی کمال کی بات ہوگی، ہیں ناں؟ اگرچہ ہمارے پاس ٹائم مشین تو نہیں ہے لیکن اس مسئلے کا ایک اور حل موجود ہے اور وہ ہے ڈی این اے سیکوئنسنگ۔ جی ہاں جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ کروموسوم میں ڈی این اے ہوتا ہے، تو اگر ہم اس ڈی این اے کی تحریر کو پڑھ لیں تو ہم بہت کچھ جان سکیں گے۔

ایک ایسا ہی تجربہ کیا گیا جس میں دنیا بھر میں آباد انسانی نسلوں کے مردوں کے جتنا ممکن ہوسکا ڈی این اے کے نمونے لیے گئے اور ان کے وائے کروموسومز میں موجود ڈی این اے کو پڑھا گیا۔ سمجھ لیجئے کہ وائے کروموسومز کی ایک عدد لائبریری بنائی گئی۔ یہاں تک تو بات آسان ہے لیکن اصل سوال تو پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام وائے کروموسومز میں ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا پہلے والا ہے اور کون سا بعد کا، کیونکہ یہ تجربہ تو ابھی کیا جارہا ہے۔ اس وقت جتنے بھی انسان زندہ ہیں ان میں سے ایک کی بھی عمر پانچ دس ہزار سال تو بڑی بات ہے ڈیڑھ دو سو سال بھی نہیں ہوگی۔ اب یہ خاصا اہم اور وزنی سوال ہے لیکن ماہرینِ جینیات نے اس کا ذہانت بھرا جواب ڈھونڈا۔ بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے جس میں کوئی بات اپنے کسی دوست کے کان میں کہہ دیتے، وہ آگے کہہ دیتا اور یوں جب یہ بات آخری بندے کے کان تک پہنچتی تو کیا سے کیا ہوجایا کرتی تھی اور ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ جس طرح اس کھیل میں بات بگڑتی چلی جاتی ہے ویسے ہی قدرتی طور پر ڈی این اے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میوٹیشن کی وجہ سے تبدیلیاں آتی جاتی ہیں۔ اب جس انسانی نسل کے وائے کروموسوم میں سب سے کم تبدیلی ہوگی وہ اتنی ہی حضرت آدمؑ کے قریب ہوگی، زمانے کے حساب سے نہیں بلکہ جینیاتی مماثلت کے اعتبار سے۔ اب یہاں پر ایک اور سوال آپ کے ذہن میں لازماً اٹھنا چاہیے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی تبدیلی یا میوٹیشن قدیم ہے اور کون سی حال ہی میں پیدا ہوئی ہے؟

اس تجربے میں شریک سائنس دان تھے بڑے چالاک۔ انھوں نے اس کا بھی جواب ڈھونڈ کر رکھا ہوا تھا۔ جو میوٹیشن جتنی پرانی ہوگی وہ اتنی زیادہ نسلوں میں ہمیں ملے گی اور جو جتنی نئی ہوگی وہ اسی حساب سے کم ملے گی۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے ایک مثال لیتے ہیں۔ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے، حام، سام اور یافث۔ اگر سام کے وائے کروموسوم میں کوئی میوٹیشن ہوگی تو وہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں آباد نسلوں میں بہت زیادہ ملے گی، ان میں یہودی، عرب اور دیگر تمام سامی نسلیں آجاتی ہیں جبکہ اگر مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے وائے کروموسوم میں کوئی میوٹیشن ہوگی تو وہ صرف مغلیہ خاندان کے افراد میں ہی ملے گی (اگرچہ اس وقت مغل خاندان کے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد پاکستان اور بھارت میں آباد ملیں گے)، کیونکہ ان دونوں اشخاص میں ہزاروں سال کا فاصلہ ہے۔ یعنی ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سی انسانی نسل ہے جس کے وائے کروموسوم میں کم سے کم تبدیلی اور میوٹیشنز ہوں، اور جس نسل میں کم ترین تبدیلی ملے گی وہ حضرت آدمؑ کے قریب ترین ہوگی۔

جب سائنس دانوں نے ان تمام وائے کروموسومز اور ان کی میوٹیشنز کا مطالعہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ براعظم افریقہ کے ملک تنزانیہ میں آباد ایک ہدزابی (Hadzabe) قبیلے کے مردوں کا وائے کروموسوم باقی تمام دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ قدیم ہے، یعنی موجودہ زمانے میں ہدزابی قبیلہ جینیاتی طور پر حضرت آدمؑ کے سب سے قریب اور مماثل ہے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قبیلہ ہزاروں برس سے تنزانیہ میں ہی آباد ہے اور آج بھی ان کا طرزِ زندگی زمانہ قدیم کے انسانوں جیسا ہی ہے۔ تو جیسا کہ روایات کے حوالے سے اوپر بات ہوئی تھی کہ حضرت آدمؑ افریقہ سے نکل کر جزیرہ نما عرب آئے تھے تو اس تجربے کے نتائج سے اس بات کی ممکنہ طور پر تصدیق بھی ہوتی ہے اور ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر حضرت آدمؑ کے خدوخال ہدزابی قبیلے سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔

اس تجربے پر نیشنل جیوگرافک چینل کی تیار کردہ ڈاکومنٹری (DNA Mysteries: The Search for Adam) کے نام سے یوٹیوب پر موجود ہے، جسے آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ اس ڈاکومنٹری میں جس انسان کو آدم کہا جارہا ہے اس سے مراد ہرگز وہ بائبل یا قرآن والے حضرت آدمؑ نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی بات کی جارہی ہے جس کا وائے کروموسوم دنیا کے تمام مردوں میں پایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ سائنس وائے کروموسوم کی مدد سے جس شخص تک پہنچی ہو اس میں اور حضرت آدم کے درمیان فاصلہ تو ہو لیکن کوئی میوٹیشن یا تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ لہٰذا نہ تو اس ڈاکومنٹری میں ایسی قطعیت کے ساتھ یہ بات کی گئی ہے اور نہ ہی میں یہ بات کررہا ہوں۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story