احرار الہند کیخلاف کارروائی پر طالبان کو اعتراض نہیں طالبان مذاکراتی کمیٹی

مذاکرات محسود قبائل کے علاقے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جسے فوج سے خالی کرانیکی تجویزدی ہے، پروفیسر ابراہیم

امریکا، بھارت مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں،دہشت گرد قوتوں کو بے نقاب کیاجائے،جنگ بندی میں توسیع ہو سکتی ہے،سمیع الحق، بچوں اور خواتین قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ۔ فوٹو: فائل

طالبان مذاکراتی کمیٹی نے کہاہے کہ حکومت اگر احرارالہندنامی تنظیم کے مرکز کونشانہ بنائے تو طالبان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ طالبان،احرارالہند کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق کس جگہ سے ہے، طالبان کو پشاور،کوئٹہ واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی پر اعتراض نہیں،طالبان نے جنگ بندی پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے،مذاکرات محسود قبائل کے علاقے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تاہم 3مقامات زیر غور ہیں، طالبان کی حکومت کودی گئی تجاویزمیں غیر عسکری افراد، خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے،طالبان نے اس حوالے سے کچھ فہرستیں بھی دی ہیں،مذاکرات کو ناکام بنانے میں خفیہ ہاتھ سرگرم اور ملوث ہیں،طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تک جگہ کا تعین نہیں ہوا، اس کے لیے میرانشاہ، بنوں ایئرپورٹ اور ایف آر بنوں کے مقامات زیر غورہیں،جگہ کے تعین کے بعدحکومتی کمیٹی کو وزیرستان لے جائیں گے لیکن طالبان نے محسود علاقے کے بارے میں کہا ہے کہ وہاں کامیاب مذاکرات ہوسکتے ہیں اور اسے فوج سے خالی کرانے کی تجویز دی ہے کیونکہ محسودکے علاقے میں طالبان کو آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،اس حوالے سے حکومتی کمیٹی کے سربراہ حبیب اللہ سے رابطہ ہواہے ان کی جانب سے تجاویز کا انتظارہے۔


انھوں نے کہاکہ طالبان سے میراکوئی تنظیمی تعلق نہیں،طالبان شوریٰ نے بتایا کہ فضائی حملوں میں معصوم لوگوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کو اجمل خان کی رہائی کا کہاہے جس پرانھوں نے بتایا ہے کہ میرانشاہ میں حافظ گل بہادر کامعاہدہ ہے، ہم اس کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ فریقین میں اعتمادکا فقدان ہے جسے ختم کیاجارہا ہے، حکومت نے طالبان کے سویلین قیدیوں کی رہائی اورمحسود علاقے سے فوج نکالنے کے مطالبے کاجواب نہیں دیا،اعتماد کی بحالی کیلیے فوری اقدامات ناگزیرہیں، حکومت اور طالبان کے درمیان جگہ کاتعین ہونے کے بعدبراہ راست مذاکرات ہوں گے لیکن طالبان قبائلی علاقے کے اندر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں،اس بار مذاکرات میں مولانا سمیع الحق خودبھی شریک ہوں گے جس کی و جہ سے دشوار گزار جگہوں کاانتخاب نہیں کیا جا رہا کیونکہ وہ بار بار پہاڑی علاقوں کاسفر نہیں کر سکتے، طالبان اور حکومتی ٹیم کی براہ راست ملاقات ایک دو روز میں ہونے کی توقع ہے۔

حکومت کو جذبہ خیر سگالی کے تحت بچوں اورخواتین قیدیوں کو رہا کر دیناچاہیے،طالبان شوریٰ کی کی تجاویز حکومت تک پہنچا دی ہیں،قوم کوجلد امن کاتحفہ دیں گے،حکومت اورطالبان براہ راست بات کرنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں، طالبان نے کہاہے کہ وہ ایسے شواہد فراہم کرسکتے ہیں جن سے ثابت ہو گا کہ خواتین ،بچے یابوڑھے کہاں سے کب لاپتہ ہوئے اوراب انھیں کہاں رکھا گیاہے۔طالبان نے ان افراد کی رہائی کو مطالبات یاشرائط میں شامل نہیں کیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ خیرسگالی کے طور پر اقدامات ہوسکتے ہیں اس لیے ان سے مذاکرات پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور اگر ان تجاویز پرعمل درآمد نہیں ہوتا پھر بھی مذاکرات جاری رہیں گے۔

آن لائن کے مطابق مذاکرات کس جگہ پرہوں اس کا فیصلہ آج ہونے کا امکان ہے۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ امریکا اوربھارت طالبان سے مذاکرات کوسبوتاژ کر نے کی سازشیں کررہے ہیں' طالبان جنگ میں کم ازکم مزیدایک ماہ کی توسیع کر سکتے ہیں مگر حکومت کوسنجیدگی برقرار رکھناہوگی' آپر یشن کا مشورہ دینے والے امن کے دشمن ہیں،طالبان اور حکومت دونوں کی ذمے داری ہے کہ وہ حالیہ دہشت گردی میں ملوث قوتوں کو بے نقاب کریں۔ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہوگی کہ بات آپریشن تک نہ جائے، حالیہ دہشت گردی اصل میں مذاکرات سبوتاژکرنے کی کوشش ہے،مذاکرات سے ہی دہشتگردی کاخاتمہ ہوگا۔
Load Next Story