تھر مزید ایک بچہ جاں بحق گندم ختم ہوگئی گوداموں میں تالے
لوگ نقل مکانی پرمجبور، فلاحی اداروں کی سرگرمیاں جاری، مزید گندم کی فراہمی میں 10 دن لگ سکتے ہیں،مشیر ریلیف
تھرپارکر میں خشک سالی اور قحط کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہونے والے 12 بچوں کو سول اسپتال مٹھی میں داخل کیا گیا، جب کہ اسپتال میں ایک اور معصوم پھول مرجھا گیا۔
حکومت سندھ کی جانب سے تھرپارکر میں گندم کی فراہمی بند کرنے پر انچارج سیشن جج تھرپارکر فیاص ربانی نے سرکاری گودام پر چھاپہ مار کر 600 سے زائد گندم کی بوریاں برآمد کر لیں، ریکارڈ کے تحت گندم کی عدم موجودگی پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحقیقات کرنے جبکہ غلط بیانی اور گندم کی خور برد پر فوڈ انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ تھرپارکر کے مختلف علاقوں سے اتوار کو بھی مزید 12 بچوں کو سول اسپتال مٹھی منتقل کیا گیا، اسپتال میں زیر علاج بچوں کی تعداد 84 ہو گئی، جبکہ سول اسپتال مٹھی میں 3 سالہ بچی مہ ناز انتقال کر گئی، تھر میں قحط سالی کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہو کر مرنے والے بچوں کی تعداد 144 ہوگئی۔ محتسب اعلیٰ سندھ کے 3 رکنی وفد نے سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا، ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کر کے تھرپارکر میں قحط اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ وفد میں شبیر حسین شاہ، سدا لاڑک اور راحیل احمد شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ یہاں خواتین کو ہراساں کرنے کا کوئی واقعہ نہیں پیش آیا۔ ڈپٹی کمشنر آصف اکرام نے بھی سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا۔
دوسری جانب تھر کے قحط متاثرین کو سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی فراہمی بند کر دی گئی، گندم کی فراہمی روکنے کا جواز گوداموں میں موجود گندم کا اسٹاک ختم ہونے کو بنایا گیا لیکن جیسے ہی یہ خبر ایکسپریس نیوز پر نشر ہوئی تو اس کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ریلیف کمیٹی کے سربراہ، انچارج سیشن جج تھرپارکرفیاض ربانی نے مٹھی میں سرکاری گوداموں کا دورہ کیا ، ایک گودام کے ریکارڈ میں 220 بوریاں اور گودام میں600 سے زائد بوریاں ملنے پر انچارج سیشن جج نے جوڈیشل مجسٹریٹ مٹھی ندیم ظفر ہاشمی کو انکوائری آفیسر مقرر کرتے ہوئے محکمہ افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ بجیر محلے میں گندم کی تقسیم کے مرکز پر چھاپہ مار کر ڈپو میں رکھی 150 بوریاں برآمد کرلیں اور پولیس کو ڈپو انچارج دلیپ لوہانہ کو فوری طور پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انچارج سیشن جج فیاض ربانی نے کہا کہ تھر کے لوگ قحط کے باعث کھانے اور پینے کو ترس رہے ہیں لیکن انتظامیہ نے تمام گودام خالی کر دیے ہیں اور جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں، صورتحال سے عدالت عالیہ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ دریں اثنا انچارج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم پر مٹھی کے فوڈ انسپیکٹر کریم داد جونیجو کے خلاف گندم کی خور برد اور غلط بیانی کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔ قبل ازیں وزیر اعلیٰ سندھ کے کوآرڈینیٹر برائے ریلیف تاج حیدر کے زیر صدارت مٹھی میں سماجی تنظیموں کا اجلاس ہوا جہاں سماجی رہنمائوں نے انھیں قحط کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں تاج حیدر نے تھر کی صورتحال کا ملبہ ایک بار پھر میڈیا پر ڈالتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے قحط کو ایشو بنا دیا ہے۔ دوسری طرف بحریہ فائونڈیشن، آرمی، خدمت خلق فائونڈیشن، الخدمت فائونڈیشن اور دیگر سماجی تنظیموں کی تھرپار کر کے مختلف علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور متاثرین میں کھانا، راشن اور دیگر امدادی سامان تقسیم کیاجارہا ہے۔
این این آئی کے مطابق تھرپار کے قحط زدہ علاقے چھاچھرو میں ایک اور بچہ قحط کی نذر ہوگیا جبکہ مٹھی کے گوداموں میں گندم ایک بار پھر ختم ہوگئی اورگوداموں کو تالے لگادیے گئے۔ ضلع بھرمیں قحط سے جاں بحق افراد کی تعداد 176ہوگئی ہے، مٹھی کے سول اسپتال میں 63بچے زیر علاج ہیں جبکہ لاتعداد بچے اب بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں، تھر میں کئی ارب روپے کی امدادکے حکومتی دعوے کے باوجود دیہی علاقوں تک امداد نہیں پہنچ سکی۔ دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے بہت سے لوگوں تک اب بھی نہ خوراک پہنچی ہے اور نہ ہی ادویہ، مصیبت کے مارے لوگ بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ حکومت نے مزید گندم کا اعلان کیا تھا جو اب تک نہیں پہنچ سکی، گندم نہ ہونے سے دور دراز علاقوں کے تقریباً ایک لاکھ15 ہزار خاندان ابھی تک خورا ک سے محروم ہیں۔ ریلیف انچار ج تاج حیدر کا کہنا ہے کہ مزیدگندم کی فراہمی میں 10 دن لگ سکتے ہیں۔ حکومتی اہل کاروں کی سستی اور بے پروائی کے باعث لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔
دوسری جانب صحت کا معاملہ بھی تسلی بخش نہیں، ڈاکٹرز کی ٹیمیں صرف شہری علاقوں تک محدود ہیں، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کے باعث لوگ شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق گندم کا ذخیرہ ختم ہونے پر سرکاری گودام کو تالے لگا دیے گئے ہیں۔ اتوار کو نجی ٹی وی کے مطابق مٹھی میں سرکاری گودام میں گندم ختم ہوگئی اور عملہ گودام کو تالے لگا کر غائب ہوگیا۔ این این آئی کے مطابق صحرائے تھر میں قحط متاثرین کی دادرسی کا کام سست روی کا شکار ہے، پنجاب حکومت نے مٹھی میں ویئر ہائوس قائم کردیا۔دوسری جانب تھرپارکر کی قحط سالی نے آس پاس علاقوں کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے، سکھر میں قلیل عرصے کے دوران 60 سے زائد بکریوں کی ہلاکت نے علاقے میں خطرے کی گھنٹی بجادی، چند دنوں میں مختلف بیماریوں میں مبتلا 6بچے اسپتالوں میں داخل کرائے جاچکے ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے تھرپارکر میں گندم کی فراہمی بند کرنے پر انچارج سیشن جج تھرپارکر فیاص ربانی نے سرکاری گودام پر چھاپہ مار کر 600 سے زائد گندم کی بوریاں برآمد کر لیں، ریکارڈ کے تحت گندم کی عدم موجودگی پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحقیقات کرنے جبکہ غلط بیانی اور گندم کی خور برد پر فوڈ انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ تھرپارکر کے مختلف علاقوں سے اتوار کو بھی مزید 12 بچوں کو سول اسپتال مٹھی منتقل کیا گیا، اسپتال میں زیر علاج بچوں کی تعداد 84 ہو گئی، جبکہ سول اسپتال مٹھی میں 3 سالہ بچی مہ ناز انتقال کر گئی، تھر میں قحط سالی کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہو کر مرنے والے بچوں کی تعداد 144 ہوگئی۔ محتسب اعلیٰ سندھ کے 3 رکنی وفد نے سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا، ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کر کے تھرپارکر میں قحط اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ وفد میں شبیر حسین شاہ، سدا لاڑک اور راحیل احمد شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ یہاں خواتین کو ہراساں کرنے کا کوئی واقعہ نہیں پیش آیا۔ ڈپٹی کمشنر آصف اکرام نے بھی سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا۔
دوسری جانب تھر کے قحط متاثرین کو سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی فراہمی بند کر دی گئی، گندم کی فراہمی روکنے کا جواز گوداموں میں موجود گندم کا اسٹاک ختم ہونے کو بنایا گیا لیکن جیسے ہی یہ خبر ایکسپریس نیوز پر نشر ہوئی تو اس کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ریلیف کمیٹی کے سربراہ، انچارج سیشن جج تھرپارکرفیاض ربانی نے مٹھی میں سرکاری گوداموں کا دورہ کیا ، ایک گودام کے ریکارڈ میں 220 بوریاں اور گودام میں600 سے زائد بوریاں ملنے پر انچارج سیشن جج نے جوڈیشل مجسٹریٹ مٹھی ندیم ظفر ہاشمی کو انکوائری آفیسر مقرر کرتے ہوئے محکمہ افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ بجیر محلے میں گندم کی تقسیم کے مرکز پر چھاپہ مار کر ڈپو میں رکھی 150 بوریاں برآمد کرلیں اور پولیس کو ڈپو انچارج دلیپ لوہانہ کو فوری طور پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انچارج سیشن جج فیاض ربانی نے کہا کہ تھر کے لوگ قحط کے باعث کھانے اور پینے کو ترس رہے ہیں لیکن انتظامیہ نے تمام گودام خالی کر دیے ہیں اور جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں، صورتحال سے عدالت عالیہ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ دریں اثنا انچارج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم پر مٹھی کے فوڈ انسپیکٹر کریم داد جونیجو کے خلاف گندم کی خور برد اور غلط بیانی کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔ قبل ازیں وزیر اعلیٰ سندھ کے کوآرڈینیٹر برائے ریلیف تاج حیدر کے زیر صدارت مٹھی میں سماجی تنظیموں کا اجلاس ہوا جہاں سماجی رہنمائوں نے انھیں قحط کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں تاج حیدر نے تھر کی صورتحال کا ملبہ ایک بار پھر میڈیا پر ڈالتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے قحط کو ایشو بنا دیا ہے۔ دوسری طرف بحریہ فائونڈیشن، آرمی، خدمت خلق فائونڈیشن، الخدمت فائونڈیشن اور دیگر سماجی تنظیموں کی تھرپار کر کے مختلف علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور متاثرین میں کھانا، راشن اور دیگر امدادی سامان تقسیم کیاجارہا ہے۔
این این آئی کے مطابق تھرپار کے قحط زدہ علاقے چھاچھرو میں ایک اور بچہ قحط کی نذر ہوگیا جبکہ مٹھی کے گوداموں میں گندم ایک بار پھر ختم ہوگئی اورگوداموں کو تالے لگادیے گئے۔ ضلع بھرمیں قحط سے جاں بحق افراد کی تعداد 176ہوگئی ہے، مٹھی کے سول اسپتال میں 63بچے زیر علاج ہیں جبکہ لاتعداد بچے اب بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں، تھر میں کئی ارب روپے کی امدادکے حکومتی دعوے کے باوجود دیہی علاقوں تک امداد نہیں پہنچ سکی۔ دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے بہت سے لوگوں تک اب بھی نہ خوراک پہنچی ہے اور نہ ہی ادویہ، مصیبت کے مارے لوگ بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ حکومت نے مزید گندم کا اعلان کیا تھا جو اب تک نہیں پہنچ سکی، گندم نہ ہونے سے دور دراز علاقوں کے تقریباً ایک لاکھ15 ہزار خاندان ابھی تک خورا ک سے محروم ہیں۔ ریلیف انچار ج تاج حیدر کا کہنا ہے کہ مزیدگندم کی فراہمی میں 10 دن لگ سکتے ہیں۔ حکومتی اہل کاروں کی سستی اور بے پروائی کے باعث لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔
دوسری جانب صحت کا معاملہ بھی تسلی بخش نہیں، ڈاکٹرز کی ٹیمیں صرف شہری علاقوں تک محدود ہیں، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کے باعث لوگ شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق گندم کا ذخیرہ ختم ہونے پر سرکاری گودام کو تالے لگا دیے گئے ہیں۔ اتوار کو نجی ٹی وی کے مطابق مٹھی میں سرکاری گودام میں گندم ختم ہوگئی اور عملہ گودام کو تالے لگا کر غائب ہوگیا۔ این این آئی کے مطابق صحرائے تھر میں قحط متاثرین کی دادرسی کا کام سست روی کا شکار ہے، پنجاب حکومت نے مٹھی میں ویئر ہائوس قائم کردیا۔دوسری جانب تھرپارکر کی قحط سالی نے آس پاس علاقوں کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے، سکھر میں قلیل عرصے کے دوران 60 سے زائد بکریوں کی ہلاکت نے علاقے میں خطرے کی گھنٹی بجادی، چند دنوں میں مختلف بیماریوں میں مبتلا 6بچے اسپتالوں میں داخل کرائے جاچکے ہیں۔