زیرِآب پیغامات بھیجنے والی دنیا کی پہلی ایپ تیار
جامعہ واشنگٹن کی ایکوایپ ہرفون پر زیرِ آب پیغام رسانی کو ممکن بناسکتی ہے اور 30 میٹر گہرائی میں کام کرسکتی ہے
تمام ترقی کے باوجود ہمارے اسمارٹ فون پانی کے اندر کام نہیں کرتے اور ان سے ایس ایم ایس نہیں بھیجے جاسکتے ۔ تاہم اب امریکی ماہرین نے کم گہرے پانی میں پیغام رسانی ممکن بنانے والی ایک حیرت انگیز ایپ بنالی ہے۔
جامعہ واشنگٹن کے سائنسدانوں نے اسے 'ایکوایپ' کا نام دیا ہے جو تقریباً تمام اسمارٹ فون پر کسی ہارڈویئر کی تبدیلی کے بغیر کام کرسکتی ہے۔ لیکن اسے بنانا کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ جب کام شروع کیا تو طرح طرح کی تکنیکی مشکلات آڑے آئیں۔ اب اسنارکلنگ کرنے اور اسکوبا ڈائیونگ کرنے والے افراد اس سے دوطرفہ رابطہ کرسکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرغوطہ خور بھی زیرِ آب رابطے کے لیے ہاتھوں کے اشارے استعمال کرتے ہیں۔ شوقیہ یا تفریح والے ڈائیور صرف 20 سگنل یا اشاروں سے کام چلاتے اور پروفیشنل ڈائیور 200 سگنل جانتے ہیں جن میں وہ اپنی کیفیت، آکسیجن کی کمی بیشی یا سمندری جاندار کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
ایکو ایپ اسمارٹ فون اور اسمارٹ واچ دونوں پر کام کرسکتی ہے۔ تاہم اسمارٹ واچ وائی فائی اور بلیو ٹوتھ کے علاوہ سیل فون سروس پر اکتفا کرتے ہیں۔ رابطے کے یہ تینوں ذرائع کسی بھی طرح پانی کے اندر کام نہیں کرتے یا ناقص ہوتے ہیں۔
ایکوا ایپ کے لیے صرف واٹرپروف فون درکار ہوگا یا فون کو کسی واٹرپروف تھیلی میں رکھنا ہوگا۔ اس میں سب سے اہم کام مائیکروفون اور اسپیکر کا ہوگا۔ بس پانی کے اندر کچھ یہ کرنا ہوگا کہ پہلے سے ہی غوطہ خوروں کے زیرِ استعمال 240 پیغامات پہلے ہی اس میں ایس ایم کی صورت میں شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 20 پیغامات واضح طور پر دکھائی دیں گے۔ ان میں سمت کا تعین، ماحولیاتی حالات اور غوطہ خوری کے سامان کی صورتِ حال شامل ہے یعنی آکسیجن کتنا ہے اوردیگر آلات کیا کہہ رہے ہیں۔
لیکن اس میں کئی مشکلات سامنے آئیں یعنی پانی کے اندر اسمارٹ فون سگنل کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ لہر اور انسان سامنے آجائے تب بھی ان پر فرق پڑتا ہے۔ ان مسائل کے لیے ایک الگورتھم بنایا گیا جو بدلتی صورتحال میں ایپ کو بہتر رکھتا ہے۔ رابطے
یا ٹرانسمیشن میں کمی بیشی کی صورت میں الگورتھم خود ہی اسے بہتر بناتا ہے۔ اس کے علاوہ شوریا فاصلے کی صورت میں یہ الگورتھم پورے نظام کو بہتربناتا ہے۔
دوسری جانب میسج بھیجنے سے قبل فون ایک فوری نوٹ بھیجتا ہے جسے پری ایمبل کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری (صول کرنے والے آلے) پر موجود ایپ پری ایمبل وصول کرنے کے لیے الگورتھم سے مدد لیتی ہے۔ پھر وہ پہلے والے فون سے کہتی ہے کہ ہاں اب ایس ایم ایس بھیجو
جس کے بعد پیغام رسانی شروع ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین نے اس کے لیے ایک نیٹ ورکنگ پروٹوکول بنایا ہے جو ایک وقت میں 60 فون پر چل سکتا ہے۔ ماہرین نے پھر مختلف گہرائیوں میں اسے آزمایا تو معلوم ہوا ہے کہ یہ 30 میٹر گہرائی تک بہترین کام کرتا ہے۔ تاہم اس پر مزید تجربات باقی ہیں۔
جامعہ واشنگٹن کے سائنسدانوں نے اسے 'ایکوایپ' کا نام دیا ہے جو تقریباً تمام اسمارٹ فون پر کسی ہارڈویئر کی تبدیلی کے بغیر کام کرسکتی ہے۔ لیکن اسے بنانا کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ جب کام شروع کیا تو طرح طرح کی تکنیکی مشکلات آڑے آئیں۔ اب اسنارکلنگ کرنے اور اسکوبا ڈائیونگ کرنے والے افراد اس سے دوطرفہ رابطہ کرسکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرغوطہ خور بھی زیرِ آب رابطے کے لیے ہاتھوں کے اشارے استعمال کرتے ہیں۔ شوقیہ یا تفریح والے ڈائیور صرف 20 سگنل یا اشاروں سے کام چلاتے اور پروفیشنل ڈائیور 200 سگنل جانتے ہیں جن میں وہ اپنی کیفیت، آکسیجن کی کمی بیشی یا سمندری جاندار کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
ایکو ایپ اسمارٹ فون اور اسمارٹ واچ دونوں پر کام کرسکتی ہے۔ تاہم اسمارٹ واچ وائی فائی اور بلیو ٹوتھ کے علاوہ سیل فون سروس پر اکتفا کرتے ہیں۔ رابطے کے یہ تینوں ذرائع کسی بھی طرح پانی کے اندر کام نہیں کرتے یا ناقص ہوتے ہیں۔
ایکوا ایپ کے لیے صرف واٹرپروف فون درکار ہوگا یا فون کو کسی واٹرپروف تھیلی میں رکھنا ہوگا۔ اس میں سب سے اہم کام مائیکروفون اور اسپیکر کا ہوگا۔ بس پانی کے اندر کچھ یہ کرنا ہوگا کہ پہلے سے ہی غوطہ خوروں کے زیرِ استعمال 240 پیغامات پہلے ہی اس میں ایس ایم کی صورت میں شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 20 پیغامات واضح طور پر دکھائی دیں گے۔ ان میں سمت کا تعین، ماحولیاتی حالات اور غوطہ خوری کے سامان کی صورتِ حال شامل ہے یعنی آکسیجن کتنا ہے اوردیگر آلات کیا کہہ رہے ہیں۔
لیکن اس میں کئی مشکلات سامنے آئیں یعنی پانی کے اندر اسمارٹ فون سگنل کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ لہر اور انسان سامنے آجائے تب بھی ان پر فرق پڑتا ہے۔ ان مسائل کے لیے ایک الگورتھم بنایا گیا جو بدلتی صورتحال میں ایپ کو بہتر رکھتا ہے۔ رابطے
یا ٹرانسمیشن میں کمی بیشی کی صورت میں الگورتھم خود ہی اسے بہتر بناتا ہے۔ اس کے علاوہ شوریا فاصلے کی صورت میں یہ الگورتھم پورے نظام کو بہتربناتا ہے۔
دوسری جانب میسج بھیجنے سے قبل فون ایک فوری نوٹ بھیجتا ہے جسے پری ایمبل کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری (صول کرنے والے آلے) پر موجود ایپ پری ایمبل وصول کرنے کے لیے الگورتھم سے مدد لیتی ہے۔ پھر وہ پہلے والے فون سے کہتی ہے کہ ہاں اب ایس ایم ایس بھیجو
جس کے بعد پیغام رسانی شروع ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین نے اس کے لیے ایک نیٹ ورکنگ پروٹوکول بنایا ہے جو ایک وقت میں 60 فون پر چل سکتا ہے۔ ماہرین نے پھر مختلف گہرائیوں میں اسے آزمایا تو معلوم ہوا ہے کہ یہ 30 میٹر گہرائی تک بہترین کام کرتا ہے۔ تاہم اس پر مزید تجربات باقی ہیں۔