آیندہ الیکشن
ہر سیاسی جماعت کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے بَل پر الیکشن جیت کر برسرِ اقتدار آتی ہے
وطن عزیز پاکستان میں مون سون کی بارشوں نے نظامِ زندگی درہم برہم بلکہ معطل کرکے رکھ دیا جس کی وجہ سے جشن آزادی حسب معمول جوش و خروش کے ساتھ نہیں منایا جاسکا۔
انفرا اسٹرکچر کی کمزوری کی وجہ سے نہ تو بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکا اور نہ ہی نکاسی آب کا کوئی بروقت معقول بندوبست کیا جاسکا۔ اس کی وجہ سے عوام میں اس تاریخی موقع پر وہ ولولہ اور جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا جو مستقل روایت ہے۔ شدید اور وقفہ وقفہ سے ہونے والی بارش کی وجہ سے بہت سی تقریبات منعقد نہ ہوسکیں جن کی تیاریاں بڑے زور شور سے کی گئی تھیں۔
دوسری جانب سیاستدانوں کی باہم چپقلش اور رسہ کَشی نے ماحول کو مکدر کردیا اور فضا کشیدہ کشیدہ اور ناخوشگوار رہی۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ جو بھی کچھ ہیں اس وطن عزیز کے ہی طفیل ہیں۔ سچ پوچھیے ہماری آزادی کی ہر سانس اسی پاک سرزمین کی مرہونِ منت ہے۔
ہماری روزی روزگار ہماری وزارت ، امارت، ہمارے مراتب و مناصب اور ہمارے ٹھاٹ باٹ سب کے سب اِسی وطنِ عزیز کی بدولت ہیں۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
ذرا بھارت میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کی حالت زار کو دیکھیے تو اس پاک وطن کی قدر و قیمت روشن ہوجائے گی۔بے چارے تیسرے درجہ کے نہیں بلکہ چوتھے درجہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نہ جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی عبادت گاہیں۔ ہر آن ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے اور تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے۔
آئے دن کے مسلم کْش فسادات نے اْن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ انتہا پسندی ہے کہ کم ہونے کے بجائے روز بروز مسلسل بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یوں کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ریاست ہے مگر یہ محض ایک ڈھونگ اور ناٹک ہے جس کا مقصد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ذرا موازنہ کیجیے تو اصل حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور یہ پتہ چل جائے گا کہ یہ پاک سرزمین جنت ارضی ہے۔
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ، ہمیں است و، ہمیں است
اللہ تعالیٰ نے ہماری سرزمینِ وطن کو بیش بہا اور بے تحاشہ قدرتی خزانوں سے مالا مال کیا ہے اور اس کی دھرتی سونا اگلتی ہے۔ صرف اکیلے بلوچستان میں بیشمار خزانے دفن ہیں،جنھیں اگر بروئے کار لایا جائے تو وطنِ عزیزکی کایا پلٹ جائے اور تقدیر بدل جائے، اب اگر اِن سے استفادہ نہ کیا جائے تو اِس میں کسی اور کا دوش نہیں بلکہ سارے کا سارا ہمارا ہی قصور ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کا راستہ چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا ہوا ہے جو تباہی و بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہماری نیت میں فتور ہے جس کی وجہ سے خیر و برکت اٹھتی جا رہی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں وہ مخلص اور اہل قیادت میسر نہیں آسکی جو ہمیں ہماری منزلِ مراد تک پہنچا سکیں۔ ہم نے بہت سے تجربات کرکے دیکھ لیے جن میں آمریت ، بنیادی جمہوریت اور نام نہاد جمہوریت بھی شامل ہیں جسے ہم گزشتہ کئی برسوں سے آزما رہے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر حقیقت میں اْس کا جمہوریت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور ساری کہانی یا تو کسی ایک شخص کے اردگرد گھومتی ہے یا پھر کسی ایک خاندان کے تابعِ فرمان ہوتی ہے اور یہ سلسلہ خاندان در خاندان چلتا رہتا ہے۔ قومی اتحاد جو وطنِ عزیز کی بقا و سلامتی اور ترقی کا ضامن ہے مفقود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت کے کئی کئی دھڑے ہیں۔ دین کا لیبل لگائی ہوئی سیاسی جماعتوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہر ایک کی سرشت الگ الگ ہے اور ہر کوئی خود کو دوسروں سے بہتر گردانتی ہے۔ یہ وہی صورتحال جس کی جانب حکیم الامت علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
سیاست کا سرطان پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جو سیاسی اثرات سے محفوظ ہو۔ اداروں میں سیاست، کھیلوں میں سیاست ، گھروں میں سیاست حتیٰ کہ مدارس اور مساجد بھی سیاسی اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو سیاست کی زد سے بَچا ہوا ہو۔ یہ رَوِش ہمیں تباہی کے کس دہانے تک لے جا سکتی ہے ، اس کا تجربہ ہم 1971 میں کر چکے ہیں، اگر ہماری آنکھیں اب بھی نہ کھْلیں تو پھر ہمارا خدا ہے ہی حافظ۔ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے مگر ہم نہ معلوم کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
دنیا کی جمہوریتوں میں پاکستان 123ویں نمبر پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس کی مجموعی صورتحال مسلسل زوال پذیر ہے۔ اس کا سیاسی گراف مسلسل گر رہا ہے اور معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ دو رجحانات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں ایک طرف آبادی کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسری جانب اشرافیہ باہمی اشتراک سے اپنے اجتماعی مفادات کو تحفظ دینے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا خمیازہ بیچارہ عام آدمی ہے جو بے دست و پا اور بے بس ہے۔گویا ہے
جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہر سیاسی جماعت کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے بَل پر الیکشن جیت کر برسرِ اقتدار آتی ہے اور اپنا کہا ہوا بھول جاتی ہے اور پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔پچھلی مرتبہ بھی یہی ہوا تھا اور تبدیلی کے نعرے پر جیتنے والی سیاسی جماعت نے صرف چہرے تبدیل کیے اور عملاً کوئی خاص کام کرکے نہیں دکھایا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگر آیندہ انتخابات ہو بھی گئے تو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی سوالات ہیں کہ آیا الیکشن ہونگے بھی، اگر ہونگے تو کیا مکمل طور پر شفاف اور غیر متنازعہ ہونگے اور کیا اْن کے نتائج کو بلا چوں و چرا تسلیم بھی کیا جائے گا ؟
انفرا اسٹرکچر کی کمزوری کی وجہ سے نہ تو بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکا اور نہ ہی نکاسی آب کا کوئی بروقت معقول بندوبست کیا جاسکا۔ اس کی وجہ سے عوام میں اس تاریخی موقع پر وہ ولولہ اور جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا جو مستقل روایت ہے۔ شدید اور وقفہ وقفہ سے ہونے والی بارش کی وجہ سے بہت سی تقریبات منعقد نہ ہوسکیں جن کی تیاریاں بڑے زور شور سے کی گئی تھیں۔
دوسری جانب سیاستدانوں کی باہم چپقلش اور رسہ کَشی نے ماحول کو مکدر کردیا اور فضا کشیدہ کشیدہ اور ناخوشگوار رہی۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ جو بھی کچھ ہیں اس وطن عزیز کے ہی طفیل ہیں۔ سچ پوچھیے ہماری آزادی کی ہر سانس اسی پاک سرزمین کی مرہونِ منت ہے۔
ہماری روزی روزگار ہماری وزارت ، امارت، ہمارے مراتب و مناصب اور ہمارے ٹھاٹ باٹ سب کے سب اِسی وطنِ عزیز کی بدولت ہیں۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
ذرا بھارت میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کی حالت زار کو دیکھیے تو اس پاک وطن کی قدر و قیمت روشن ہوجائے گی۔بے چارے تیسرے درجہ کے نہیں بلکہ چوتھے درجہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نہ جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی عبادت گاہیں۔ ہر آن ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے اور تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے۔
آئے دن کے مسلم کْش فسادات نے اْن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ انتہا پسندی ہے کہ کم ہونے کے بجائے روز بروز مسلسل بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یوں کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ریاست ہے مگر یہ محض ایک ڈھونگ اور ناٹک ہے جس کا مقصد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ذرا موازنہ کیجیے تو اصل حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور یہ پتہ چل جائے گا کہ یہ پاک سرزمین جنت ارضی ہے۔
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ، ہمیں است و، ہمیں است
اللہ تعالیٰ نے ہماری سرزمینِ وطن کو بیش بہا اور بے تحاشہ قدرتی خزانوں سے مالا مال کیا ہے اور اس کی دھرتی سونا اگلتی ہے۔ صرف اکیلے بلوچستان میں بیشمار خزانے دفن ہیں،جنھیں اگر بروئے کار لایا جائے تو وطنِ عزیزکی کایا پلٹ جائے اور تقدیر بدل جائے، اب اگر اِن سے استفادہ نہ کیا جائے تو اِس میں کسی اور کا دوش نہیں بلکہ سارے کا سارا ہمارا ہی قصور ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کا راستہ چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا ہوا ہے جو تباہی و بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہماری نیت میں فتور ہے جس کی وجہ سے خیر و برکت اٹھتی جا رہی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں وہ مخلص اور اہل قیادت میسر نہیں آسکی جو ہمیں ہماری منزلِ مراد تک پہنچا سکیں۔ ہم نے بہت سے تجربات کرکے دیکھ لیے جن میں آمریت ، بنیادی جمہوریت اور نام نہاد جمہوریت بھی شامل ہیں جسے ہم گزشتہ کئی برسوں سے آزما رہے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر حقیقت میں اْس کا جمہوریت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور ساری کہانی یا تو کسی ایک شخص کے اردگرد گھومتی ہے یا پھر کسی ایک خاندان کے تابعِ فرمان ہوتی ہے اور یہ سلسلہ خاندان در خاندان چلتا رہتا ہے۔ قومی اتحاد جو وطنِ عزیز کی بقا و سلامتی اور ترقی کا ضامن ہے مفقود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت کے کئی کئی دھڑے ہیں۔ دین کا لیبل لگائی ہوئی سیاسی جماعتوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہر ایک کی سرشت الگ الگ ہے اور ہر کوئی خود کو دوسروں سے بہتر گردانتی ہے۔ یہ وہی صورتحال جس کی جانب حکیم الامت علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
سیاست کا سرطان پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جو سیاسی اثرات سے محفوظ ہو۔ اداروں میں سیاست، کھیلوں میں سیاست ، گھروں میں سیاست حتیٰ کہ مدارس اور مساجد بھی سیاسی اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو سیاست کی زد سے بَچا ہوا ہو۔ یہ رَوِش ہمیں تباہی کے کس دہانے تک لے جا سکتی ہے ، اس کا تجربہ ہم 1971 میں کر چکے ہیں، اگر ہماری آنکھیں اب بھی نہ کھْلیں تو پھر ہمارا خدا ہے ہی حافظ۔ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے مگر ہم نہ معلوم کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
دنیا کی جمہوریتوں میں پاکستان 123ویں نمبر پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس کی مجموعی صورتحال مسلسل زوال پذیر ہے۔ اس کا سیاسی گراف مسلسل گر رہا ہے اور معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ دو رجحانات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں ایک طرف آبادی کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسری جانب اشرافیہ باہمی اشتراک سے اپنے اجتماعی مفادات کو تحفظ دینے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا خمیازہ بیچارہ عام آدمی ہے جو بے دست و پا اور بے بس ہے۔گویا ہے
جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہر سیاسی جماعت کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے بَل پر الیکشن جیت کر برسرِ اقتدار آتی ہے اور اپنا کہا ہوا بھول جاتی ہے اور پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔پچھلی مرتبہ بھی یہی ہوا تھا اور تبدیلی کے نعرے پر جیتنے والی سیاسی جماعت نے صرف چہرے تبدیل کیے اور عملاً کوئی خاص کام کرکے نہیں دکھایا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگر آیندہ انتخابات ہو بھی گئے تو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی سوالات ہیں کہ آیا الیکشن ہونگے بھی، اگر ہونگے تو کیا مکمل طور پر شفاف اور غیر متنازعہ ہونگے اور کیا اْن کے نتائج کو بلا چوں و چرا تسلیم بھی کیا جائے گا ؟