آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی معیشت مستحکم ہوگی
براہ راست فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایک ارب 17کروڑ ڈالرز قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کی منظور ی کے ساتھ قرض پروگرام میں جون 2023 تک توسیع بھی دیدی ہے۔
جاری اعلامیہ کے مطابق حکومت پاکستان نے بگڑتے مالی اور بیرونی حالات بہتر کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان میں اصلاحات کا مستقل نفاذ ضروری ہے۔ مقامی چیلنجوں اور پالیسیوں کی وجہ سے بھی نقصان ہوا ، جس کے نتیجے میں غیر مساوی اور غیر متوازن ترقی ہوئی۔
آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیہ میں میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنے اور عدم توازن دور کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کو مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا ہوگا ، کاروبار کرنے کا ماحول بہتر بناکر پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 17.1 فیصد رہ سکتے ہیں، رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 16 ارب 22 کروڑ تک ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد پاکستان نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے بلکہ اس کے قلیل مدت میں پاکستانی کرنسی اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور معیشت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے نہ صرف پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالرکی رقم ملے گی بلکہ دیگر مالیاتی اداروں جیسے ورلڈ بینک ، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے مختلف پروگرامز کی مد میں مزید قرض ملے گا اور دوست ممالک سے بھی رقوم کی آمد متوقع ہے ، اس طرح کل ملا کر آٹھ سے دس ارب ڈالرکی اضافی رقم پاکستان کو مل سکتی ہے ، جس سے ڈالر کی قیمت مستحکم ہو گی اور معیشت بہتری کی طرف جائے گی۔
بلاشبہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے جا رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے، یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے سے صورتحال آنے والے دنوں میں خاصی بہتر ہو جائے گی۔ اس بہتری سے حکومت کو موقع مل جائے گا کہ وہ معیشت کے دوسرے مسائل کی طرف توجہ دے سکے جس میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ دوسرا ملکی پیداوار خاص کر زرعی پیداوار میں اضافہ ہے۔
آئی ایم ایف کے پروگرام سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہو گی اور اس میں روز روز گراؤٹ دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ اس سے مارکیٹ مستحکم ہوگی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا جب کہ مہنگائی میں کمی کا بھی امکان ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے کمی سے مہنگائی کسی حد تک کم ہو سکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی باضابطہ منظوری اور قسط کے اجرا کے بعد اور دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالیاتی سپورٹ کے دروازے کھلنے سے ڈالر کی قدر 200 روپے سے بھی نیچے آنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔
قبل ازیں ڈالر کی اڑان اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے ملکی معیشت کو جس زبوں حالی سے دوچار کر دیا تھا اس سے بہت سے خدشات جنم لینے لگے تھے ، گو کہ اس کی بنیادی وجوہ عالمی سطح پر ہونے والی کساد بازاری، روس یوکرین جنگ قرار دی جا رہی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک ایسے وقت میں حکومت ملی، جب ملکی معیشت مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ، عالمی مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی، ملکی سیاسی بحران اور دیگر اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھ چکا تھا ، ایسے سنگین حالات میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا یقیناً موجودہ حکومت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
معاشی ترقی ، مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے کے لیے حکومت کے پاس مالی وسائل بالکل نہیں تھے، اب آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب معاہدہ طے پانے کے بعد موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔
اگر ہم اپنے ہی خطے کے ممالک کی پالیسیوں کا ہی موازنہ کرنا شروع کر دیں تو ہم بھی اپنے ملک کی معیشت کو بہتری کی ڈگر پہ لا سکتے ہیں، صرف ہم لوگوں کو اپنا آپ بدلنا ہو گا، اگر ہم چند ہی چیزوں پہ عمل کر لیں تو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ سکتے ہیں۔ ہم اپنی معدنیات کو بروئے کار لائیں جن کو ہم نے حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوا ہے اگر اس پہ عمل کر لیں تو ہمیں قرضوں سے نہ صرف نجات مل سکتی ہے بلکہ ہم بہت سا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
دوسرا ہمارے حکمرانوں کو سب سے زیادہ اپنا آپ بدلنے کی ضرورت ہے ، وہ اس لیے جمہوریت میں ہم صرف سیاسی نورا کشتی ہی دیکھتے آئے ہیں ، اُن کو اس چیز کو بھی ختم کر کے ترقیاتی کاموں کی طرف دھیان دینا ہو گا جو بے حد ضروری ہے، اگر ان دو باتوں پہ بھی عمل کر لیں تب بھی کافی حد تک بہتری کی امید ہے۔
موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کو کس طرح اور کیسے استعمال کیا جائے گا؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس کے لیے حکومت کو بہترین اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں کی ترقی کے لیے بڑے فنڈز درکار ہیں جب کہ مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے اور وفاقی و صوبائی سطح پر شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔
آئی ایم ایف پروگرام بذات خود کوئی معیشت ٹھیک کرنے کا مستقل حل نہیں بلکہ عارضی طور پر اس سے ملک کی معیشت کو سنبھلنے کا موقع مل گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا ریلیف اگلے تین سے چار ماہ تک کا ہے اور اگر حکومت نے اس دوران اقدامات کر کے معیشت کو نہ سنبھالا تو ملک پھر اسی دوراہے پر کھڑا ہو جائے گا ، کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کوئی طویل المدتی حل نہیں ہے بلکہ حکومت کو لانگ ٹرم میں اپنے خرچے کم کرکے اور آمدنی بڑھا کر معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنا ہوگا۔ اس کے لیے توانائی کا بحران حل کرنا بھی ضروری ہوگا۔
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام ، معاشی استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اہل سیاست اس ضمن میں کسی ذمے داری کے احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جہاں معیشت تباہی سے دوچار ہو رہی ہے وہیں عوام الناس پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمارے سیاسی قائدین کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ، اگر وہ یہ احساس پیدا کرلیں کہ اس ملک ہی سے ان کی شناخت ہے۔ باہمی جھگڑوں اور سر پھٹول سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لیے تمام سیاستدان اپنی ذمے داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی تو معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور وہ قرضوں کے عمل سے باہر آکر دنیا کی اقوام میں باوقار قوم کی حیثیت سے خود کو منوا سکیں گے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی رقوم کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو ترقی کے ٹریک پر لانے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم اسٹیک ہولڈرز پر یہ ذمے داری عائد ہو گی ہے کہ وہ معیشت کو ترجیح دیں اور سیاست کو مستحکم ہونے دیا جائے۔
جاری اعلامیہ کے مطابق حکومت پاکستان نے بگڑتے مالی اور بیرونی حالات بہتر کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان میں اصلاحات کا مستقل نفاذ ضروری ہے۔ مقامی چیلنجوں اور پالیسیوں کی وجہ سے بھی نقصان ہوا ، جس کے نتیجے میں غیر مساوی اور غیر متوازن ترقی ہوئی۔
آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیہ میں میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنے اور عدم توازن دور کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کو مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا ہوگا ، کاروبار کرنے کا ماحول بہتر بناکر پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 17.1 فیصد رہ سکتے ہیں، رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 16 ارب 22 کروڑ تک ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد پاکستان نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے بلکہ اس کے قلیل مدت میں پاکستانی کرنسی اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور معیشت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے نہ صرف پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالرکی رقم ملے گی بلکہ دیگر مالیاتی اداروں جیسے ورلڈ بینک ، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے مختلف پروگرامز کی مد میں مزید قرض ملے گا اور دوست ممالک سے بھی رقوم کی آمد متوقع ہے ، اس طرح کل ملا کر آٹھ سے دس ارب ڈالرکی اضافی رقم پاکستان کو مل سکتی ہے ، جس سے ڈالر کی قیمت مستحکم ہو گی اور معیشت بہتری کی طرف جائے گی۔
بلاشبہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے جا رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے، یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے سے صورتحال آنے والے دنوں میں خاصی بہتر ہو جائے گی۔ اس بہتری سے حکومت کو موقع مل جائے گا کہ وہ معیشت کے دوسرے مسائل کی طرف توجہ دے سکے جس میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ دوسرا ملکی پیداوار خاص کر زرعی پیداوار میں اضافہ ہے۔
آئی ایم ایف کے پروگرام سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہو گی اور اس میں روز روز گراؤٹ دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ اس سے مارکیٹ مستحکم ہوگی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا جب کہ مہنگائی میں کمی کا بھی امکان ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے کمی سے مہنگائی کسی حد تک کم ہو سکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی باضابطہ منظوری اور قسط کے اجرا کے بعد اور دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالیاتی سپورٹ کے دروازے کھلنے سے ڈالر کی قدر 200 روپے سے بھی نیچے آنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔
قبل ازیں ڈالر کی اڑان اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے ملکی معیشت کو جس زبوں حالی سے دوچار کر دیا تھا اس سے بہت سے خدشات جنم لینے لگے تھے ، گو کہ اس کی بنیادی وجوہ عالمی سطح پر ہونے والی کساد بازاری، روس یوکرین جنگ قرار دی جا رہی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک ایسے وقت میں حکومت ملی، جب ملکی معیشت مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ، عالمی مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی، ملکی سیاسی بحران اور دیگر اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھ چکا تھا ، ایسے سنگین حالات میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا یقیناً موجودہ حکومت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
معاشی ترقی ، مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے کے لیے حکومت کے پاس مالی وسائل بالکل نہیں تھے، اب آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب معاہدہ طے پانے کے بعد موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔
اگر ہم اپنے ہی خطے کے ممالک کی پالیسیوں کا ہی موازنہ کرنا شروع کر دیں تو ہم بھی اپنے ملک کی معیشت کو بہتری کی ڈگر پہ لا سکتے ہیں، صرف ہم لوگوں کو اپنا آپ بدلنا ہو گا، اگر ہم چند ہی چیزوں پہ عمل کر لیں تو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ سکتے ہیں۔ ہم اپنی معدنیات کو بروئے کار لائیں جن کو ہم نے حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوا ہے اگر اس پہ عمل کر لیں تو ہمیں قرضوں سے نہ صرف نجات مل سکتی ہے بلکہ ہم بہت سا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
دوسرا ہمارے حکمرانوں کو سب سے زیادہ اپنا آپ بدلنے کی ضرورت ہے ، وہ اس لیے جمہوریت میں ہم صرف سیاسی نورا کشتی ہی دیکھتے آئے ہیں ، اُن کو اس چیز کو بھی ختم کر کے ترقیاتی کاموں کی طرف دھیان دینا ہو گا جو بے حد ضروری ہے، اگر ان دو باتوں پہ بھی عمل کر لیں تب بھی کافی حد تک بہتری کی امید ہے۔
موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کو کس طرح اور کیسے استعمال کیا جائے گا؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس کے لیے حکومت کو بہترین اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں کی ترقی کے لیے بڑے فنڈز درکار ہیں جب کہ مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے اور وفاقی و صوبائی سطح پر شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔
آئی ایم ایف پروگرام بذات خود کوئی معیشت ٹھیک کرنے کا مستقل حل نہیں بلکہ عارضی طور پر اس سے ملک کی معیشت کو سنبھلنے کا موقع مل گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا ریلیف اگلے تین سے چار ماہ تک کا ہے اور اگر حکومت نے اس دوران اقدامات کر کے معیشت کو نہ سنبھالا تو ملک پھر اسی دوراہے پر کھڑا ہو جائے گا ، کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کوئی طویل المدتی حل نہیں ہے بلکہ حکومت کو لانگ ٹرم میں اپنے خرچے کم کرکے اور آمدنی بڑھا کر معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنا ہوگا۔ اس کے لیے توانائی کا بحران حل کرنا بھی ضروری ہوگا۔
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام ، معاشی استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اہل سیاست اس ضمن میں کسی ذمے داری کے احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جہاں معیشت تباہی سے دوچار ہو رہی ہے وہیں عوام الناس پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمارے سیاسی قائدین کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ، اگر وہ یہ احساس پیدا کرلیں کہ اس ملک ہی سے ان کی شناخت ہے۔ باہمی جھگڑوں اور سر پھٹول سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لیے تمام سیاستدان اپنی ذمے داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی تو معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور وہ قرضوں کے عمل سے باہر آکر دنیا کی اقوام میں باوقار قوم کی حیثیت سے خود کو منوا سکیں گے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی رقوم کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو ترقی کے ٹریک پر لانے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم اسٹیک ہولڈرز پر یہ ذمے داری عائد ہو گی ہے کہ وہ معیشت کو ترجیح دیں اور سیاست کو مستحکم ہونے دیا جائے۔