وزارت سے کہیں ارفعکام
پرسوں بڑی سخت گرمی اور حبس تھی جب ایک سفید پوش معزز آدمی آئے اور بڑے تپاک سے ہاتھ ملا کر بیٹھ گئے
طوفانِ نوح کے بارے میں سن رکھا تھا، اس کی جھلک اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے، سیلاب زدگان کے ایک فقرے سے صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔
پاکستان کا تین چوتھائی حصہ ہلاکت خیز پانیوں میں ڈوب گیا ہے، آغاز بلوچستان سے ہوا جہاں بپھری ہوئی لہروں کے سامنے نہ کوئی ڈیم ٹھہرسکا نہ کوئی پل۔ جنوبی پنجاب ، کے پی اور گلگت بلتستان میں ہنستے بستے شہر اُجڑ گئے اور ہزاروں بستیاں صفحہ ہستی سے مِٹ گئیں۔ پچھتر سالوں میں کسی آفت یا جنگ میں اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی یہ طوفانی سیلاب لایا ہے۔
2005 کا زلزلہ بڑا تباہ کن تھا مگر حالیہ بربادی کا magnitute اُس سے بہت زیادہ ہے۔ کئی روز تک کسی نے مصیبت زدگان کی خبرتک نہ لی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں پہنچیں تو پھر اندازہ ہوا کہ ملک میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوچکی ہے۔ ہزاروں انسان محض جان بچانے کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے مگر کوئی مدد کو نہ پہنچ سکا، لاکھوں انسان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی، مکان اور مویشیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ پھر کچھ ایسے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے کہ انھوں نے روح تک کو ہلا کر رکھ دیا۔
کہیں ایک چھوٹے سے معصوم بچے کی تیرتی ہوئی لاش نظر آئی، کہیں طوفانی لہروں سے نبردآزما ہوتے ہوئے اور پھر انھی لہروں کی نظر ہوتے ہوئے چار دوستوں کی شبیہ نظر آئی۔ کہیں پانچ بھائیوں کو پانچ گھنٹوں تک امداد کا انتظار کرتے کرتے گہرے پانیوں میں غرق ہوتے دیکھا تو لوگوں کے دل سینوں سے باہر نکل آئے۔
جب ایک باپ کا نوحہ سنا کہ ''ہے کوئی جو میرے ڈوبتے ہوئے بیٹوں کو بچالے'' اور جب آسمان کو چیرتی ہوئی ایک ماں کی چیخیں سنیں کہ ''میرے دو بیٹے تھے جنھیں ظالم پانی نگل گیا ہے، مکان تباہ ہوگیا ہے، مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں ، مجھے بھی مار دو لوگو، مجھے بھی مار دو'' تو دل بہت دکھی اور بیقرار ہوا۔ دکھ اور کرب نے بھوک اور نیند تک چھین لی، اُس وقت راقم کے سامنے دو آپشن تھے، ایک یہ کہ ہر روز سوشل میڈیا کے ذریعے سیلاب کا نام لے کر حکومت اور عمران خان پر تنقید کی جائے اور ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تحریروں میں اچھالا جائے کہ فلاں نے یہ نہیں کیا اور فلاں یہ کرنے میں ناکام رہا اور دوسرا یہ کہ دوسروں پر تنقید کا آسان راستہ چھوڑ کر خود کچھ کرنے کا مشکل راستہ اختیار کیا جائے۔
راقم چونکہ شروع سے ایک عملی آدمی رہاہے لہٰذا خود کچھ کرنے کا راستہ چنا گیا۔ اسلام آباد کے مضافات میں جس بستی کا میں رہائشی ہوں وہیں دردِدل رکھنے والے ہمارے دوست بریگیڈیئر ڈاکٹر محمد بابر صاحب رہتے ہیں، وہ پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، میں نہیں ہوں مگر ہم ایک دوسرے کے اخلاص اور نیک نیتی کی قدر کرتے ہیں لہٰذا ہمارے درمیان باہمی احترام کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ میں نے بابر صاحب سے بات کی تو انھیں اپنے سے زیادہ پرجوش پایا، برادرم اظہارالحسن، جنرل (ر) غلام حیدر، بریگیڈیئر آفتاب، رائے ریاض، اکرم طاہر، ظفر رضا اور دوسرے دوستوں سے بات ہوئی، سب پرعزم نظر آئے۔
چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہم گھر بیٹھ کر افسوس اور اظہارِ ہمدردی کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر لوگوں کو بے حسی سے جگائیں، انھیں motivate کریں اور مخلص لوگوں کی ٹیم بناکر لوگوں کے تعاون سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں تک امدادی سامان پہنچائیں، جمعہ کو ہم نے میٹنگ کی اور ہفتہ کو ڈی ایچ اے کے سینٹرل پارک میں ریلیف کیمپ قائم کردیا گیا۔ عوام کی اطلاع کے لیے چند بینر بھی لگ گئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عزیزوں رشتے داروں اور دوستوں کو مطلع کردیا گیا۔ یہ طے ہوگیا کہ ہم لوگوں کو بیدار اور متحرک کریں گے، ان سے donations لے کراس کا (مستحقین کی فوری ضروریات کے مطابق) سامان خریدیں گے اور ٹرکوں کے ذریعے آفت زدہ علاقوں میں بھیجیں گے اور وہاں پولیس، انتظامیہ اور مقامی مساجد کے اماموں کی مشاورت سے اصل حقداروں میں تقسیم کریں گے۔
یہ طے کرکے میں اسلام آباد گیا، جہاں فوری طور پر دو لاکھ باجی (اُسامہ شہید کی والدہ) نے دے دیے ، ایک لاکھ بھائی صاحب نے دیے، ڈھائی لاکھ میں نے ڈالے، ڈھائی لاکھ بریگیڈیئر بابر صاحب نے ڈالے اور دولاکھ علامہ اقبالؒ کونسل کے دوستوں نے دے دیے۔ دس لاکھ فوری طور پر اکٹھے ہوگئے۔ دوسرے روز جب کیمپ لگا تو ہر عمر اور ہر بیک گراؤنڈ کے لوگ بڑے خلوص اور محبت سے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے امداد میں حصہ ڈالنے لگے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی حصہ ڈال رہی ہیں، دو سالہ بچوں سے لے کر پچاسی سالہ عمر رسیدہ بزرگوں نے بھی donationsدیں۔
جوش اور جذبے کے ساتھ مزدوروں نے بھی حصہ ڈالا اور جرنیلوں نے بھی، کلرکوں نے بھی مدد کی اور سیکریٹریوں نے بھی۔ (ر) جنرل افتحار صاحب، (ر) جنرل غلام حیدر صاحب، ڈاکٹر بابر چیمہ صاحب، اظہارالحسن، بریگیڈیئر آفتاب ، بریگیڈیئر ابراہیم اور راشد مسعود رات گئے تک کیمپ میں بیٹھے رہے اور donations وصول کرتے رہے، جنرل صاحبان donations بھی دیتے ہیں، وقت بھی اور بڑے مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ سب کی مشاورت سے ایک فیملی کے لیے پیکٹ تیار کیا گیا جو 4500/- روپے کا بنا ۔
اِس بار 2005 کے جذبوں کی جھلک اُس وقت نظر آئی جب خواتین خوشی اور چاہت سے گھروں سے گاڑیاں بھر کر سامان لے آئیں اور انھوں نے نئے کمبلوں اور نئے کپڑوں کے ڈھیر لگادیے۔ پولیس گارڈز کی حفاظت میں امدادی سامان کے پہلے ٹرک میں چار سو فیمیلیز کے لیے پیکٹ بھیجے گئے، ٹرک جونہی تونسہ کی حدود میں داخل ہوا ، ڈی جی خان ڈویژن کی مسلح پولیس نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا اور بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچایا۔
اصل مستحقین کی فہرستیں قابلِ اعتبار ذرایع کی مدد سے تیار کروائی گئی تھیں، لہٰذا سامان کی تقسیم انتہائی ڈسپلن اور شفافیت کے ساتھ مکمل ہوئی جس کے لیے ہم ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب احسان صادق صاحب کے شکر گزار ہیں۔ ڈی ایس پی تونسہ جان محمد نے خدا خوفی کے جذبے سے سرشار ہوکر کام کیا اور دور دراز کے حقداران تک مدد پہنچانے میں بڑی محنت کی۔
لوگوں کو بے حسی کی نیند سے بیدار کرنا اور کسی نیک کاز کے لیے مالی امداد دینے کے لیے تیار کرنا بھی مشکل کام ہے مگر موقعہ پر اصل مستحقین کا پتہ چلانا اور ان میں امدادی سامان کی تقسیم کو یقینی بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اس کے لیے ہم آئی جی موٹروے خالد محمود اور ڈی ایس پی رضوان کے بھی شکرگزار ہیں،اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے والے پولیس افسروں کو اجر سے نوازیں۔ چار مزید گاڑیوں کا سامان تیار ہے، انشااللہ ہر روز ایک گاڑی امدادی سامان لے کر مختلف جگہوں پر جایا کرے گی۔
ہمارے معاشرے میں خیر اور شر دونوں قوتیں ساتھ ساتھ کار فرما ہیں، کروڑوں روپے کی لمبی لمبی گاڑیوں پرہمارے کیمپ پر بے نیازی سے نظر ڈال کر گذر جانے والے بھی بہت ہیں اور ایسے بھی کم نہیں ہیں جو کیمپ پر نظر پڑتے ہی رک جاتے ہیں، آکر معلومات لیتے ہیں اور اُلٹے پاؤں پھرجاتے ہیں اور گھروں سے پیسے یا امدادی سامان لے کر آتے ہیں، کچھ ڈونرز کے ریمارکس بھی دلوں کے تار ہلادیتے ہیں۔
ایک خاتون یہ بات کرتے کرتے روپڑیں کہ''سنا ہے اُن بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا، وہ بھی ہمارے بھائی اور بہنیں ہیں، ہم پہلے کی طرح مہنگے کھانے کھائیں، یہ شرم کی بات ہے، یہ ہمارے حلق سے کیسے اُترتا ہے؟۔'' ایک انتہائی معزّز شخص بار بار اﷲ کا شکر ادا کرنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور کہتے کہ ''ہم بھی تو آفت زدگان میں شامل ہوسکتے تھے، یہ اﷲ کا ہم پر کتنا بڑا کرم ہے کہ ہم لینے والوں کی قطار میں نہیں، دینے والوں میں ہیں۔''
ایک چھوٹا بچہ اپنی امی کے ساتھ آیا تھا ، بار بار امی سے کہتا رہا،''امی ڈی جی خان میں سارے انکل بھوکے ہیں، ان کا کچن اور گھر گر گیا، انھوں نے کچھ نہیں پکایا، میری ساری پاکٹ منی انھیں دے دیں۔''
پرسوں بڑی سخت گرمی اور حبس تھی جب ایک سفید پوش معزز آدمی آئے اور بڑے تپاک سے ہاتھ ملا کر بیٹھ گئے، میں نے پوچھا کہا ں سے تشریف لائے ہیں تو کہنے لگے میں شیخوپورہ سے آیا ہوں، ڈی ایچ اے میں میرے بھائی رہتے ہیں، ہم یہاں پیزاہٹ میں کھانا کھانے آئے تھے، آپ کو دیکھا تو ادھر آگیا ہوں، پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے ''سر جی! آپ کی وجہ سے شیخوپورہ میں جو بدامنی ، بدمعاشی اور ڈاکا زنی ختم ہوگئی تھی اور مکمل امن قائم ہوگیا تھا اُس پر وہاں کے لوگ اب بھی آپ کو دعائیں دیتے ہیں۔'' پھر اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہنے لگے۔
''آپ جیسے شخص کو تو وزیر ہونا چاہیے تھا، حکومت کو چاہیے تھا کہ آپ کو وزیر بناتی تاکہ آپ پورے ملک کی خدمت کرتے، آپ جیسی شخصیت اتنی گرمی میں اس کیمپ میں بیٹھی ہو، مجھے تو یہ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔'' میں نے کہا ورک صاحب! یہ کام وزارتوں سے کہیں ارفع اور افضل ہے، یہ بہت بڑا کام ہے ، ہمارے نبی آقائے دوجہاں نے فرمایا ہے کہ '' لوگوں میں سے بہترین وہ ہیں جو دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور جب تک وہ دوسروں کی مدد میں مصروف رہیں اُن پر اﷲ کی رحمت برستی رہتی ہے۔''
ورک صاحب خاموشی سے اثبات میں سرہلاتے رہے ۔ آخر میں صرف اور صرف اپنے ربّ ِ ذوالجلال سے التجا ہے کہ اپنی مخلوق پر رحم فرمائیں: رب اِنّی مغلوبُ فاَنتَصِر۔ (اے میرے رب میں بے بس ہوں بس تو ہی میری مدد فرما)
سیکڑوں لوگ امداد بھیجنے کے لیے بینک اکاؤنٹ مانگ رہے تھے اس لیے شیئر کررہاہوں۔
عسکری بینک لمیٹڈ، ظہور پلازہ پشاور روڈ، راولپنڈی
اکاؤنٹ نمبر: 00301650502873
پاکستان کا تین چوتھائی حصہ ہلاکت خیز پانیوں میں ڈوب گیا ہے، آغاز بلوچستان سے ہوا جہاں بپھری ہوئی لہروں کے سامنے نہ کوئی ڈیم ٹھہرسکا نہ کوئی پل۔ جنوبی پنجاب ، کے پی اور گلگت بلتستان میں ہنستے بستے شہر اُجڑ گئے اور ہزاروں بستیاں صفحہ ہستی سے مِٹ گئیں۔ پچھتر سالوں میں کسی آفت یا جنگ میں اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی یہ طوفانی سیلاب لایا ہے۔
2005 کا زلزلہ بڑا تباہ کن تھا مگر حالیہ بربادی کا magnitute اُس سے بہت زیادہ ہے۔ کئی روز تک کسی نے مصیبت زدگان کی خبرتک نہ لی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں پہنچیں تو پھر اندازہ ہوا کہ ملک میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوچکی ہے۔ ہزاروں انسان محض جان بچانے کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے مگر کوئی مدد کو نہ پہنچ سکا، لاکھوں انسان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی، مکان اور مویشیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ پھر کچھ ایسے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے کہ انھوں نے روح تک کو ہلا کر رکھ دیا۔
کہیں ایک چھوٹے سے معصوم بچے کی تیرتی ہوئی لاش نظر آئی، کہیں طوفانی لہروں سے نبردآزما ہوتے ہوئے اور پھر انھی لہروں کی نظر ہوتے ہوئے چار دوستوں کی شبیہ نظر آئی۔ کہیں پانچ بھائیوں کو پانچ گھنٹوں تک امداد کا انتظار کرتے کرتے گہرے پانیوں میں غرق ہوتے دیکھا تو لوگوں کے دل سینوں سے باہر نکل آئے۔
جب ایک باپ کا نوحہ سنا کہ ''ہے کوئی جو میرے ڈوبتے ہوئے بیٹوں کو بچالے'' اور جب آسمان کو چیرتی ہوئی ایک ماں کی چیخیں سنیں کہ ''میرے دو بیٹے تھے جنھیں ظالم پانی نگل گیا ہے، مکان تباہ ہوگیا ہے، مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں ، مجھے بھی مار دو لوگو، مجھے بھی مار دو'' تو دل بہت دکھی اور بیقرار ہوا۔ دکھ اور کرب نے بھوک اور نیند تک چھین لی، اُس وقت راقم کے سامنے دو آپشن تھے، ایک یہ کہ ہر روز سوشل میڈیا کے ذریعے سیلاب کا نام لے کر حکومت اور عمران خان پر تنقید کی جائے اور ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تحریروں میں اچھالا جائے کہ فلاں نے یہ نہیں کیا اور فلاں یہ کرنے میں ناکام رہا اور دوسرا یہ کہ دوسروں پر تنقید کا آسان راستہ چھوڑ کر خود کچھ کرنے کا مشکل راستہ اختیار کیا جائے۔
راقم چونکہ شروع سے ایک عملی آدمی رہاہے لہٰذا خود کچھ کرنے کا راستہ چنا گیا۔ اسلام آباد کے مضافات میں جس بستی کا میں رہائشی ہوں وہیں دردِدل رکھنے والے ہمارے دوست بریگیڈیئر ڈاکٹر محمد بابر صاحب رہتے ہیں، وہ پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، میں نہیں ہوں مگر ہم ایک دوسرے کے اخلاص اور نیک نیتی کی قدر کرتے ہیں لہٰذا ہمارے درمیان باہمی احترام کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ میں نے بابر صاحب سے بات کی تو انھیں اپنے سے زیادہ پرجوش پایا، برادرم اظہارالحسن، جنرل (ر) غلام حیدر، بریگیڈیئر آفتاب، رائے ریاض، اکرم طاہر، ظفر رضا اور دوسرے دوستوں سے بات ہوئی، سب پرعزم نظر آئے۔
چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہم گھر بیٹھ کر افسوس اور اظہارِ ہمدردی کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر لوگوں کو بے حسی سے جگائیں، انھیں motivate کریں اور مخلص لوگوں کی ٹیم بناکر لوگوں کے تعاون سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں تک امدادی سامان پہنچائیں، جمعہ کو ہم نے میٹنگ کی اور ہفتہ کو ڈی ایچ اے کے سینٹرل پارک میں ریلیف کیمپ قائم کردیا گیا۔ عوام کی اطلاع کے لیے چند بینر بھی لگ گئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عزیزوں رشتے داروں اور دوستوں کو مطلع کردیا گیا۔ یہ طے ہوگیا کہ ہم لوگوں کو بیدار اور متحرک کریں گے، ان سے donations لے کراس کا (مستحقین کی فوری ضروریات کے مطابق) سامان خریدیں گے اور ٹرکوں کے ذریعے آفت زدہ علاقوں میں بھیجیں گے اور وہاں پولیس، انتظامیہ اور مقامی مساجد کے اماموں کی مشاورت سے اصل حقداروں میں تقسیم کریں گے۔
یہ طے کرکے میں اسلام آباد گیا، جہاں فوری طور پر دو لاکھ باجی (اُسامہ شہید کی والدہ) نے دے دیے ، ایک لاکھ بھائی صاحب نے دیے، ڈھائی لاکھ میں نے ڈالے، ڈھائی لاکھ بریگیڈیئر بابر صاحب نے ڈالے اور دولاکھ علامہ اقبالؒ کونسل کے دوستوں نے دے دیے۔ دس لاکھ فوری طور پر اکٹھے ہوگئے۔ دوسرے روز جب کیمپ لگا تو ہر عمر اور ہر بیک گراؤنڈ کے لوگ بڑے خلوص اور محبت سے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے امداد میں حصہ ڈالنے لگے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی حصہ ڈال رہی ہیں، دو سالہ بچوں سے لے کر پچاسی سالہ عمر رسیدہ بزرگوں نے بھی donationsدیں۔
جوش اور جذبے کے ساتھ مزدوروں نے بھی حصہ ڈالا اور جرنیلوں نے بھی، کلرکوں نے بھی مدد کی اور سیکریٹریوں نے بھی۔ (ر) جنرل افتحار صاحب، (ر) جنرل غلام حیدر صاحب، ڈاکٹر بابر چیمہ صاحب، اظہارالحسن، بریگیڈیئر آفتاب ، بریگیڈیئر ابراہیم اور راشد مسعود رات گئے تک کیمپ میں بیٹھے رہے اور donations وصول کرتے رہے، جنرل صاحبان donations بھی دیتے ہیں، وقت بھی اور بڑے مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ سب کی مشاورت سے ایک فیملی کے لیے پیکٹ تیار کیا گیا جو 4500/- روپے کا بنا ۔
اِس بار 2005 کے جذبوں کی جھلک اُس وقت نظر آئی جب خواتین خوشی اور چاہت سے گھروں سے گاڑیاں بھر کر سامان لے آئیں اور انھوں نے نئے کمبلوں اور نئے کپڑوں کے ڈھیر لگادیے۔ پولیس گارڈز کی حفاظت میں امدادی سامان کے پہلے ٹرک میں چار سو فیمیلیز کے لیے پیکٹ بھیجے گئے، ٹرک جونہی تونسہ کی حدود میں داخل ہوا ، ڈی جی خان ڈویژن کی مسلح پولیس نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا اور بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچایا۔
اصل مستحقین کی فہرستیں قابلِ اعتبار ذرایع کی مدد سے تیار کروائی گئی تھیں، لہٰذا سامان کی تقسیم انتہائی ڈسپلن اور شفافیت کے ساتھ مکمل ہوئی جس کے لیے ہم ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب احسان صادق صاحب کے شکر گزار ہیں۔ ڈی ایس پی تونسہ جان محمد نے خدا خوفی کے جذبے سے سرشار ہوکر کام کیا اور دور دراز کے حقداران تک مدد پہنچانے میں بڑی محنت کی۔
لوگوں کو بے حسی کی نیند سے بیدار کرنا اور کسی نیک کاز کے لیے مالی امداد دینے کے لیے تیار کرنا بھی مشکل کام ہے مگر موقعہ پر اصل مستحقین کا پتہ چلانا اور ان میں امدادی سامان کی تقسیم کو یقینی بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اس کے لیے ہم آئی جی موٹروے خالد محمود اور ڈی ایس پی رضوان کے بھی شکرگزار ہیں،اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے والے پولیس افسروں کو اجر سے نوازیں۔ چار مزید گاڑیوں کا سامان تیار ہے، انشااللہ ہر روز ایک گاڑی امدادی سامان لے کر مختلف جگہوں پر جایا کرے گی۔
ہمارے معاشرے میں خیر اور شر دونوں قوتیں ساتھ ساتھ کار فرما ہیں، کروڑوں روپے کی لمبی لمبی گاڑیوں پرہمارے کیمپ پر بے نیازی سے نظر ڈال کر گذر جانے والے بھی بہت ہیں اور ایسے بھی کم نہیں ہیں جو کیمپ پر نظر پڑتے ہی رک جاتے ہیں، آکر معلومات لیتے ہیں اور اُلٹے پاؤں پھرجاتے ہیں اور گھروں سے پیسے یا امدادی سامان لے کر آتے ہیں، کچھ ڈونرز کے ریمارکس بھی دلوں کے تار ہلادیتے ہیں۔
ایک خاتون یہ بات کرتے کرتے روپڑیں کہ''سنا ہے اُن بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا، وہ بھی ہمارے بھائی اور بہنیں ہیں، ہم پہلے کی طرح مہنگے کھانے کھائیں، یہ شرم کی بات ہے، یہ ہمارے حلق سے کیسے اُترتا ہے؟۔'' ایک انتہائی معزّز شخص بار بار اﷲ کا شکر ادا کرنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور کہتے کہ ''ہم بھی تو آفت زدگان میں شامل ہوسکتے تھے، یہ اﷲ کا ہم پر کتنا بڑا کرم ہے کہ ہم لینے والوں کی قطار میں نہیں، دینے والوں میں ہیں۔''
ایک چھوٹا بچہ اپنی امی کے ساتھ آیا تھا ، بار بار امی سے کہتا رہا،''امی ڈی جی خان میں سارے انکل بھوکے ہیں، ان کا کچن اور گھر گر گیا، انھوں نے کچھ نہیں پکایا، میری ساری پاکٹ منی انھیں دے دیں۔''
پرسوں بڑی سخت گرمی اور حبس تھی جب ایک سفید پوش معزز آدمی آئے اور بڑے تپاک سے ہاتھ ملا کر بیٹھ گئے، میں نے پوچھا کہا ں سے تشریف لائے ہیں تو کہنے لگے میں شیخوپورہ سے آیا ہوں، ڈی ایچ اے میں میرے بھائی رہتے ہیں، ہم یہاں پیزاہٹ میں کھانا کھانے آئے تھے، آپ کو دیکھا تو ادھر آگیا ہوں، پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے ''سر جی! آپ کی وجہ سے شیخوپورہ میں جو بدامنی ، بدمعاشی اور ڈاکا زنی ختم ہوگئی تھی اور مکمل امن قائم ہوگیا تھا اُس پر وہاں کے لوگ اب بھی آپ کو دعائیں دیتے ہیں۔'' پھر اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہنے لگے۔
''آپ جیسے شخص کو تو وزیر ہونا چاہیے تھا، حکومت کو چاہیے تھا کہ آپ کو وزیر بناتی تاکہ آپ پورے ملک کی خدمت کرتے، آپ جیسی شخصیت اتنی گرمی میں اس کیمپ میں بیٹھی ہو، مجھے تو یہ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔'' میں نے کہا ورک صاحب! یہ کام وزارتوں سے کہیں ارفع اور افضل ہے، یہ بہت بڑا کام ہے ، ہمارے نبی آقائے دوجہاں نے فرمایا ہے کہ '' لوگوں میں سے بہترین وہ ہیں جو دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور جب تک وہ دوسروں کی مدد میں مصروف رہیں اُن پر اﷲ کی رحمت برستی رہتی ہے۔''
ورک صاحب خاموشی سے اثبات میں سرہلاتے رہے ۔ آخر میں صرف اور صرف اپنے ربّ ِ ذوالجلال سے التجا ہے کہ اپنی مخلوق پر رحم فرمائیں: رب اِنّی مغلوبُ فاَنتَصِر۔ (اے میرے رب میں بے بس ہوں بس تو ہی میری مدد فرما)
سیکڑوں لوگ امداد بھیجنے کے لیے بینک اکاؤنٹ مانگ رہے تھے اس لیے شیئر کررہاہوں۔
عسکری بینک لمیٹڈ، ظہور پلازہ پشاور روڈ، راولپنڈی
اکاؤنٹ نمبر: 00301650502873