بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملک کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کبھی کچھ نہیں ہوا
اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے سولہ کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کردی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ پاکستان مصائب و مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس تباہ کن سیلاب کے دوران ملک بھر میں گیارہ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر تباہ ' تیار فصلیں برباد اور سوا تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان میں مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا ، بیرون ملک پاکستانیوں کا ردعمل بہت اچھا ہے ، ہمیں متاثرین کو گھر بنا کر دینے پڑیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے کانجو اور سوات کے دورے پر کیا ' جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کو سیلاب اور معیشت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بات چیت کی پیش کش کی اور کہا کہ وہ ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے مل بیٹھیں۔
دوست ممالک اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے امدادی سرگرمیوں میں کیا جانے والا تعاون لائق ستائش ہے۔ ملک کے بڑے حصے پر سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام انتظامی حصے بد ترین سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ جانی و مالی نقصان میں ہوتا مسلسل اضافہ ایک طرف متاثرین کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث بن رہا ہے تو دوسری جانب اس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پریشانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
چاروں صوبوں میں سیلاب نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے حکومتی اداروں کے مطابق خصوصاً صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد یا تو عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جنم لینے والی فوری ضروریات کے پیشِ نظر حکومت نے سیلاب کے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے۔
اس وقت بہت سے زندہ بچ جانے افراد کو شکایت ہے کہ وہ اب بھی مدد کے منتظر ہیں یا سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد انھیں حکومت کی طرف سے بہت کم امداد ملی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے پاس خیمے ہیں لیکن کھانا نہیں۔ فوج کو ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
حکومتی اداروں کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بڑے پیمانے پر اشیائے خورونوش، ادویات اور خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال نمٹنے کے لیے عوام سے متاثرہ افراد کی امداد کرنے کی اپیل کی ہے۔ ملک سیلاب کی صورت میں ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ انفرااسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، مواصلات کا نظام خراب ہو چکا ہے ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں روزگار ختم ہو گیا ہے۔
مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں جس طرح جنوبی پنجاب، بلوچستان، چترال اور سوات شدید متاثر ہوئے جب کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات، جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، ان کی فصلیں سیلاب برد ہو چکی ہیں تو گھر اور مال و اسباب سے بھی وہ محروم ہو کر جگہ جگہ نان جویں کے لیے ترس رہے ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا، گھر بھی بنا کر دیں گے، ہر نقصان کا ازالہ کریں گے۔ حکم آتا ہے کہ تمام ادارے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اپنی جگہ بجا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ سیلاب کی وجوہات پر کبھی غور نہیں کرتے، اس کے تدارک کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے اور ہر سال مدد و بحالی کے نعرے لگا کر وقت گزارنے پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی حوالے سے امید فاضلی کا شعر موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔
جانے کب طوفان بنے اور رستا رستا بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملک کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کبھی کچھ نہیں ہوا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیلابوں کو روکنے کے لیے سب سے کارگر قرار پانے والے جنگلات اور درختوں کا ہماری پاک سرزمین سے تو خاتمہ ہی ہو چکا ہے۔ کسی بھی ملک کے ماحول اور معیشت کے لیے اس کے 25فیصد رقبے پر جنگلات ضرورت ہیں لیکن ہمارا ملک وہ بدقسمت خطہ ہے کہ جس میں اس وقت جنگلات محض تین فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ جنگلات بارشوں کے قدرتی نظام کو بھی بہت حد تک برقرار رکھتے اور پھر بارش پانی کو زمین میں جذب رکھ کر سیلاب کی کیفیت پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔
انھی کی وجہ سے ڈیموں کی مدت استعمال بھی بڑھتی ہے کیونکہ ڈیموں کو بھرنے والی مٹی اور ریت کو یہ پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہزارہ ، آزاد کشمیر اور دیگر پہاڑی علاقوں میں بچے کھچے معمولی سے جنگلات کا جس تیزی سے قتل ہو رہا ہے، اس کی طرف کسی کی نگاہ نہیں۔ محکمہ جنگلات کا کام جنگلات کی حفاظت اور بڑھوتری ہے لیکن یہ الٹا جنگل اسمگلرز کے ساتھ مل کر اس سبز سونے کی دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف بارش کے پانی کو سنبھالنے کے لیے جن ڈیموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں کوئی بھی بنانے کو تیار نہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے اور بارش کے پانی کو روکنے کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں تو لامحالہ یہ پانی سوائے تباہی کے ہمیں اور کیا دے سکتا ہے، اگر ہم دیگر ممالک کی طرح ڈیم بنا کر بارشوں کے پانی کو اسٹور کرنے کا کچھ انتظام کر لیں تو سیلابوں کا معاملہ کافی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اہم ترین معاملہ پانیوں کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کا سرے سے ختم ہوجانا ہے۔ دریاؤں کے پاٹ جو کسی زمانے میں کئی کئی کلومیٹر چوڑے ہوتے تھے اب ندی نالوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں کیونکہ ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے دریاؤں کے پاٹوں اور زمینوں پر وسیع قبضے جما لیے ہیں۔
بارشوں کے پانی کے بہاؤ کا جب کوئی راستہ ہی نہیں تو لامحالہ وہ آبادیوں ہی کو تاراج کرے گا۔ انگریز کے دور کے نقشے اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں مون سون کے موسم میں بارشوں کے پانی کے بہاؤ کے لیے الگ سے '' فلڈ چینلز'' کی اصطلاح ملے گی۔ زمینوں کی تقسیم میں انھیں الگ سے وسیع جگہ دی گئی لیکن اب عملی طور پر زمین پر دیکھیں تو کوئی ایک فلڈ چینل بھی نہیں ملے گا۔ پانی کی تمام قدرتی گزرگاہوں پر ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے فیکٹریاں، وسیع ہاؤسنگ کالونیاں اور کاروباری مراکز تعمیر کر لیے ہیں اور اگر کوئی جگہ بچی تو وہاں کھیت کھلیان آباد کر لیے گئے۔
یہ کام کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔ یہ سب ان با رسوخ لوگوں کا کام ہے جنھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ، پھر جب پانی کوئی راستہ نہ پا کر ہماری آبادیوں کو روندنا شروع کرتا ہے تو ہم رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ سیلاب نے تباہی مچا دی، ملک کا ستیاناس کر دیا، ہم لٹ گئے، مٹ گئے، مر گئے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
(جون ایلیا)
لیکن اس سارے عمل میں اس حوالے سے وجوہ کی طرف کوئی نظر التفات بھی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دریاؤں اور نہروں کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔ نئی نہریں بنا کر دریاؤں اور سمندر تک پہنچائی جائیں تاکہ اضافی پانی کو ان کے ذریعے سنبھالا جائے۔
متاثرین سیلاب ، منتخب نمایندوں سے سوال کر رہے ہیں۔ تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین صاحب ثروت شمار ہوتے ہیں، یہی نہیں یہ اراکین اپنے اپنے علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا ڈیٹا جمع کرنے میں مدد سکتے ہیں، ان کی ضروریات کا تعین کر سکتے ہیں اور ہنگامی مدد فراہم کر سکتے ہیں ، سر دست منتخب نمایندوں کا امدادی سرگرمیوں میں کردار نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے فراہم کی جانیوالی رقوم کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔
شفاف تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ایسا فول پروف نظام وضع کرنا پڑیگا۔ ابھی سیلاب متاثرین کی امداد' انکی بحالی اور سیلاب کے مابعد اثرات کے پیش نظر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ محض امدادی رقوم کی تقسیم کے اعلان کرنے' سیلابی علاقوں کا دورہ کرنے یا کمیٹیاں تشکیل دینے سے بات نہیں بنے گی۔ یہاں عملاً اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس نازک صورتحال میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے تمام قوم کو متحد اور یکسو ہونا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی رنگ و نسل اور نظریات کی تقسیم اس موقعے پر رکاوٹ ہرگز نہیں بننی چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ سیاسی قیادت سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں یک زبان ہورہی ہے لیکن ضرورت اس امر ہے کہ کچھ عرصے کے لیے تمام سیاسی قائدین ہر قسم کے لیے اختلافات بھلا کر صرف متاثرین کی امداد اور بحالی پر توجہ دیں۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان میں مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا ، بیرون ملک پاکستانیوں کا ردعمل بہت اچھا ہے ، ہمیں متاثرین کو گھر بنا کر دینے پڑیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے کانجو اور سوات کے دورے پر کیا ' جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کو سیلاب اور معیشت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بات چیت کی پیش کش کی اور کہا کہ وہ ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے مل بیٹھیں۔
دوست ممالک اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے امدادی سرگرمیوں میں کیا جانے والا تعاون لائق ستائش ہے۔ ملک کے بڑے حصے پر سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام انتظامی حصے بد ترین سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ جانی و مالی نقصان میں ہوتا مسلسل اضافہ ایک طرف متاثرین کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث بن رہا ہے تو دوسری جانب اس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پریشانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
چاروں صوبوں میں سیلاب نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے حکومتی اداروں کے مطابق خصوصاً صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد یا تو عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جنم لینے والی فوری ضروریات کے پیشِ نظر حکومت نے سیلاب کے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے۔
اس وقت بہت سے زندہ بچ جانے افراد کو شکایت ہے کہ وہ اب بھی مدد کے منتظر ہیں یا سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد انھیں حکومت کی طرف سے بہت کم امداد ملی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے پاس خیمے ہیں لیکن کھانا نہیں۔ فوج کو ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
حکومتی اداروں کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بڑے پیمانے پر اشیائے خورونوش، ادویات اور خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال نمٹنے کے لیے عوام سے متاثرہ افراد کی امداد کرنے کی اپیل کی ہے۔ ملک سیلاب کی صورت میں ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ انفرااسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، مواصلات کا نظام خراب ہو چکا ہے ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں روزگار ختم ہو گیا ہے۔
مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں جس طرح جنوبی پنجاب، بلوچستان، چترال اور سوات شدید متاثر ہوئے جب کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات، جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، ان کی فصلیں سیلاب برد ہو چکی ہیں تو گھر اور مال و اسباب سے بھی وہ محروم ہو کر جگہ جگہ نان جویں کے لیے ترس رہے ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا، گھر بھی بنا کر دیں گے، ہر نقصان کا ازالہ کریں گے۔ حکم آتا ہے کہ تمام ادارے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اپنی جگہ بجا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ سیلاب کی وجوہات پر کبھی غور نہیں کرتے، اس کے تدارک کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے اور ہر سال مدد و بحالی کے نعرے لگا کر وقت گزارنے پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی حوالے سے امید فاضلی کا شعر موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔
جانے کب طوفان بنے اور رستا رستا بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملک کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کبھی کچھ نہیں ہوا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیلابوں کو روکنے کے لیے سب سے کارگر قرار پانے والے جنگلات اور درختوں کا ہماری پاک سرزمین سے تو خاتمہ ہی ہو چکا ہے۔ کسی بھی ملک کے ماحول اور معیشت کے لیے اس کے 25فیصد رقبے پر جنگلات ضرورت ہیں لیکن ہمارا ملک وہ بدقسمت خطہ ہے کہ جس میں اس وقت جنگلات محض تین فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ جنگلات بارشوں کے قدرتی نظام کو بھی بہت حد تک برقرار رکھتے اور پھر بارش پانی کو زمین میں جذب رکھ کر سیلاب کی کیفیت پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔
انھی کی وجہ سے ڈیموں کی مدت استعمال بھی بڑھتی ہے کیونکہ ڈیموں کو بھرنے والی مٹی اور ریت کو یہ پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہزارہ ، آزاد کشمیر اور دیگر پہاڑی علاقوں میں بچے کھچے معمولی سے جنگلات کا جس تیزی سے قتل ہو رہا ہے، اس کی طرف کسی کی نگاہ نہیں۔ محکمہ جنگلات کا کام جنگلات کی حفاظت اور بڑھوتری ہے لیکن یہ الٹا جنگل اسمگلرز کے ساتھ مل کر اس سبز سونے کی دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف بارش کے پانی کو سنبھالنے کے لیے جن ڈیموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں کوئی بھی بنانے کو تیار نہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے اور بارش کے پانی کو روکنے کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں تو لامحالہ یہ پانی سوائے تباہی کے ہمیں اور کیا دے سکتا ہے، اگر ہم دیگر ممالک کی طرح ڈیم بنا کر بارشوں کے پانی کو اسٹور کرنے کا کچھ انتظام کر لیں تو سیلابوں کا معاملہ کافی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اہم ترین معاملہ پانیوں کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کا سرے سے ختم ہوجانا ہے۔ دریاؤں کے پاٹ جو کسی زمانے میں کئی کئی کلومیٹر چوڑے ہوتے تھے اب ندی نالوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں کیونکہ ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے دریاؤں کے پاٹوں اور زمینوں پر وسیع قبضے جما لیے ہیں۔
بارشوں کے پانی کے بہاؤ کا جب کوئی راستہ ہی نہیں تو لامحالہ وہ آبادیوں ہی کو تاراج کرے گا۔ انگریز کے دور کے نقشے اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں مون سون کے موسم میں بارشوں کے پانی کے بہاؤ کے لیے الگ سے '' فلڈ چینلز'' کی اصطلاح ملے گی۔ زمینوں کی تقسیم میں انھیں الگ سے وسیع جگہ دی گئی لیکن اب عملی طور پر زمین پر دیکھیں تو کوئی ایک فلڈ چینل بھی نہیں ملے گا۔ پانی کی تمام قدرتی گزرگاہوں پر ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے فیکٹریاں، وسیع ہاؤسنگ کالونیاں اور کاروباری مراکز تعمیر کر لیے ہیں اور اگر کوئی جگہ بچی تو وہاں کھیت کھلیان آباد کر لیے گئے۔
یہ کام کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔ یہ سب ان با رسوخ لوگوں کا کام ہے جنھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ، پھر جب پانی کوئی راستہ نہ پا کر ہماری آبادیوں کو روندنا شروع کرتا ہے تو ہم رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ سیلاب نے تباہی مچا دی، ملک کا ستیاناس کر دیا، ہم لٹ گئے، مٹ گئے، مر گئے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
(جون ایلیا)
لیکن اس سارے عمل میں اس حوالے سے وجوہ کی طرف کوئی نظر التفات بھی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دریاؤں اور نہروں کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔ نئی نہریں بنا کر دریاؤں اور سمندر تک پہنچائی جائیں تاکہ اضافی پانی کو ان کے ذریعے سنبھالا جائے۔
متاثرین سیلاب ، منتخب نمایندوں سے سوال کر رہے ہیں۔ تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین صاحب ثروت شمار ہوتے ہیں، یہی نہیں یہ اراکین اپنے اپنے علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا ڈیٹا جمع کرنے میں مدد سکتے ہیں، ان کی ضروریات کا تعین کر سکتے ہیں اور ہنگامی مدد فراہم کر سکتے ہیں ، سر دست منتخب نمایندوں کا امدادی سرگرمیوں میں کردار نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے فراہم کی جانیوالی رقوم کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔
شفاف تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ایسا فول پروف نظام وضع کرنا پڑیگا۔ ابھی سیلاب متاثرین کی امداد' انکی بحالی اور سیلاب کے مابعد اثرات کے پیش نظر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ محض امدادی رقوم کی تقسیم کے اعلان کرنے' سیلابی علاقوں کا دورہ کرنے یا کمیٹیاں تشکیل دینے سے بات نہیں بنے گی۔ یہاں عملاً اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس نازک صورتحال میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے تمام قوم کو متحد اور یکسو ہونا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی رنگ و نسل اور نظریات کی تقسیم اس موقعے پر رکاوٹ ہرگز نہیں بننی چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ سیاسی قیادت سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں یک زبان ہورہی ہے لیکن ضرورت اس امر ہے کہ کچھ عرصے کے لیے تمام سیاسی قائدین ہر قسم کے لیے اختلافات بھلا کر صرف متاثرین کی امداد اور بحالی پر توجہ دیں۔