تجدید عہد کا دن
18 مارچ ایک تاریخ ساز دن ہے، اس دن ایک عہد ساز شخصیت نے پاکستان کی روایتی جاگیردارانہ، وڈیرانہ، بے...
18 مارچ ایک تاریخ ساز دن ہے، اس دن ایک عہد ساز شخصیت نے پاکستان کی روایتی جاگیردارانہ، وڈیرانہ، بے لگام سرمایہ دارانہ اور سردارانہ سیاست پر کاری ضرب لگائی اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی۔ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ عہد ساز شخصیت الطاف حسین ہیں جو نہ تو پاکستان کے روایتی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیںاور نہ ہی کوئی سیاسی پس منظر۔ اس کے باوجود الطاف حسین نے مظلوموں، محروموں اور ظلم کا شکار عوام کے حقوق کی جدوجہد کا بیڑا اٹھایا اور عوام کے احساسات کی ترجمانی کی تو لوگ ان کے ساتھ جڑتے گئے اور ایک ایسی تنظیم نے جنم لیا جسے آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم سے قبل غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تعلیمی قابلیت، صلاحیت اور اہلیت رکھنے کے باوجود سیاست کرنا شجرممنوعہ تصور کیا جاتا تھا، سیاست کرنا اور ایوانوں کی رکنیت حاصل کرنا بڑے بڑے دولتمندوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی بلاشرکت غیرے جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ بڑی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عام کارکنان کا کام صرف جلسے میں دریاں بچھانا، جھنڈے و بینرز لگانا اور اپنے رہنماؤں کے لیے تالیاں بجانا رہ گیا تھا اور ان جماعتوں کے محنتی، ایماندار اور تعلیم یافتہ کارکنان کے لیے اپنی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں اور ایوانوں کی رکنیت کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ الطاف حسین نے سب سے پہلے میدان سیاست میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی اس اجارہ داری کو ختم کیا اور اپنی جماعت کے غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ، ایماندار اور باصلاحیت افراد کو بلدیاتی اداروں، صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کے درمیان بٹھا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی، عوام کی فلاح و بہبود اور صحیح معنوں میں جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہی الطاف حسین کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور اس جرم کی پاداش میں آج تک ایم کیوایم کو تعصب اور عصبیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے قائد تحریک الطاف حسین نے جو کردار ادا کیا ہے کہ اس کی مثال ہمیشہ دی جاتی رہے گی۔ الطاف حسین ایک سیلف میڈ سیاسی رہنما اور مظلوم عوام کے لیے عطیہ خداوندی ہیں۔ انھوں نے ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک استاد کی طرح اپنے کارکنان کی اخلاقی تربیت کی، فکری بنیادوں پر ان میں شعوری بیداری کا عمل کیا، ڈگریاں رکھنے والے کارکنان و عوام کوغربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث معاشرتی برائیوںسے محفوظ رکھنے کے لیے محنت کے کسی بھی کام سے جی نہ چرانے کا مسلسل درس دیتے رہے اور انھیں معاشرے میں اچھے انسان کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے جب مسلسل بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے باعث نوجوان طبقہ معاشرتی برائیوں میں ملوث ہورہا تھا اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان رکشہ ٹیکسی چلارہے تھے، فروٹ اور سبزی کے ٹھیلے لگا رہے تھے، گنے کا جوس بیچ کر رزق حلال کما رہے تھے اور انھیں محنت کے کسی بھی کام میں شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یہ سب الطاف حسین کی مسلسل تعلیم اور تربیت کا نتیجہ تھا لیکن جب الیکشن کے موقع پر پارٹی ٹکٹ دینے کا مسئلہ آیا تو الطاف حسین نے میرٹ کی بنیاد پر پارٹی کے محنتی اور باصلاحیت کارکنان کو ترجیح دی، رکشہ ٹیکسی چلانے والے اسمبلیوں کے رکن بن گئے اور ٹیلی فون آپریٹر کراچی کا ناظم بن گیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ان جماعتوں میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے، ہر پارٹی کے اعلیٰ عہدوں، ایوانوں کی رکنیت اور وزارت کے مناصب پر خاندانی تسلط واضح دکھائی دیتا ہے جب کہ الطاف حسین نے موروثی سیاست کے خلاف محض نعرے نہیں لگائے بلکہ نہ تو انھوں نے خود کبھی کسی الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ہی کبھی اپنے بہن بھائی، بھانجے بھتیجے کو بھی ان مراعات سے دور رکھ کرثابت کردیا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ الطاف حسین اپنے کارکنان کو تحریک کی ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دیتے ہیں اور انھوں نے اپنے ذمے داران اور منتخب نمایندوں کو ہمیشہ کارکنان و عوام کی عزت کرنے کا درس دیا ہے۔ ایم کیو ایم سے بدترین مخالفت رکھنے والے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے غریبوں کا سر اونچا کیا ہے اور پارٹی کے عام کارکنوں کو جو عزت ایم کیو ایم میں دی جاتی ہے دیگر جماعتوں میں اس کا تصور بھی نہیں ملتا۔
آج ایم کیوایم، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تسلیم کی جاتی ہے، صرف سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور گلگت میں بھی ایم کیوایم کے منتخب نمایندے موجود ہیں جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایم کیوایم کی شاخیں قائم ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل خاص طور پر تاریخ اور سیاسیات کے طالبعلموں کے لیے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ایم کیوایم کو یہ مقام راتوں رات نہیں ملا بلکہ اس عظیم الشان کامیابی کے پیچھے الطاف حسین کی 30 سالہ شب و روز مسلسل محنت و لگن اور اس کے کارکنان و عوام کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ایم کیوایم کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے آگ و خون کے کئی دریا عبورکرنے پڑے ہیں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ایم کیوایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کراچی کی مہاجر بستیوں پر منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے حملے کرائے گئے، حق پرستانہ جدوجہد کی پاداش میں سندھ کے شہری علاقوں میں گھرگھر صف ماتم بچھائی گئی، ایم کیوایم کو کچلنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ریاستی آپریشن کیے گئے، الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین سمیت ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہزاروں نے قیدوبند کی صعوبتیںبرداشت کیں اور آج تک ریاستی مظالم کا نشانہ بنائے جارہے ہیں اور ہزاروں کارکنان ریاستی ظلم وستم اور جبرواستبداد کے باعث جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن ظلم وجبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ انھیں حق پرستانہ جدوجہد اور الطاف حسین سے عقیدت و محبت سے باز نہ رکھ سکا۔ تمام تر مصائب و مشکلات، قتل و غارتگری اور منفی پروپیگنڈوں کے باوجود، روایت شکن ایم کیوایم کا طرز سیاست آج پاکستان بھر کے غریب و متوسط طبقے کے عوام کے دلوںمیں گھرکرچکا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی سلامتی و بقا، ترقی وخوشحالی، ملک سے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایم کیوایم امید کی آخری کرن ہے۔ ملک بھرکے مظلوموں کو چاہیے کہ وہ ایم کیوایم کی طرح اپنی صفوں سے ایماندار قیادتیں نکال کر ایم کیوایم کے فکروفلسفہ کو عام کریں تاکہ پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل کیا جاسکے۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے قائد تحریک الطاف حسین نے جو کردار ادا کیا ہے کہ اس کی مثال ہمیشہ دی جاتی رہے گی۔ الطاف حسین ایک سیلف میڈ سیاسی رہنما اور مظلوم عوام کے لیے عطیہ خداوندی ہیں۔ انھوں نے ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک استاد کی طرح اپنے کارکنان کی اخلاقی تربیت کی، فکری بنیادوں پر ان میں شعوری بیداری کا عمل کیا، ڈگریاں رکھنے والے کارکنان و عوام کوغربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث معاشرتی برائیوںسے محفوظ رکھنے کے لیے محنت کے کسی بھی کام سے جی نہ چرانے کا مسلسل درس دیتے رہے اور انھیں معاشرے میں اچھے انسان کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے جب مسلسل بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے باعث نوجوان طبقہ معاشرتی برائیوں میں ملوث ہورہا تھا اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان رکشہ ٹیکسی چلارہے تھے، فروٹ اور سبزی کے ٹھیلے لگا رہے تھے، گنے کا جوس بیچ کر رزق حلال کما رہے تھے اور انھیں محنت کے کسی بھی کام میں شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یہ سب الطاف حسین کی مسلسل تعلیم اور تربیت کا نتیجہ تھا لیکن جب الیکشن کے موقع پر پارٹی ٹکٹ دینے کا مسئلہ آیا تو الطاف حسین نے میرٹ کی بنیاد پر پارٹی کے محنتی اور باصلاحیت کارکنان کو ترجیح دی، رکشہ ٹیکسی چلانے والے اسمبلیوں کے رکن بن گئے اور ٹیلی فون آپریٹر کراچی کا ناظم بن گیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ان جماعتوں میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے، ہر پارٹی کے اعلیٰ عہدوں، ایوانوں کی رکنیت اور وزارت کے مناصب پر خاندانی تسلط واضح دکھائی دیتا ہے جب کہ الطاف حسین نے موروثی سیاست کے خلاف محض نعرے نہیں لگائے بلکہ نہ تو انھوں نے خود کبھی کسی الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ہی کبھی اپنے بہن بھائی، بھانجے بھتیجے کو بھی ان مراعات سے دور رکھ کرثابت کردیا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ الطاف حسین اپنے کارکنان کو تحریک کی ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دیتے ہیں اور انھوں نے اپنے ذمے داران اور منتخب نمایندوں کو ہمیشہ کارکنان و عوام کی عزت کرنے کا درس دیا ہے۔ ایم کیو ایم سے بدترین مخالفت رکھنے والے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے غریبوں کا سر اونچا کیا ہے اور پارٹی کے عام کارکنوں کو جو عزت ایم کیو ایم میں دی جاتی ہے دیگر جماعتوں میں اس کا تصور بھی نہیں ملتا۔
آج ایم کیوایم، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تسلیم کی جاتی ہے، صرف سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور گلگت میں بھی ایم کیوایم کے منتخب نمایندے موجود ہیں جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایم کیوایم کی شاخیں قائم ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل خاص طور پر تاریخ اور سیاسیات کے طالبعلموں کے لیے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ایم کیوایم کو یہ مقام راتوں رات نہیں ملا بلکہ اس عظیم الشان کامیابی کے پیچھے الطاف حسین کی 30 سالہ شب و روز مسلسل محنت و لگن اور اس کے کارکنان و عوام کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ایم کیوایم کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے آگ و خون کے کئی دریا عبورکرنے پڑے ہیں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ایم کیوایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کراچی کی مہاجر بستیوں پر منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے حملے کرائے گئے، حق پرستانہ جدوجہد کی پاداش میں سندھ کے شہری علاقوں میں گھرگھر صف ماتم بچھائی گئی، ایم کیوایم کو کچلنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ریاستی آپریشن کیے گئے، الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین سمیت ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہزاروں نے قیدوبند کی صعوبتیںبرداشت کیں اور آج تک ریاستی مظالم کا نشانہ بنائے جارہے ہیں اور ہزاروں کارکنان ریاستی ظلم وستم اور جبرواستبداد کے باعث جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن ظلم وجبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ انھیں حق پرستانہ جدوجہد اور الطاف حسین سے عقیدت و محبت سے باز نہ رکھ سکا۔ تمام تر مصائب و مشکلات، قتل و غارتگری اور منفی پروپیگنڈوں کے باوجود، روایت شکن ایم کیوایم کا طرز سیاست آج پاکستان بھر کے غریب و متوسط طبقے کے عوام کے دلوںمیں گھرکرچکا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی سلامتی و بقا، ترقی وخوشحالی، ملک سے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایم کیوایم امید کی آخری کرن ہے۔ ملک بھرکے مظلوموں کو چاہیے کہ وہ ایم کیوایم کی طرح اپنی صفوں سے ایماندار قیادتیں نکال کر ایم کیوایم کے فکروفلسفہ کو عام کریں تاکہ پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل کیا جاسکے۔