پانی نے تو اپنا راستہ بنانا ہے
سیلاب سے اب تک ایک ہزار 200 افراد مر چکے ہیں جبکہ 3 ہزار 500 کلو میٹر سڑکیں پانی کی نذر ہو چکی ہیں
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔جب بھی بادل جم کر اور کھُل کر برسے،بستیوں کی بستیاں سیلابی ریلے کی زد میں آئیں اور بے پناہ جانی،مالی اورمعاشی نقصان ہوا لیکن اس سال جتنے بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہے،اس سے پہلے اتنی تباہی بہت کم دیکھنے کو ملی۔اگر این ڈی ایم اے کے جاری اعداد و شمار کو صحیح مان لیا جائے تو اب تک ایک ہزار دو سو افراد مر چکے ہیں۔ تین ہزار پانچ سو کلو میٹر سڑکیں پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔
150کے قریب چھوٹے بڑے پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔لاکھوں ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔9لاکھ92ہزار مکانات تباہ جب کہ سات لاکھ 27 ہزار سے زیادہ مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔اب تک 1919ملین روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔بلوچستان سیلاب سے سب سے پہلے متاثر ہوا۔ بند اور ڈیم ٹوٹ گئے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے اُٹھنے والی لہروں نے راستے میں آنے والی انسانی آبادیوں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔دریائے سوات میں طغیانی کیا آئی،دریا کنارے ہوٹل اور مکانات زمین بوس ہو کر تنکوں کی طرح دریا برد ہو گئے۔
چارسدہ اور نوشہرہ کی بستیاں پانی کی بے رحم تیز لہروں کی زد میں ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ جات میں ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب میں روجھان،تونسہ ،راجن پور ،سندھ کے تیس اضلاع اور ایک تہائی بلوچستان میں ہوئی۔کراچی میں بارش نے شہر کا بڑا حصہ جزوی طور پر ڈبو دیا۔
پاکستان میں ہونے والی شدید موسلا دھار بارشیں اُن بارشوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو تھائی لینڈ سے لے کر انڈونیشیا تک کے ریجن اور دنیا کے کئی ایک مقامات پر ہوتی ہیںلیکن وہاں کبھی کوئی تباہی نہیں ہوئی۔آخر ایسا کیوں ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم یہ عزم کبھی نہیں کیا کہ اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو،حکومتی رسپانس ایک ہی طرح کا ہوتا ہے اور یہ knee jerk fire fightingیعنی وقتی طور پر آگ بجھانے والا ہوتاہے۔مستقل حل کی جانب کبھی پیش رفت ہوتی نہیں دیکھی گئی۔
ہر دور میں ریلیف فنڈ قائم کر دیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ ہوتا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ موجودہ سیلاب سے جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے اس کا صحیح اندازہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ہم تو سیاست اور ٹی وی ٹاک شوز میں مصروف ہیں۔ہمیں احساس ہی نہیں کہ کتنے شدید انسانی المیوں نے جنم لیا ہے جنھیںجان کر روح کانپ اُٹھتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122ڈاکٹر رضوان نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ایک جگہ ہم نے سیلاب میں پھنسی ایک بیوہ بوڑھی خاتونِ محترم کو نکالا جس کی کل متاع ایک بکری بھی اس کے ساتھ تھی۔ کچھ دور جا کر بکری ڈر کے مارے پانی میں گر گئی۔
بوڑھی خاتوں نے اپنے واحد اثاثے کو لہروں کی نظر ہوتے دیکھا تو اسے بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ 4گھنٹے ڈھونڈتے رہے لیکن بوڑھی خاتون ملی اور نہ ہی اس کی بکری۔بتاتے ہیں کہ ایک فیملی کو ہم نے ریسکیو کیا۔ان کی عورتوں کی دہائی سے ہمارے دل پھٹے جا رہے تھے، ان کے دو بچے سیلاب میں بہہ گئے تھے جن کی لاشیں ابھی تک نہیں ملی تھیں۔وہ وہاں سے ہٹنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔بہت منتوں،سماجتوں سے انھیں کشتی میں سوار کیا۔ایک اور جگہ سے سیلاب میں پھنسی ایک فیملی کو نکالا۔ان کا بچہ پیدا ہوا تھا۔حالات،ٹینشن اور نا مساعد حالات کے دباؤ میں آ کر بچے کی قبل از وقت ڈیلیوری ہوئی تھی اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے سے زچہ و بچہ دونوں مر گئے۔شوہر کو کشتی میں دل کا شدید دورہ پڑا۔وہ بھی اسپتال پہنچنے سے پہلے چل بسا۔اب پیچھے دو چھوٹی عمر کی یتیم بچیاں تھیں جو ابھی تک ریسکیو سینٹر میں تھیں۔
پاکستان میں بارشوں سے تباہی ہرگز نہیں آتی،یہ تباہی پچھلے ستر بہتر سال کی بیڈ گورننس اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ڈیم،بند،سڑکیں اور پل بنانے والوں اور بنوالے والوں کی بے ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلوچستان ٹھیکیدار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بننے والے ڈیموں کے اوپر کل منصوبے کی لاگت کا پچاس فی صد مختلف جیبوں میں چلا جاتا ہے اور باقی پچاس فیصد سے جس معیار کے ڈیم،پل اور سڑکیں بنتی ہیں اس میں اگر کوئی ڈیم،پل یا سڑک تیز باشوں میں کھڑی رہ جائے تو حیرت ہوتی ہے۔
میں نے 2020میں ایک کالم میں اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ اب موسمیاتی تغیر شدید ہونے جا رہا ہے جس کی پیش بندی کرنا لازم ہے۔کم از کم تین عشروں سے ماحولیاتی ماہرین گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم موسمیاتی رتھ پر سوار تیزی سے شدید ترین مشکلات کی جانب گامزن ہیں۔پاکستان میں اس سال 28فروری کو درجہ ء حرارت زیادہ اور 28جون کو اس سے کم تھا۔
موسمیاتی تغیر و تبدل اب ایک حقیقت ہے۔اس کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی از بس ضروری ہے۔ہم اپنی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی ذمے واری یہ کہہ کر اﷲ تعالیٰ پر ڈال دیتے ہیں کہ یہ اﷲ کی ناراضگی اور عذاب ہے جس سے ہمارے نااہل حکمران اور افسر مفت میں چھوٹ جاتے ہیں۔اﷲ کے عذاب کا قانوں قرآن میں واضح ہے،دوسرا اﷲ کا عذاب غریب،امیر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔کیا اﷲ کا عذاب صرف غریبوں کے لیے ہے۔نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ جنوبی پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں کوئی امیر،کوئی بڑا با اثر آدمی سیلاب کی نظر نہیں ہوا۔کسی وڈیرے زمیندار کی فصل تباہ نہیں ہوئی۔کئی عشروں کی بیڈ گورننس اور نااہلی یہ گُل کھِلا رہی ہے اور ہم ذمے واری اﷲ پرڈال رہے ہیں۔
آبادی میں بے پناہ اضافے سے کھیت کھلیان ختم ہو رہے ہیں۔ہر سبز جگہ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ابھر رہی ہیں۔ہر دریا،ندی نالے کی گزرگاہ میں ہوٹل اور مکانات کھڑے ہو گئے ہیں۔موسمیاتی تغیر و تبدل کے نتیجے میں شدید بارشیں اور قدرتی آفات متوقع ہیں۔
بارشوں کے پانی کو گزرگاہ چاہیے اور گزرگاہیں بند ہو گئی ہیں۔ملیر ندی،دریائے کابل اور دریائے سوات کے کنارے آبادیاں کیوں پانی میں ڈوب رہی ہیں۔اس لیے کیونکہ پانی کے راستے میں مکان کھڑے ہیں۔ بلوچستان میں ناقص تعمیرات کی وجہ سے ڈیم ٹوٹیں گے تو پانی نے تو اپنا راستہ بنانا ہے۔پانی کے قدرتی راستے میں جو کچھ بھی آئے گا خش وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔اﷲکرے ہم اپنی نا اہلی ،ناقص منصوبہ بندی اور بیڈ گورننس پر پردہ ڈالنے کے بجائے کچھ ٹھیک کر لیں۔
150کے قریب چھوٹے بڑے پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔لاکھوں ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔9لاکھ92ہزار مکانات تباہ جب کہ سات لاکھ 27 ہزار سے زیادہ مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔اب تک 1919ملین روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔بلوچستان سیلاب سے سب سے پہلے متاثر ہوا۔ بند اور ڈیم ٹوٹ گئے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے اُٹھنے والی لہروں نے راستے میں آنے والی انسانی آبادیوں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔دریائے سوات میں طغیانی کیا آئی،دریا کنارے ہوٹل اور مکانات زمین بوس ہو کر تنکوں کی طرح دریا برد ہو گئے۔
چارسدہ اور نوشہرہ کی بستیاں پانی کی بے رحم تیز لہروں کی زد میں ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ جات میں ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب میں روجھان،تونسہ ،راجن پور ،سندھ کے تیس اضلاع اور ایک تہائی بلوچستان میں ہوئی۔کراچی میں بارش نے شہر کا بڑا حصہ جزوی طور پر ڈبو دیا۔
پاکستان میں ہونے والی شدید موسلا دھار بارشیں اُن بارشوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو تھائی لینڈ سے لے کر انڈونیشیا تک کے ریجن اور دنیا کے کئی ایک مقامات پر ہوتی ہیںلیکن وہاں کبھی کوئی تباہی نہیں ہوئی۔آخر ایسا کیوں ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم یہ عزم کبھی نہیں کیا کہ اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو،حکومتی رسپانس ایک ہی طرح کا ہوتا ہے اور یہ knee jerk fire fightingیعنی وقتی طور پر آگ بجھانے والا ہوتاہے۔مستقل حل کی جانب کبھی پیش رفت ہوتی نہیں دیکھی گئی۔
ہر دور میں ریلیف فنڈ قائم کر دیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ ہوتا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ موجودہ سیلاب سے جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے اس کا صحیح اندازہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ہم تو سیاست اور ٹی وی ٹاک شوز میں مصروف ہیں۔ہمیں احساس ہی نہیں کہ کتنے شدید انسانی المیوں نے جنم لیا ہے جنھیںجان کر روح کانپ اُٹھتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122ڈاکٹر رضوان نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ایک جگہ ہم نے سیلاب میں پھنسی ایک بیوہ بوڑھی خاتونِ محترم کو نکالا جس کی کل متاع ایک بکری بھی اس کے ساتھ تھی۔ کچھ دور جا کر بکری ڈر کے مارے پانی میں گر گئی۔
بوڑھی خاتوں نے اپنے واحد اثاثے کو لہروں کی نظر ہوتے دیکھا تو اسے بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ 4گھنٹے ڈھونڈتے رہے لیکن بوڑھی خاتون ملی اور نہ ہی اس کی بکری۔بتاتے ہیں کہ ایک فیملی کو ہم نے ریسکیو کیا۔ان کی عورتوں کی دہائی سے ہمارے دل پھٹے جا رہے تھے، ان کے دو بچے سیلاب میں بہہ گئے تھے جن کی لاشیں ابھی تک نہیں ملی تھیں۔وہ وہاں سے ہٹنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔بہت منتوں،سماجتوں سے انھیں کشتی میں سوار کیا۔ایک اور جگہ سے سیلاب میں پھنسی ایک فیملی کو نکالا۔ان کا بچہ پیدا ہوا تھا۔حالات،ٹینشن اور نا مساعد حالات کے دباؤ میں آ کر بچے کی قبل از وقت ڈیلیوری ہوئی تھی اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے سے زچہ و بچہ دونوں مر گئے۔شوہر کو کشتی میں دل کا شدید دورہ پڑا۔وہ بھی اسپتال پہنچنے سے پہلے چل بسا۔اب پیچھے دو چھوٹی عمر کی یتیم بچیاں تھیں جو ابھی تک ریسکیو سینٹر میں تھیں۔
پاکستان میں بارشوں سے تباہی ہرگز نہیں آتی،یہ تباہی پچھلے ستر بہتر سال کی بیڈ گورننس اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ڈیم،بند،سڑکیں اور پل بنانے والوں اور بنوالے والوں کی بے ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلوچستان ٹھیکیدار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بننے والے ڈیموں کے اوپر کل منصوبے کی لاگت کا پچاس فی صد مختلف جیبوں میں چلا جاتا ہے اور باقی پچاس فیصد سے جس معیار کے ڈیم،پل اور سڑکیں بنتی ہیں اس میں اگر کوئی ڈیم،پل یا سڑک تیز باشوں میں کھڑی رہ جائے تو حیرت ہوتی ہے۔
میں نے 2020میں ایک کالم میں اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ اب موسمیاتی تغیر شدید ہونے جا رہا ہے جس کی پیش بندی کرنا لازم ہے۔کم از کم تین عشروں سے ماحولیاتی ماہرین گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم موسمیاتی رتھ پر سوار تیزی سے شدید ترین مشکلات کی جانب گامزن ہیں۔پاکستان میں اس سال 28فروری کو درجہ ء حرارت زیادہ اور 28جون کو اس سے کم تھا۔
موسمیاتی تغیر و تبدل اب ایک حقیقت ہے۔اس کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی از بس ضروری ہے۔ہم اپنی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی ذمے واری یہ کہہ کر اﷲ تعالیٰ پر ڈال دیتے ہیں کہ یہ اﷲ کی ناراضگی اور عذاب ہے جس سے ہمارے نااہل حکمران اور افسر مفت میں چھوٹ جاتے ہیں۔اﷲ کے عذاب کا قانوں قرآن میں واضح ہے،دوسرا اﷲ کا عذاب غریب،امیر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔کیا اﷲ کا عذاب صرف غریبوں کے لیے ہے۔نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ جنوبی پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں کوئی امیر،کوئی بڑا با اثر آدمی سیلاب کی نظر نہیں ہوا۔کسی وڈیرے زمیندار کی فصل تباہ نہیں ہوئی۔کئی عشروں کی بیڈ گورننس اور نااہلی یہ گُل کھِلا رہی ہے اور ہم ذمے واری اﷲ پرڈال رہے ہیں۔
آبادی میں بے پناہ اضافے سے کھیت کھلیان ختم ہو رہے ہیں۔ہر سبز جگہ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ابھر رہی ہیں۔ہر دریا،ندی نالے کی گزرگاہ میں ہوٹل اور مکانات کھڑے ہو گئے ہیں۔موسمیاتی تغیر و تبدل کے نتیجے میں شدید بارشیں اور قدرتی آفات متوقع ہیں۔
بارشوں کے پانی کو گزرگاہ چاہیے اور گزرگاہیں بند ہو گئی ہیں۔ملیر ندی،دریائے کابل اور دریائے سوات کے کنارے آبادیاں کیوں پانی میں ڈوب رہی ہیں۔اس لیے کیونکہ پانی کے راستے میں مکان کھڑے ہیں۔ بلوچستان میں ناقص تعمیرات کی وجہ سے ڈیم ٹوٹیں گے تو پانی نے تو اپنا راستہ بنانا ہے۔پانی کے قدرتی راستے میں جو کچھ بھی آئے گا خش وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔اﷲکرے ہم اپنی نا اہلی ،ناقص منصوبہ بندی اور بیڈ گورننس پر پردہ ڈالنے کے بجائے کچھ ٹھیک کر لیں۔