ڈیفالٹ بچاؤ کے بعد
محکمہ موسمیات نے خبردارکیا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں نارمل سے زیادہ بارشیں ہوں گی
عجیب زمانہ دیکھنا پڑ رہا ہے کہ قرض کی بحالی پر بھی مبارک سلامت دینے کا رواج چل نکلا ہے۔ حکومت وقت کریڈٹ لے رہی ہے کہ یہ ہم ہی تھے جو بچا پائے ورنہ ملک ڈیفالٹ کر چکا تھا۔ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے، اچھا تو نہیں لگا ، ان فیصلوں کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑی لیکن ہم نے جو وعدے قوم اور آئی ایم ایف سے کیے، پورے کرکے دکھا دیے، قوم مطمئن رہے، آگے چل کر اب معاشی استحکام آئے گا، مہنگائی کنٹرول کرکے دکھائیں گے۔
آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے تمام پیشگی اقدامات کے بعد اسٹاف لیول رضامندی ہو چکی تھی۔ تاہم معمول کی کارروائی کے طور پر آئی ایم ایف کے بورڈ کی رسمی منظوری باقی تھی لیکن اس بار یہ رسمی کارروائی بھی کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ بورڈ میٹنگ والے دن ایک آڈیو لیک ہوئی جو میڈیا اسکرین اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہر ذہن پر سوار ہو گئی؛ اب پروگرام بحالی کا کیا بنے گا؟
میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کی مالیاتی ٹیم کے تیسرے ٹیم لیڈر شوکت ترین پنجاب اور کے پی میں اپنی پارٹی کے وزرائے خزانہ کو ہدایات دیتے سنے گئے کہ آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کے سلسلے میں صوبائی سرپلس وفاق کو دینے کی کمٹمنٹ کی ہے ، اب ایک لیٹر لکھیں کہ سیلاب نے بیڑہ غرق کردیا ہے لہٰذا ہم وہ کمٹمنٹ پوری نہیں کر سکتے۔ کال لیک ہونے پر وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتدائی اگر مگر کے بعد البتہ خم ٹھونک کر یہی وضاحت آئی کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔جاننے والے البتہ اسی روز مشورہ دے رہے تھے کہ زیادہ ہائیپر ہونے کی ضرورت نہیں، یہ معاہدہ ریاست کے ساتھ ہوا ہے اور اس کی منظوری کی رسم بھی پوری ہو جائے گی اور اسی شب یہ رسمی منظوری ہو بھی گئی۔
مالیاتی سیکٹر نے سکھ کا سانس لیا۔ انٹر بینک میں روپے کی لڑکھڑاہٹ رکی ۔اسٹاک ایکسچینج نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ امپورٹرز کی جان میں جان آئی۔ تاہم بہت سے ماہرین جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ پروگرام بحالی کے بعد روپے ڈالر کی شرح مبادلہ دو سو روپے سے نیچے بھی آ سکتی ہے۔
ان کی توقع پوری نہیں ہوئی۔ کیوں؟ بہت سی وجوہات ہیں؛ ماہانہ ٹریڈ خسارہ، مہنگائی اور آنے والے چند مہینوں میں ادائیگیوں کا بوجھ، امپورٹرز کی امپورٹ منظوری کی منتظر طویل فہرستیں وغیرہ وغیرہ۔اس سارے منظر نامے میں ایک اور ان چاہا رخنہ در آیا ہے، سیلاب کی وسیع علاقے میں تباہ کاریوں کی وجہ سے معاشی اور پیداواری عمل میں رخنہ اندازی اور نقصان کی وجہ سے جی ڈی پی میں نمو کی شرح پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ فصلوں اور جانوروں کی تباہی کے اثرات دیہی و شہری علاقوں کی معیشت پر تباہ کن ہوں گے۔
انڈسٹری کی رونقیں بھی زراعت سے جڑی سپلائی چین پر منحصر ہیں، ٹیکسٹائل، لیدر، چاول سمیت بہت سی انڈسٹری ملکی اور ایکسپورٹ کے لیے اسی سپائی چین کی محتاج ہے۔ کپاس کی فصل پہلے ہی سالہا سال سے کمزور سے کمزور تر رہی ہے ، حالیہ تباہی کے بعد انڈسٹری کومزید امپورٹس پر تکیہ کرنا پڑے گا، اسی طرح لیدر اور لیدر پراڈکٹس کو بھی جانوروں کی تباہی کی وجہ سے خام مال کی قلت اور انتہائی زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عام صارفین کو آٹا ، چاول، دالوں، سبزیوں اور پھلوں سمیت گوشت کی قیمتوں میں ٹھیک ٹھاک اضافے کا سامنا ہوگا۔
رہی سہی کسر تیل کی قیمتوں ، بجلی اور گیس کے بلوں میں مسلسل اضافے نے پوری کر دی ہے۔ عام آدمی پہلے ہی مشکل میں تھا مگر اب تو مشکلات کا ایک طویل سلسلہ سر کرنے کی آفت سامنے ہے ۔ زیادہ دور کی کوڑی لانے کی کیا حاجت ہے، آج ہی کی کچھ معاشی خبریں آنے والے دنوں کے خدو خال واضح کرنے کو بہت ہیں؛ اگست کے مہینے میں مہنگائی نے 27% کی چھلانگ لگائی ۔ ماہانہ تقابل کے اعتبار سے اس قدر بڑی چھلانگ 49 سال بعد لگی ہے۔ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں کو لگام ڈالنے کے لیے حکومت نے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات پر دسمبر تک ٹیکسز کی چھوٹ دے دی ہے۔ بلبلاتے عوام کے زخموں پر کچھ پھاہا رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے 300 یونٹس بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔
پچھلی بارشوں کا ملبہ ابھی سنبھالا نہیں گیا کہ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں نارمل سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ بجلی کے ٹیرف میں چار روپے سے زائد کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اس پندرواڑے کے آغاز پر ملکی صارفین کے لیے قیمتیں بڑھا دی گئیں۔
حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب معیشت کو لگنے والے زخم سینے کے لیے آئی ایم ایف سے ایک مزید قرض کے بارے میں سوچ بچار شروع کر دی ہے ۔ اس دوران ناں ناں کرتے بھی اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 113 ملین ڈالرز کی کمی کے بعد اب ذخائر کا حجم فقط ساڑھے سات ارب ڈالرز کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ۔ مفتاح اسماعیل اب بھی پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی فراغت کے بعد وہ مہنگائی کو سمجھا بجھا اور پچکار کر 15% تک لے آئیں گے۔ ان کے اس ارادے پر یقین کرنے کو جی تو چاہتا ہے مگر معروف شاعر انور مسعود کا سا مخمصہ درپیش ہے ؛
ٹاہلی ہیٹھاں ملنے دا وعدہ اوہنے کیتا سی
ٹاہلی جتھے دسی ساسو اوتھے تے کھجور اے
ایدھے وچ دسو میرا کیہ قصور اے!
ہم مفتاح اسماعیل کے کہنے پر چل تو پڑیں مگر ڈر یہی ہے کہ شاعر کی طرح جہاں وہ استحکامی شیشم کے درخت کی نشانی بتا رہے ہیں وہاں پہنچ کر کھجور کا سامنا کرنا پڑا تو کیا کریں گے؟
آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے تمام پیشگی اقدامات کے بعد اسٹاف لیول رضامندی ہو چکی تھی۔ تاہم معمول کی کارروائی کے طور پر آئی ایم ایف کے بورڈ کی رسمی منظوری باقی تھی لیکن اس بار یہ رسمی کارروائی بھی کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ بورڈ میٹنگ والے دن ایک آڈیو لیک ہوئی جو میڈیا اسکرین اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہر ذہن پر سوار ہو گئی؛ اب پروگرام بحالی کا کیا بنے گا؟
میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کی مالیاتی ٹیم کے تیسرے ٹیم لیڈر شوکت ترین پنجاب اور کے پی میں اپنی پارٹی کے وزرائے خزانہ کو ہدایات دیتے سنے گئے کہ آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کے سلسلے میں صوبائی سرپلس وفاق کو دینے کی کمٹمنٹ کی ہے ، اب ایک لیٹر لکھیں کہ سیلاب نے بیڑہ غرق کردیا ہے لہٰذا ہم وہ کمٹمنٹ پوری نہیں کر سکتے۔ کال لیک ہونے پر وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتدائی اگر مگر کے بعد البتہ خم ٹھونک کر یہی وضاحت آئی کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔جاننے والے البتہ اسی روز مشورہ دے رہے تھے کہ زیادہ ہائیپر ہونے کی ضرورت نہیں، یہ معاہدہ ریاست کے ساتھ ہوا ہے اور اس کی منظوری کی رسم بھی پوری ہو جائے گی اور اسی شب یہ رسمی منظوری ہو بھی گئی۔
مالیاتی سیکٹر نے سکھ کا سانس لیا۔ انٹر بینک میں روپے کی لڑکھڑاہٹ رکی ۔اسٹاک ایکسچینج نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ امپورٹرز کی جان میں جان آئی۔ تاہم بہت سے ماہرین جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ پروگرام بحالی کے بعد روپے ڈالر کی شرح مبادلہ دو سو روپے سے نیچے بھی آ سکتی ہے۔
ان کی توقع پوری نہیں ہوئی۔ کیوں؟ بہت سی وجوہات ہیں؛ ماہانہ ٹریڈ خسارہ، مہنگائی اور آنے والے چند مہینوں میں ادائیگیوں کا بوجھ، امپورٹرز کی امپورٹ منظوری کی منتظر طویل فہرستیں وغیرہ وغیرہ۔اس سارے منظر نامے میں ایک اور ان چاہا رخنہ در آیا ہے، سیلاب کی وسیع علاقے میں تباہ کاریوں کی وجہ سے معاشی اور پیداواری عمل میں رخنہ اندازی اور نقصان کی وجہ سے جی ڈی پی میں نمو کی شرح پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ فصلوں اور جانوروں کی تباہی کے اثرات دیہی و شہری علاقوں کی معیشت پر تباہ کن ہوں گے۔
انڈسٹری کی رونقیں بھی زراعت سے جڑی سپلائی چین پر منحصر ہیں، ٹیکسٹائل، لیدر، چاول سمیت بہت سی انڈسٹری ملکی اور ایکسپورٹ کے لیے اسی سپائی چین کی محتاج ہے۔ کپاس کی فصل پہلے ہی سالہا سال سے کمزور سے کمزور تر رہی ہے ، حالیہ تباہی کے بعد انڈسٹری کومزید امپورٹس پر تکیہ کرنا پڑے گا، اسی طرح لیدر اور لیدر پراڈکٹس کو بھی جانوروں کی تباہی کی وجہ سے خام مال کی قلت اور انتہائی زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عام صارفین کو آٹا ، چاول، دالوں، سبزیوں اور پھلوں سمیت گوشت کی قیمتوں میں ٹھیک ٹھاک اضافے کا سامنا ہوگا۔
رہی سہی کسر تیل کی قیمتوں ، بجلی اور گیس کے بلوں میں مسلسل اضافے نے پوری کر دی ہے۔ عام آدمی پہلے ہی مشکل میں تھا مگر اب تو مشکلات کا ایک طویل سلسلہ سر کرنے کی آفت سامنے ہے ۔ زیادہ دور کی کوڑی لانے کی کیا حاجت ہے، آج ہی کی کچھ معاشی خبریں آنے والے دنوں کے خدو خال واضح کرنے کو بہت ہیں؛ اگست کے مہینے میں مہنگائی نے 27% کی چھلانگ لگائی ۔ ماہانہ تقابل کے اعتبار سے اس قدر بڑی چھلانگ 49 سال بعد لگی ہے۔ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں کو لگام ڈالنے کے لیے حکومت نے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات پر دسمبر تک ٹیکسز کی چھوٹ دے دی ہے۔ بلبلاتے عوام کے زخموں پر کچھ پھاہا رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے 300 یونٹس بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔
پچھلی بارشوں کا ملبہ ابھی سنبھالا نہیں گیا کہ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں نارمل سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ بجلی کے ٹیرف میں چار روپے سے زائد کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اس پندرواڑے کے آغاز پر ملکی صارفین کے لیے قیمتیں بڑھا دی گئیں۔
حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب معیشت کو لگنے والے زخم سینے کے لیے آئی ایم ایف سے ایک مزید قرض کے بارے میں سوچ بچار شروع کر دی ہے ۔ اس دوران ناں ناں کرتے بھی اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 113 ملین ڈالرز کی کمی کے بعد اب ذخائر کا حجم فقط ساڑھے سات ارب ڈالرز کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ۔ مفتاح اسماعیل اب بھی پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی فراغت کے بعد وہ مہنگائی کو سمجھا بجھا اور پچکار کر 15% تک لے آئیں گے۔ ان کے اس ارادے پر یقین کرنے کو جی تو چاہتا ہے مگر معروف شاعر انور مسعود کا سا مخمصہ درپیش ہے ؛
ٹاہلی ہیٹھاں ملنے دا وعدہ اوہنے کیتا سی
ٹاہلی جتھے دسی ساسو اوتھے تے کھجور اے
ایدھے وچ دسو میرا کیہ قصور اے!
ہم مفتاح اسماعیل کے کہنے پر چل تو پڑیں مگر ڈر یہی ہے کہ شاعر کی طرح جہاں وہ استحکامی شیشم کے درخت کی نشانی بتا رہے ہیں وہاں پہنچ کر کھجور کا سامنا کرنا پڑا تو کیا کریں گے؟