لاپتہ افراد آئی ایس آئی ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان سے جواب طلبی
سستی کی جاتی رہی تو مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا، روایتی طریقوں کے بجائے ای میل و جدید طریقے استعمال کیے جائیںِ
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سید فاروق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے متعدد لاپتا افراد کے اہل خانہ کی جانب سے دائر درخواستوں پر آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان سے جواب طلب کرلیا ہے۔
رینجرز کے خلاف عوام کی شکایات حل کرنے کے لیے فاضل بینچ نے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سطح پر ان شکایات کے ازالے کے لیے کوئی میکنزم وضع کریں تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بحال ہوسکے۔ فاضل بینچ نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کیلیے بیرون شہر جانے کی اجازت دینے میں تاخیر پر سیکریٹری داخلہ پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اگر اس طرح کی سُستی کی جاتی رہی تو لاپتا افراد کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ بیرون شہر ملزمان کو گرفتار کرنے کیلیے پولیس کو سہولتیں فراہم کی جائیں، عدالت نے پولیس کے تفتیشی افسران کی کارکردگی کو مایوس کن قرادیتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ تفتیشی افسران کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
عدالت نے پولیس افسران کو ہدایت کی کہ متعلقہ حکام سے رابطے کیلیے روایتی طریقہ کارکو ترک کرکے ای میل نظام اپنایا جائے۔ عدالت نے آبزروکیا کہ پولیس افسران کی جانب سے متعلقہ حکام سے رابطے کیلیے روایتی طریقۂ کار اختیارکیاجاتا ہے جس سے مہینے گزرجاتے ہیں۔ فاضل عدالت نے جمعرات کو 40 سے زائد لاپتا افراد کے اہل خانہ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اشرف مغل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میران محمد شاہ اور رینجرزافسران پیش ہوئے۔ درخواست گزار ضیاء اقبال کے وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ نے عدالت کوبتایا کہ درخواست گزار کا بھائی ظفراقبال2011ء سے لاپتا ہے اسے بریگیڈیئر ہُدیٰ اور کرنل گلستان سمیت دیگر نے گرفتار کیا ہے۔
متعلقہ پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملیر کینٹ میں متعلقہ فوجی افسران سے ملاقات کی ہے، ملنے والی معلومات کے مطابق بریگیڈیئر ہُدیٰ مارچ2008ء میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے جبکہ کرنل گلستان کی یہاں کبھی پوسٹنگ نہیں رہی۔ عدالت کے استفسار پر پولیس افسر یہ بتانے سے قاصر رہا کہ کس فوجی افسر سے اسے یہ معلومات ملی ہیں۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ مذکورہ فوجی افسران کا حلف نامہ جمع کرایا جائے بصورت دیگر کمانڈنگ افسر ملیرکینٹ کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔ درخواست گزار مسماۃ امینہ بتول کے وکیل سید عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزرا کے شوہر اجمل وحید اور دیور اسامہ وحید کو اسلام آباد سے کراچی آمد پر ائیرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ڈی ایس پی ملیرچوہدری سیف اللہ نے اپنے کمنٹس میں عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کیلیے اخبار میں اشتہار شائع کرانے کیلیے درخواست محکمہ اطلاعات کو بھیج دی گئی اور ان کی بازیابی کیلیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ موبائل فون کمپنیز سے ڈیٹا حاصل کرنے کیلیے ڈی آئی جیزکو فوکل پرسن مقررکرنے کے بھی مثبت نتائج نہیں آرہے، ایسامحسوس ہوتا ہے کہ یہ نظام بھی کام نہیں کررہا، ایس ایچ او سعیدآباد نے بتایا کہ درخواست گزار ریاض احمد کا بھائی طاہر نیازی ان کی حراست میں نہیں، عدالت نے وکالت بی بی کی درخواست پر ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی رینجرز سندھ، ایس ایس پی سی آئی ڈی اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتاافراد کی بازیابی کیلیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت27ستمبر ملتوی کردی۔
رینجرز کے خلاف عوام کی شکایات حل کرنے کے لیے فاضل بینچ نے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سطح پر ان شکایات کے ازالے کے لیے کوئی میکنزم وضع کریں تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بحال ہوسکے۔ فاضل بینچ نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کیلیے بیرون شہر جانے کی اجازت دینے میں تاخیر پر سیکریٹری داخلہ پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اگر اس طرح کی سُستی کی جاتی رہی تو لاپتا افراد کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ بیرون شہر ملزمان کو گرفتار کرنے کیلیے پولیس کو سہولتیں فراہم کی جائیں، عدالت نے پولیس کے تفتیشی افسران کی کارکردگی کو مایوس کن قرادیتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ تفتیشی افسران کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
عدالت نے پولیس افسران کو ہدایت کی کہ متعلقہ حکام سے رابطے کیلیے روایتی طریقہ کارکو ترک کرکے ای میل نظام اپنایا جائے۔ عدالت نے آبزروکیا کہ پولیس افسران کی جانب سے متعلقہ حکام سے رابطے کیلیے روایتی طریقۂ کار اختیارکیاجاتا ہے جس سے مہینے گزرجاتے ہیں۔ فاضل عدالت نے جمعرات کو 40 سے زائد لاپتا افراد کے اہل خانہ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اشرف مغل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میران محمد شاہ اور رینجرزافسران پیش ہوئے۔ درخواست گزار ضیاء اقبال کے وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ نے عدالت کوبتایا کہ درخواست گزار کا بھائی ظفراقبال2011ء سے لاپتا ہے اسے بریگیڈیئر ہُدیٰ اور کرنل گلستان سمیت دیگر نے گرفتار کیا ہے۔
متعلقہ پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملیر کینٹ میں متعلقہ فوجی افسران سے ملاقات کی ہے، ملنے والی معلومات کے مطابق بریگیڈیئر ہُدیٰ مارچ2008ء میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے جبکہ کرنل گلستان کی یہاں کبھی پوسٹنگ نہیں رہی۔ عدالت کے استفسار پر پولیس افسر یہ بتانے سے قاصر رہا کہ کس فوجی افسر سے اسے یہ معلومات ملی ہیں۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ مذکورہ فوجی افسران کا حلف نامہ جمع کرایا جائے بصورت دیگر کمانڈنگ افسر ملیرکینٹ کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔ درخواست گزار مسماۃ امینہ بتول کے وکیل سید عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزرا کے شوہر اجمل وحید اور دیور اسامہ وحید کو اسلام آباد سے کراچی آمد پر ائیرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ڈی ایس پی ملیرچوہدری سیف اللہ نے اپنے کمنٹس میں عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کیلیے اخبار میں اشتہار شائع کرانے کیلیے درخواست محکمہ اطلاعات کو بھیج دی گئی اور ان کی بازیابی کیلیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ موبائل فون کمپنیز سے ڈیٹا حاصل کرنے کیلیے ڈی آئی جیزکو فوکل پرسن مقررکرنے کے بھی مثبت نتائج نہیں آرہے، ایسامحسوس ہوتا ہے کہ یہ نظام بھی کام نہیں کررہا، ایس ایچ او سعیدآباد نے بتایا کہ درخواست گزار ریاض احمد کا بھائی طاہر نیازی ان کی حراست میں نہیں، عدالت نے وکالت بی بی کی درخواست پر ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی رینجرز سندھ، ایس ایس پی سی آئی ڈی اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتاافراد کی بازیابی کیلیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت27ستمبر ملتوی کردی۔