اسلام میں کفایت شعاری کا حکم اور ایندھن کی بچت
اسلام ہمیں وسائل کو احتیاط سے کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کی ترغیب دیتا ہے
دین اسلام اور مغرب کی تعلیمات میں فرق ہے کہ مغرب کھپت کو بڑھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کو ترجیح دیتا ہے جبکہ اسلام میں منافع کے بجائے وسائل کے درست اور ٹھیک استعمال کی تعلیم ہے۔ اسی لیے مغرب میں اگر فصل اچھی ہوجائے تو وہ اپنے ہی ملک کے بھوکے اور غریبوں کو دینے کے بجائے اس کو ضائع کردیتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں طلب و رسد میں فرق اس قدر برقرار رہے کہ وہ اپنے منافع کو بڑھا سکیں، مگر اسلام میں نہ تو بے تحاشا خرچ اور اسراف کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ اس قدر بچت کہ انسان خود ہی محتاج ہوجائے۔
کفایت شعاری اور وسائل کے بہترین استعمال کےلیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اور نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا (۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا (۲۷)
ترجمہ: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل، آیت 27)
اوپر بیان کی گئی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ فضول خرچی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ نہ تو کنجوسی کرو اور نہ ہی بے پناہ خرچہ، بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ''جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مال دار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کردیتا ہے۔ (مسند البزار، 161/3، حدیث946)
ایک اور موقع پر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وضو میں اسراف سے گریز کرو چاہے بہتی ندی ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام ہمیں وسائل کو احتیاط سے کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کی ترغیب دیتا ہے۔ ان دنوں پاکستان میں توانائی کی شدید قلت ہے اور پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ایندھن بیرون ملک سے خرید سکے۔ ایسے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ملک بھر کے ماہرین توانائی نے ایک مکتوب حکومت کو تحریر کیا ہے جس میں توانائی کے شعبےمیں موجود مسائل کو اجا گر کیا گیا ہے۔ اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ ملکی معیشت، ملکی سلامتی کےلیے خطرہ بن گیا ہے۔ پاکستان کو درآمدات میں ایندھن پر اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان نے 26 ارب ڈالر مالیت کا ایندھن (آر ایل این جی، سیال ایندھن اور کوئلہ) درآمد کیا ہے۔ توانائی کے شعبے بجلی اور گیس میں مجموعی گردشی قرضہ 3200 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ مارچ 2022 سے جون 2022 کے درمیان آر ایل این جی کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فرنس آئل کی قیمت میں مارچ 2022 سے جون 2022 تک 42 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ سی پی پی اے جی سے خریدی گئی بجلی کی قیمت میں مارچ 2022 سے جون 2022 تک 74 فیصد اضافہ ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ مہنگے ایندھن کو خریدنے کےلیے حکومت کے پاس نہ تو ڈالر ہیں اور نہ ہی اس سے بنی بجلی عوام خریدنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے مہنگے ایندھن پر چلنے والے بجلی گھروں کو فی الحال بند کیا ہوا ہے تاکہ ایندھن کی بچت سے قیمتی زرمبادلہ بچا سکیں۔
ایک طرف ہم پاکستانی اپنی عیاشیوں اور دکھاوے کےلیے ایندھن کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ تو دوسری طرف ہماری حکومت کو دوست ملکوں، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر قرض دینے والے اداروں سے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایندھن میں بچت ہی سے ہم اپنے موجودہ مسائل کو قابو میں کرسکتے ہیں۔ اگر ایندھن کے استعمال میں 5 فیصد بچت کی جائے تو درآمدی بل میں 12 فیصد یعنی 3 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ یعنی جس رقم کےلیے ہم آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں، اس سے دگنی رقم صرف پانچ فیصد ایندھن (پٹرولیم، گیس اور بجلی) کی بچت کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ایندھن اور بجلی کی بچت کےلیے دن کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو فروغ دیا جائے اور گھڑی کو سورج کے طلوع اور غروب کے حوالے سے ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔ شاپنگ سینٹرز کو شام 7 بجے بند کردیا جائے، جبکہ شادی ہالز اور ریسٹورینٹس کو رات 10 تک بند کرنے، بینکوں کے اوقات کار کم کرکے 2 بجے بند کرنے جبکہ نجی اور سرکاری دفاتر کو لازمی طور پر شام 5 بجے بند کیا جائے۔ اسکولوں میں ایک دن کی تعلیم کم کرکے یومیہ ایک گھنٹہ دورانیہ بڑھا دیا جائے، دفاتر اور گھروں میں ایئرکنڈیشنر 26 گریڈ پر مقرر کیا جائے۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھی ہر کمرے میں ایئر کنڈیشن چلانے کے بجائے گھر والے ایک ہی کمرے کے ایئرکنڈیشن میں گزارا کریں۔ گھر میں غیر ضروری لائٹس جلانے سے گریز کریں اور جس کمرے میں کوئی فرد موجود نہ ہو ایئرکنڈیشن، پنکھا اور ایل ای ڈی بند رکھیں۔ اگر ٹی وی نہیں دیکھ رہے تو اس کو سوئچ سے بند کریں کیونکہ اسٹینڈ بائی پر بھی ٹی وی بجلی خرچ کررہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹوسٹر، مائیکرو ویو اون، سیل فون چارجرز کے پلگ نکال کر رکھیں اور انہیں بھی اسٹینڈ بائی نہ رہنے دیں۔ آپ کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بجلی کی بڑی بچت ہوسکتی ہے۔
ایندھن خصوصاً بجلی کی بچت کرکے ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات کو کم کرسکتے ہیں۔ اپنی تحریر کا اختتام حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کفایت شعاری اور سخاوت پر مبنی قصے سے کروں گا۔
ایک حاجت مند حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر غروب آفتاب کے بعد آیا۔ ابھی اس نے دستک نہ دی تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ اپنی اہلیہ سے شکایت کررہے تھے کہ ''چراغ کی بتی موٹی ہے جو تیل زیادہ استعمال کرنے کا باعث بن رہی ہے۔'' حاجت مند نے جو سنا تو وہ سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ ایسے شخص سے حاجت برآری کی کیا توقع کرے، جو تیل کے معمول سے زیادہ خرچ پر سرزنش کررہا ہے۔ حاجت مند نے ہچکچاتے ہوئے دستک دی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے باہر آنے پر مدد کی اپیل کی، جس پر صحابی رسول ﷺ نے اس کی حاجت سے زائد عطا کردیا۔
اس شخص نے کہا ''اے حضرت! ایک بات بتائیے، چراغ کی بتی قدرے موٹی ہوجانے پر آپ اپنی زوجہ محترمہ کو سرزنش کررہے تھے حالانکہ چراغ اس قدر روشنی رکھنے میں شاید صرف ایک درہم کا تیل استعمال بھی استعمال نہ ہوتا۔ وہ تو آپ کو گوارا نہ ہوا اور یہاں ہزاروں کا سامان مجھے بلاتامل دے رہے ہیں؟''
آپؓ نے فرمایا ''بھائی چراغ میں تیل کا زیادہ اسراف ہے۔ اور زیادہ اسراف اللہ کو پسند نہیں۔ اور مجھے اللہ کے حضور اپنے اعمال کی فکر رہتی ہے، یہاں مجھے فکرِ اعمال لاحق ہے اس لیے میں نے سرزنش کی۔ سامان تمہیں اللہ کی خوشنودی کےلیے صدقہ دیا ہے اس پر اجر کی امید ہے اور وہاں پر حساب کا خوف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کفایت شعاری اور وسائل کے بہترین استعمال کےلیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اور نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا (۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا (۲۷)
ترجمہ: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل، آیت 27)
اوپر بیان کی گئی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ فضول خرچی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ نہ تو کنجوسی کرو اور نہ ہی بے پناہ خرچہ، بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ''جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مال دار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کردیتا ہے۔ (مسند البزار، 161/3، حدیث946)
ایک اور موقع پر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وضو میں اسراف سے گریز کرو چاہے بہتی ندی ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام ہمیں وسائل کو احتیاط سے کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کی ترغیب دیتا ہے۔ ان دنوں پاکستان میں توانائی کی شدید قلت ہے اور پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ایندھن بیرون ملک سے خرید سکے۔ ایسے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ملک بھر کے ماہرین توانائی نے ایک مکتوب حکومت کو تحریر کیا ہے جس میں توانائی کے شعبےمیں موجود مسائل کو اجا گر کیا گیا ہے۔ اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ ملکی معیشت، ملکی سلامتی کےلیے خطرہ بن گیا ہے۔ پاکستان کو درآمدات میں ایندھن پر اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان نے 26 ارب ڈالر مالیت کا ایندھن (آر ایل این جی، سیال ایندھن اور کوئلہ) درآمد کیا ہے۔ توانائی کے شعبے بجلی اور گیس میں مجموعی گردشی قرضہ 3200 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ مارچ 2022 سے جون 2022 کے درمیان آر ایل این جی کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فرنس آئل کی قیمت میں مارچ 2022 سے جون 2022 تک 42 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ سی پی پی اے جی سے خریدی گئی بجلی کی قیمت میں مارچ 2022 سے جون 2022 تک 74 فیصد اضافہ ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ مہنگے ایندھن کو خریدنے کےلیے حکومت کے پاس نہ تو ڈالر ہیں اور نہ ہی اس سے بنی بجلی عوام خریدنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے مہنگے ایندھن پر چلنے والے بجلی گھروں کو فی الحال بند کیا ہوا ہے تاکہ ایندھن کی بچت سے قیمتی زرمبادلہ بچا سکیں۔
ایک طرف ہم پاکستانی اپنی عیاشیوں اور دکھاوے کےلیے ایندھن کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ تو دوسری طرف ہماری حکومت کو دوست ملکوں، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر قرض دینے والے اداروں سے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایندھن میں بچت ہی سے ہم اپنے موجودہ مسائل کو قابو میں کرسکتے ہیں۔ اگر ایندھن کے استعمال میں 5 فیصد بچت کی جائے تو درآمدی بل میں 12 فیصد یعنی 3 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ یعنی جس رقم کےلیے ہم آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں، اس سے دگنی رقم صرف پانچ فیصد ایندھن (پٹرولیم، گیس اور بجلی) کی بچت کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ایندھن اور بجلی کی بچت کےلیے دن کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو فروغ دیا جائے اور گھڑی کو سورج کے طلوع اور غروب کے حوالے سے ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔ شاپنگ سینٹرز کو شام 7 بجے بند کردیا جائے، جبکہ شادی ہالز اور ریسٹورینٹس کو رات 10 تک بند کرنے، بینکوں کے اوقات کار کم کرکے 2 بجے بند کرنے جبکہ نجی اور سرکاری دفاتر کو لازمی طور پر شام 5 بجے بند کیا جائے۔ اسکولوں میں ایک دن کی تعلیم کم کرکے یومیہ ایک گھنٹہ دورانیہ بڑھا دیا جائے، دفاتر اور گھروں میں ایئرکنڈیشنر 26 گریڈ پر مقرر کیا جائے۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھی ہر کمرے میں ایئر کنڈیشن چلانے کے بجائے گھر والے ایک ہی کمرے کے ایئرکنڈیشن میں گزارا کریں۔ گھر میں غیر ضروری لائٹس جلانے سے گریز کریں اور جس کمرے میں کوئی فرد موجود نہ ہو ایئرکنڈیشن، پنکھا اور ایل ای ڈی بند رکھیں۔ اگر ٹی وی نہیں دیکھ رہے تو اس کو سوئچ سے بند کریں کیونکہ اسٹینڈ بائی پر بھی ٹی وی بجلی خرچ کررہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹوسٹر، مائیکرو ویو اون، سیل فون چارجرز کے پلگ نکال کر رکھیں اور انہیں بھی اسٹینڈ بائی نہ رہنے دیں۔ آپ کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بجلی کی بڑی بچت ہوسکتی ہے۔
ایندھن خصوصاً بجلی کی بچت کرکے ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات کو کم کرسکتے ہیں۔ اپنی تحریر کا اختتام حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کفایت شعاری اور سخاوت پر مبنی قصے سے کروں گا۔
ایک حاجت مند حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر غروب آفتاب کے بعد آیا۔ ابھی اس نے دستک نہ دی تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ اپنی اہلیہ سے شکایت کررہے تھے کہ ''چراغ کی بتی موٹی ہے جو تیل زیادہ استعمال کرنے کا باعث بن رہی ہے۔'' حاجت مند نے جو سنا تو وہ سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ ایسے شخص سے حاجت برآری کی کیا توقع کرے، جو تیل کے معمول سے زیادہ خرچ پر سرزنش کررہا ہے۔ حاجت مند نے ہچکچاتے ہوئے دستک دی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے باہر آنے پر مدد کی اپیل کی، جس پر صحابی رسول ﷺ نے اس کی حاجت سے زائد عطا کردیا۔
اس شخص نے کہا ''اے حضرت! ایک بات بتائیے، چراغ کی بتی قدرے موٹی ہوجانے پر آپ اپنی زوجہ محترمہ کو سرزنش کررہے تھے حالانکہ چراغ اس قدر روشنی رکھنے میں شاید صرف ایک درہم کا تیل استعمال بھی استعمال نہ ہوتا۔ وہ تو آپ کو گوارا نہ ہوا اور یہاں ہزاروں کا سامان مجھے بلاتامل دے رہے ہیں؟''
آپؓ نے فرمایا ''بھائی چراغ میں تیل کا زیادہ اسراف ہے۔ اور زیادہ اسراف اللہ کو پسند نہیں۔ اور مجھے اللہ کے حضور اپنے اعمال کی فکر رہتی ہے، یہاں مجھے فکرِ اعمال لاحق ہے اس لیے میں نے سرزنش کی۔ سامان تمہیں اللہ کی خوشنودی کےلیے صدقہ دیا ہے اس پر اجر کی امید ہے اور وہاں پر حساب کا خوف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔