کیا صرف سسٹم خراب ہے
پیسے تو میں لے لوں پیپر بھی دے دوں مگر یہ پیسے یقینا میرے کسی ایکسیڈنٹ یا بیماری میں خرچ ہوں گے۔
شام پانچ بجے کا وقت ہے یہ کراچی کا مشہور اور پرانا علاقہ صدر ہے ۔ جو تاریخی عمارتوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے ، یہاں ایک بریانی ہوٹل اور ایک سی ڈی مارکیٹ بھی ہے۔شہر کے تقریبا تمام معروف اسکول بھی یہاں موجود ہیں، بریانی ہوٹل کے عقب میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ہے ۔ بالکل سامنے سی ڈی جی کے کا نیا نکور پارکنگ پلازہ ہے اب سے کچھ عرصہ قبل جب پارکنگ پلازہ کی جگہ خالی تھی تو ہوٹل سے سینٹ پیٹرکس اسکول واضح نظر آتا تھا ہوٹل کے بائیں طرف بھی ایک اسکول ہے جس کا نام گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیکب لائن ہے ۔
خیر تو میں اسی بریانی ہوٹل کے برابر میں واقع ایک چائے کے ہوٹل پر بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے ہوٹل کے بیڑے کو ایک تیز اور میٹھی دودھ پتی کا آرڈر دیتا میرا ایک پرانا جاننے والا بڑی گرم جوشی سے مجھے سلام کر کے حال احوال پوچھنے لگا۔ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کو چائے کی آفر کروں یا نہیں کیوں کہ بے روزگاری کے سبب حالت پتلی تھی ۔ کہ اچانک میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے رضا کارانہ اور معجزانہ طور پر چائے کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہوئے خان کو دو چائے چینک میں کا اشارہ کیا ۔
میں نے محسوس کیا کہ و ہ کچھ خاص بات کرنا چاہ رہا ہے جو شاید رازداری کی مانگ بھی رکھتی ہے۔ معمولی باتوں سے معمول پر لاتے ہوئے میں نے اس کو ریلیکس کیا اور اس کی ذریعہ آمد ن کا پوچھا تاکہ وہ ہلکا پھلکا ہو کر مطلب کی بات پر آجائے اور ایسا ہی ہوا ۔۔۔۔۔ چائے آتے اس نے چینک اور اپنا منہ ایک ساتھ کھولا ، اس کی زبان بھی الفاظ کو مطلب کی پٹڑی پر چڑھانے لگی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ " آپ آج کل کیا کررہے ہیں ؟"
میں نے جواب دیا کچھ ٹیوشنز دے رہا ہوں اور نوکری کی تلاش میں ہوں
اس نے دوبارہ سوال کیا کہ " کون سی کلاس کو پڑھا رہے ہو" ، میں نے مضامین اور کلاس دونوں بتا دیں ۔ انٹر کامرس کا نام سنتے ہے اس کی آنکھیں ایک پر اسرار چمک سےبھر گئی جیسے وہ آنکھوں میں کہہ رہا ہو "واہ مزا آگیا بابو ۔یہ تو کمال ہوگیا ۔"
خاموشی اختیار کر کے میں اسے زیادہ بولنے کا موقع دے رہا تھا کہ اچانک خاموشی کی برف ٹوٹی اور چائے کا سپ لیتے ہوئے اس نے کہا کہ " کتنی فیس اٹھا لیتے ہو کامرس کو پڑھانے کی " میں نےاسٹیٹس کو اور اپنی مالی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو محتا ط ریٹس بتا دیے ۔
یہ اور بات ہے کہ وہ اتنے کم تھے کہ میرے اندر کا باغی انجینیر ایک سکسکاری بھر کر چپ ہوگیا ۔ اس سسکاری میں فطری بغاوت، احتجاج ، بے بسی اور بیچارگی سب نمایاں تھیں دجہ صرف ایک تھی ۔۔۔۔۔۔ بے روزگاری ۔ پتہ نہیں ہم لوگ کیوں تنگی کے دنوں میں بے صبرے اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت ناشکرے ہو جاتے ہیں ۔
اس نے پھر نپا تلا جملہ پھینکا اور کہا کہ اپنے پورے کامرس کورس کی کل فیس بتاؤ، اب میرے کان کھڑے ہوگئے کہ دماغ نے کہا کہ استاد معاملہ اب ٹیوشن سے کچھ آگے کا لگتا ہے، ساتھ ہی چھٹی حس بھی چیل چیخ رہی تھی کہ شاید خطرناک بھی ۔ اس کے چہرےپر مکمل سکون تھا اور وہ چھوٹی چھوٹی چسکیوں سے چائے اور میرا سکون ختم کرنے کے درپے تھا۔
" یار دیکھو تم بے روزگار ہو ٹیوشن سے بھی صرف پاکٹ منی بنتی ہوگی ، ایسا کرو تم مکمل کورس کی فیس بتا دو وہ ایک ساتھ لے لو ، میں ایک مجبور لڑکے کو جانتا ہوں اس نے میٹرک کامرس کے پیپر دینے ہیں پڑھنے کا ٹائم نہیں اور ذہین بھی نہیں ، میٹرک کرنا بھی ضروری ہے۔
میں سوچنے لگا کہ ایک تو یہ ناجائز کام کرنے والا ہر شخص پتا نہیں مجبور کیسے ہوتا ہے۔ بہرحال کہا تو اس نے اور بھی بہت کچھ تھا اور مین نے جواب بھی دیا لیکن میں نے بات ختم کرنے کی غرض سے اس کو کہا کہ یار دیکھ پیسے تو میں لے لوں پیپر بھی دے دوں بقول تمھارے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہو ایڈمٹ کارڈ وغیرہ کے حوالے سے بھی تمھارے بندوبست اور سورس پکی ہوگی ، لیکن یہ پیسے بھی یقینا میرے کسی ایکسیڈنٹ یا بیماری میں خرچ ہوں گے ، یا کچھ نہیں تو میری کسی چیز کی خرابی یا گمشدگی میں جائیں گے۔ مجھے کہا فائدہ ہوگا ؟ میں رسک بھی لو ں، محنت بھی کروں اور رزلٹ زیرو ضرب زیرو ۔
یہ سن کر اس نے ایک کمزور سی کوشش کی کہ میں اس کی بات مان لوں لیکن میں نے منع کر کے آیندہ کے لیے بھی معذرت کرلی، وہ بھی کھسیانی ہنسی ہنستا اپنی راہ چلا گیا۔
اور میں سوچنے لگا ۔ کہ اگر بے روزگاری کی وجہ سے میں اس سے یہ ڈیل کر بھی لیتا تو کس کا کیا فائد ہ ہوتا ۔
اس کو اس کا کمیشن مل جاتا
مجھے میری فیس یکمشت مل جاتی
اور وہ لڑکا جس نے پڑھائی کرنی تھی وہ پاس ہو کر پھر نوکری کے لیے دھکے کھاتا کیوں کہ ڈگری کے باوجود اس کو معلومات تو ہونی نہیں تھی ۔ اور بس پھر یہی ہوتا وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح سسٹم کو گالیاں دے رہا ہوتا ۔
لیکن یہاں ایک سوال میرے ذہن میں آیا جو میں آپ سے اور خصوصا ایسے ہی "مجبور" اور "بے بس" نوجوانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔
کیا واقعی صرف سسٹم ہی خراب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="205"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
خیر تو میں اسی بریانی ہوٹل کے برابر میں واقع ایک چائے کے ہوٹل پر بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے ہوٹل کے بیڑے کو ایک تیز اور میٹھی دودھ پتی کا آرڈر دیتا میرا ایک پرانا جاننے والا بڑی گرم جوشی سے مجھے سلام کر کے حال احوال پوچھنے لگا۔ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کو چائے کی آفر کروں یا نہیں کیوں کہ بے روزگاری کے سبب حالت پتلی تھی ۔ کہ اچانک میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے رضا کارانہ اور معجزانہ طور پر چائے کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہوئے خان کو دو چائے چینک میں کا اشارہ کیا ۔
میں نے محسوس کیا کہ و ہ کچھ خاص بات کرنا چاہ رہا ہے جو شاید رازداری کی مانگ بھی رکھتی ہے۔ معمولی باتوں سے معمول پر لاتے ہوئے میں نے اس کو ریلیکس کیا اور اس کی ذریعہ آمد ن کا پوچھا تاکہ وہ ہلکا پھلکا ہو کر مطلب کی بات پر آجائے اور ایسا ہی ہوا ۔۔۔۔۔ چائے آتے اس نے چینک اور اپنا منہ ایک ساتھ کھولا ، اس کی زبان بھی الفاظ کو مطلب کی پٹڑی پر چڑھانے لگی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ " آپ آج کل کیا کررہے ہیں ؟"
میں نے جواب دیا کچھ ٹیوشنز دے رہا ہوں اور نوکری کی تلاش میں ہوں
اس نے دوبارہ سوال کیا کہ " کون سی کلاس کو پڑھا رہے ہو" ، میں نے مضامین اور کلاس دونوں بتا دیں ۔ انٹر کامرس کا نام سنتے ہے اس کی آنکھیں ایک پر اسرار چمک سےبھر گئی جیسے وہ آنکھوں میں کہہ رہا ہو "واہ مزا آگیا بابو ۔یہ تو کمال ہوگیا ۔"
خاموشی اختیار کر کے میں اسے زیادہ بولنے کا موقع دے رہا تھا کہ اچانک خاموشی کی برف ٹوٹی اور چائے کا سپ لیتے ہوئے اس نے کہا کہ " کتنی فیس اٹھا لیتے ہو کامرس کو پڑھانے کی " میں نےاسٹیٹس کو اور اپنی مالی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو محتا ط ریٹس بتا دیے ۔
یہ اور بات ہے کہ وہ اتنے کم تھے کہ میرے اندر کا باغی انجینیر ایک سکسکاری بھر کر چپ ہوگیا ۔ اس سسکاری میں فطری بغاوت، احتجاج ، بے بسی اور بیچارگی سب نمایاں تھیں دجہ صرف ایک تھی ۔۔۔۔۔۔ بے روزگاری ۔ پتہ نہیں ہم لوگ کیوں تنگی کے دنوں میں بے صبرے اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت ناشکرے ہو جاتے ہیں ۔
اس نے پھر نپا تلا جملہ پھینکا اور کہا کہ اپنے پورے کامرس کورس کی کل فیس بتاؤ، اب میرے کان کھڑے ہوگئے کہ دماغ نے کہا کہ استاد معاملہ اب ٹیوشن سے کچھ آگے کا لگتا ہے، ساتھ ہی چھٹی حس بھی چیل چیخ رہی تھی کہ شاید خطرناک بھی ۔ اس کے چہرےپر مکمل سکون تھا اور وہ چھوٹی چھوٹی چسکیوں سے چائے اور میرا سکون ختم کرنے کے درپے تھا۔
" یار دیکھو تم بے روزگار ہو ٹیوشن سے بھی صرف پاکٹ منی بنتی ہوگی ، ایسا کرو تم مکمل کورس کی فیس بتا دو وہ ایک ساتھ لے لو ، میں ایک مجبور لڑکے کو جانتا ہوں اس نے میٹرک کامرس کے پیپر دینے ہیں پڑھنے کا ٹائم نہیں اور ذہین بھی نہیں ، میٹرک کرنا بھی ضروری ہے۔
میں سوچنے لگا کہ ایک تو یہ ناجائز کام کرنے والا ہر شخص پتا نہیں مجبور کیسے ہوتا ہے۔ بہرحال کہا تو اس نے اور بھی بہت کچھ تھا اور مین نے جواب بھی دیا لیکن میں نے بات ختم کرنے کی غرض سے اس کو کہا کہ یار دیکھ پیسے تو میں لے لوں پیپر بھی دے دوں بقول تمھارے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہو ایڈمٹ کارڈ وغیرہ کے حوالے سے بھی تمھارے بندوبست اور سورس پکی ہوگی ، لیکن یہ پیسے بھی یقینا میرے کسی ایکسیڈنٹ یا بیماری میں خرچ ہوں گے ، یا کچھ نہیں تو میری کسی چیز کی خرابی یا گمشدگی میں جائیں گے۔ مجھے کہا فائدہ ہوگا ؟ میں رسک بھی لو ں، محنت بھی کروں اور رزلٹ زیرو ضرب زیرو ۔
یہ سن کر اس نے ایک کمزور سی کوشش کی کہ میں اس کی بات مان لوں لیکن میں نے منع کر کے آیندہ کے لیے بھی معذرت کرلی، وہ بھی کھسیانی ہنسی ہنستا اپنی راہ چلا گیا۔
اور میں سوچنے لگا ۔ کہ اگر بے روزگاری کی وجہ سے میں اس سے یہ ڈیل کر بھی لیتا تو کس کا کیا فائد ہ ہوتا ۔
اس کو اس کا کمیشن مل جاتا
مجھے میری فیس یکمشت مل جاتی
اور وہ لڑکا جس نے پڑھائی کرنی تھی وہ پاس ہو کر پھر نوکری کے لیے دھکے کھاتا کیوں کہ ڈگری کے باوجود اس کو معلومات تو ہونی نہیں تھی ۔ اور بس پھر یہی ہوتا وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح سسٹم کو گالیاں دے رہا ہوتا ۔
لیکن یہاں ایک سوال میرے ذہن میں آیا جو میں آپ سے اور خصوصا ایسے ہی "مجبور" اور "بے بس" نوجوانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔
کیا واقعی صرف سسٹم ہی خراب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="205"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔