بیٹا ابو بکر کا خیال رکھنا
اماں کا یہ بڑا بیٹا ہمارا سب کا بڑا پیارا بھائی عبدالحمید چھاپرا ہے۔
یہ الفاظ تھے ایک ماں کے۔ ماں اپنے سب سے بڑے بیٹے سے کہہ رہی تھی: بیٹا! ''ابو بکر کا خیال رکھنا'' کراچی کا مشہور اسپتال ''سیونتھ ڈے'' جہاں ماں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا ابو بکر بہ مشکل گیارہ سال کا تھا۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ابو بکر ماں کا بڑا لاڈلا تھا، بہن بھائیوں کا بھی بڑا پیارا تھا۔ یہ واقعہ ہے جنوری 1966 کا کہ جب ماں دنیا سے رخصت ہوئی تھی۔ پاپا کا انتقال دس سال پہلے 1956 میں ہو چکا تھا اور اب اماں بھی رخت سفر باندھ چکی تھی۔ باپ اور ماں کے جانے کے بعد اب سب سے بڑا بھائی ہی چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے باپ سمان تھا۔ والدہ کے انتقال کے وقت بڑے بیٹے کی عمر 30 سال تھی اور وہ کراچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کے بعد 1965 میں ماسٹر کی ڈگری بھی لے چکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے حسن محی الدین عباسی (ایچ ایم عباسی) کے شام میں نکلنے والے اخبار COMMENT میں ہفتہ وار کالم لکھ کر صحافتی زندگی کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ وقت گزرتا رہا، مگر دنیا سے جاتے ہوئے ماں کے آخری الفاظ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے ''بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا'' پانچ بھائی اور دو بہنوں کا بڑا بھائی ہونے کا خیال بھی ہر دم اس کے دل و دماغ میں رہا۔ اب اس کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ محمودہ بیگم نے بھی نئے گھر میں خود کو ایڈجسٹ کر لیا تھا۔
بٹوارے سے پہلے یہ خاندان بمبئی میں رہتا تھا۔ اپنا کاروبار تھا، سو آسودہ حال زندگی تھی۔ 1947میں ہندوستان تقسیم ہوا تو یہ خاندان 28 اکتوبر 1947کو ''جل درگاہ'' نامی سمندری جہاز میں بیٹھ کر بمبئی سے کراچی پہنچا۔ یہاں بھی ابا نے اپنا کاروبار جما لیا مگر بڑے بیٹے کا رجحان صحافت کی طرف تھا اور اب تو وہ اس زمانے کے ایک بڑے اخبار جنگ سے بہ حیثیت کامرس رپورٹر منسلک ہو چکا تھا۔ گھر کا اپنا پریس بھی تھا۔ جہاں سے کاروباری سرگرمیوں کا احاطہ کرنے والا اخبار ''بیوپار'' شایع ہوتا تھا۔ خاندانی معاملات اماں کے بڑے بیٹے کی نگرانی میں ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے۔ وہ بھی عجیب شخص تھا۔ اس کو زندگی میں ہر دم ہلچل بہت پسند تھی۔ سو اس نے 1965 میں کراچی یونین آف جرنلسٹ کے پلیٹ فارم سے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے کام شروع کر دیا اور آگے بڑھتے ہوئے 19 اکتوبر 1969 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) کا رکن منتخب ہو گیا۔ خوندکر غلام مصطفی PFUJ کے صدر ہوتے تھے اور منہاج محمد خان برنا سیکریٹری جنرل تھے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ خان کی حکومتیں تھیں، صحافیوں کے لیے بھی یہ ادوار بڑے کٹھن تھے۔ اخبارات کے مالکان بھی ظلم پر تلے ہوئے تھے، ملک بھر کے 150 صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا، ہڑتالیں، پکڑ دھکڑ، لاٹھی چارج، تھانے، جیلیں، بھوک ہڑتال یہ سارے کام ہو رہے تھے بلکہ یہ سارے کام تو بہت پہلے شروع ہو چکے تھے۔ 1960 میں پیٹرس لوممبا کا قتل ہو یا 1961 میں جبل پور تحریک، اماں کا بڑا بیٹا ان تحریکوں میں شامل رہا اور پھر عظیم صحافی نثار عثمانی کا دور آ گیا، لوگ عثمانی صاحب کو صحافت کی آبرو کہتے تھے اور لوگ سچ ہی کہتے تھے۔ نثار عثمانی جیسا انسان بھی برسوں میں پیدا ہوتا ہے۔ عثمانی کے ساتھ بھی گرفتاری دی اور کیمپ جیل لاہور میں بند ہوئے۔ سات بہن بھائیوں کے سب سے بڑے بھائی ''صحافت کے میدان میں سچ کا بول بالا کیے حق و صداقت کا پرچم اٹھائے جیلوں میں جاتے رہے، کوٹ لکھپت جیل لاہور، کیمپ جیل لاہور، ساہیوال جیل، سکھر جیل، جیل جیل، تھانے تھانے زندگی چلتی رہی اور وہ زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا۔
اب بہت سے ماہ و سال گزر چکے تھے۔ زندگی میں اب وہ ہنگامے نہیں رہے تھے۔ جیل، تھانوں سے بھی جان چُھٹ گئی تھی مگر کوئی احتجاج، کوئی حکومت مخالف جلسہ ایسا نہیں ہوتا تھا جہاں یہ شخص موجود نہ ہو۔ اب اس کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ یہ 1992 کا زمانہ تھا۔ اماں کی آخری بات ''بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا'' خیال رکھنے کی گھڑی آن پہنچی تھی سب سے چھوٹا بھائی ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے تھے۔ گردوں کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر ادیب الحسن رضوی ابو بکر کا معائنہ کر چکے تھے۔ ابو بکر کو ایک گردے کی ضرورت تھی۔ بڑا بھائی خوب سمجھ چکا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کے لیے میری ماں نے دم مرگ اس سے یہ کہا تھا ''بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا'' ماں سے کیے گئے وعدے کے ایفا کا وقت آ چکا تھا اور بڑے بھائی نے ذرا دیر نہ لگائی۔ وہ اپنا گردہ دینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ ابو بکر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے وارڈ میں داخل تھا۔ گھر والے اسپتال میں موجود تھے۔ رات دو بجے ڈاکٹر ادیب رضوی آئے اور بڑے بھائی سے بولے ''تم نے میرے مشن کو کامیاب کیا ہے، میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ کوئی خاندان کا فرد اپنا گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو جائے'' لندن کے Royal Free Hospital میں بڑے بھائی اور ان کی اہلیہ محمودہ بیگم کے ٹشوز معائنے کے لیے بھیجے گئے۔ دونوں کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلا۔ لندن کے رائل فری اسپتال کے Dr.Vergise نے رپورٹ بھیجی کہ بھائی کا گردہ نہ لگے تو بھابی کا گردہ لگا دیا جائے۔ اسی ٹیسٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بڑے بھائی کا بلڈ گروپ ''O.Positive'' ہے جو کسی کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔
31 جنوری 1993 وہ یادگار دن تھا کہ جب سول اسپتال کراچی کے گردہ وارڈ میں پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے بڑے بھائی کا گردہ نکال کر چھوٹے بھائی ابو بکر کو لگا دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ 31 جنوری ابو بکر کی سالگرہ کی تاریخ تھی اور اس روز ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور بڑے بھائی کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ آج 31 جنوری 2014 کو اماں کی بات کو پورے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں۔ آج ابو بکر 59 سال کا ہو چکا اور اس کا بڑا بھائی 77 سال کا۔ 21 سال سے بڑا بھائی نہایت صحت مندی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی یادداشت بہترین ہے۔ ماضی کے واقعات اسے از بر ہیں۔ وہ میلوں پیدل چلتا ہے۔ صحافت سے اس کا رشتہ آج بھی قائم ہے، کراچی پریس کلب میں اس کی آواز کی گھن گرج آج بھی سننے کو ملتی ہے۔ آج بھی جمہوری تحریکوں میں وہ نعرہ زن نظر آتا ہے یقیناً اس کے قریبی ساتھی جان چکے ہوں گے کہ میں کس شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں مگر عام قارئین کو ذرا دیر کی زحمت اور دوں گا ۔
یہی وہ شخص تھا کہ جب 1980میں یہ کراچی پریس کلب کا صدر منتخب ہوا تو انھی کے دور صدارت میں 25 دسمبر 1980کو شاعر عوام حبیب جالبؔ کو کراچی پریس کلب کی تا حیات رکنیت دی گئی۔ 25 دسمبر 1980ء وہ دن تھا کہ جب پورے ملک کے قلم کار جنرل ضیاء الحق کے دربار میں جمع تھے اور عین اسی دن پاکستان کے ''ہائیڈ پارک'' کراچی پریس کلب میں حبیب جالبؔ کے اعزاز میں جلسہ ہو رہا تھا۔ پریس کلب کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ پاک کلب کی بیرونی دیوار پر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سبط حسن صدارت کر رہے تھے، انعام درانی نے جالبؔ صاحب کے لیے نظم پڑھی تھی۔ سعیدہ گزدر نے مضمون پڑھا تھا۔ سامعین میں عظیم الشان شاعر، صحافی خالد علیگ بیٹھے تھے اور صدر پریس کلب کی فرمائش پر کہ ''جالبؔ صاحب موصوف کے لیے کچھ لکھ کر لایئے گا'' اور جالبؔ صاحب موصوف کے لیے لکھ کر لائے جو انھوں نے پہلی بار وہاں پڑھا تھا۔
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
اماں کا یہ بڑا بیٹا ہمارا سب کا بڑا پیارا بھائی عبدالحمید چھاپرا ہے۔ 77 بہاریں دیکھنے والا خدا کرے 77 بہاریں صحت، تندرستی کے ساتھ اور دیکھے۔ (آمین)
بٹوارے سے پہلے یہ خاندان بمبئی میں رہتا تھا۔ اپنا کاروبار تھا، سو آسودہ حال زندگی تھی۔ 1947میں ہندوستان تقسیم ہوا تو یہ خاندان 28 اکتوبر 1947کو ''جل درگاہ'' نامی سمندری جہاز میں بیٹھ کر بمبئی سے کراچی پہنچا۔ یہاں بھی ابا نے اپنا کاروبار جما لیا مگر بڑے بیٹے کا رجحان صحافت کی طرف تھا اور اب تو وہ اس زمانے کے ایک بڑے اخبار جنگ سے بہ حیثیت کامرس رپورٹر منسلک ہو چکا تھا۔ گھر کا اپنا پریس بھی تھا۔ جہاں سے کاروباری سرگرمیوں کا احاطہ کرنے والا اخبار ''بیوپار'' شایع ہوتا تھا۔ خاندانی معاملات اماں کے بڑے بیٹے کی نگرانی میں ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے۔ وہ بھی عجیب شخص تھا۔ اس کو زندگی میں ہر دم ہلچل بہت پسند تھی۔ سو اس نے 1965 میں کراچی یونین آف جرنلسٹ کے پلیٹ فارم سے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے کام شروع کر دیا اور آگے بڑھتے ہوئے 19 اکتوبر 1969 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) کا رکن منتخب ہو گیا۔ خوندکر غلام مصطفی PFUJ کے صدر ہوتے تھے اور منہاج محمد خان برنا سیکریٹری جنرل تھے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ خان کی حکومتیں تھیں، صحافیوں کے لیے بھی یہ ادوار بڑے کٹھن تھے۔ اخبارات کے مالکان بھی ظلم پر تلے ہوئے تھے، ملک بھر کے 150 صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا، ہڑتالیں، پکڑ دھکڑ، لاٹھی چارج، تھانے، جیلیں، بھوک ہڑتال یہ سارے کام ہو رہے تھے بلکہ یہ سارے کام تو بہت پہلے شروع ہو چکے تھے۔ 1960 میں پیٹرس لوممبا کا قتل ہو یا 1961 میں جبل پور تحریک، اماں کا بڑا بیٹا ان تحریکوں میں شامل رہا اور پھر عظیم صحافی نثار عثمانی کا دور آ گیا، لوگ عثمانی صاحب کو صحافت کی آبرو کہتے تھے اور لوگ سچ ہی کہتے تھے۔ نثار عثمانی جیسا انسان بھی برسوں میں پیدا ہوتا ہے۔ عثمانی کے ساتھ بھی گرفتاری دی اور کیمپ جیل لاہور میں بند ہوئے۔ سات بہن بھائیوں کے سب سے بڑے بھائی ''صحافت کے میدان میں سچ کا بول بالا کیے حق و صداقت کا پرچم اٹھائے جیلوں میں جاتے رہے، کوٹ لکھپت جیل لاہور، کیمپ جیل لاہور، ساہیوال جیل، سکھر جیل، جیل جیل، تھانے تھانے زندگی چلتی رہی اور وہ زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا۔
اب بہت سے ماہ و سال گزر چکے تھے۔ زندگی میں اب وہ ہنگامے نہیں رہے تھے۔ جیل، تھانوں سے بھی جان چُھٹ گئی تھی مگر کوئی احتجاج، کوئی حکومت مخالف جلسہ ایسا نہیں ہوتا تھا جہاں یہ شخص موجود نہ ہو۔ اب اس کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ یہ 1992 کا زمانہ تھا۔ اماں کی آخری بات ''بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا'' خیال رکھنے کی گھڑی آن پہنچی تھی سب سے چھوٹا بھائی ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے تھے۔ گردوں کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر ادیب الحسن رضوی ابو بکر کا معائنہ کر چکے تھے۔ ابو بکر کو ایک گردے کی ضرورت تھی۔ بڑا بھائی خوب سمجھ چکا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کے لیے میری ماں نے دم مرگ اس سے یہ کہا تھا ''بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا'' ماں سے کیے گئے وعدے کے ایفا کا وقت آ چکا تھا اور بڑے بھائی نے ذرا دیر نہ لگائی۔ وہ اپنا گردہ دینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ ابو بکر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے وارڈ میں داخل تھا۔ گھر والے اسپتال میں موجود تھے۔ رات دو بجے ڈاکٹر ادیب رضوی آئے اور بڑے بھائی سے بولے ''تم نے میرے مشن کو کامیاب کیا ہے، میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ کوئی خاندان کا فرد اپنا گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو جائے'' لندن کے Royal Free Hospital میں بڑے بھائی اور ان کی اہلیہ محمودہ بیگم کے ٹشوز معائنے کے لیے بھیجے گئے۔ دونوں کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلا۔ لندن کے رائل فری اسپتال کے Dr.Vergise نے رپورٹ بھیجی کہ بھائی کا گردہ نہ لگے تو بھابی کا گردہ لگا دیا جائے۔ اسی ٹیسٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بڑے بھائی کا بلڈ گروپ ''O.Positive'' ہے جو کسی کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔
31 جنوری 1993 وہ یادگار دن تھا کہ جب سول اسپتال کراچی کے گردہ وارڈ میں پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے بڑے بھائی کا گردہ نکال کر چھوٹے بھائی ابو بکر کو لگا دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ 31 جنوری ابو بکر کی سالگرہ کی تاریخ تھی اور اس روز ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور بڑے بھائی کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ آج 31 جنوری 2014 کو اماں کی بات کو پورے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں۔ آج ابو بکر 59 سال کا ہو چکا اور اس کا بڑا بھائی 77 سال کا۔ 21 سال سے بڑا بھائی نہایت صحت مندی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی یادداشت بہترین ہے۔ ماضی کے واقعات اسے از بر ہیں۔ وہ میلوں پیدل چلتا ہے۔ صحافت سے اس کا رشتہ آج بھی قائم ہے، کراچی پریس کلب میں اس کی آواز کی گھن گرج آج بھی سننے کو ملتی ہے۔ آج بھی جمہوری تحریکوں میں وہ نعرہ زن نظر آتا ہے یقیناً اس کے قریبی ساتھی جان چکے ہوں گے کہ میں کس شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں مگر عام قارئین کو ذرا دیر کی زحمت اور دوں گا ۔
یہی وہ شخص تھا کہ جب 1980میں یہ کراچی پریس کلب کا صدر منتخب ہوا تو انھی کے دور صدارت میں 25 دسمبر 1980کو شاعر عوام حبیب جالبؔ کو کراچی پریس کلب کی تا حیات رکنیت دی گئی۔ 25 دسمبر 1980ء وہ دن تھا کہ جب پورے ملک کے قلم کار جنرل ضیاء الحق کے دربار میں جمع تھے اور عین اسی دن پاکستان کے ''ہائیڈ پارک'' کراچی پریس کلب میں حبیب جالبؔ کے اعزاز میں جلسہ ہو رہا تھا۔ پریس کلب کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ پاک کلب کی بیرونی دیوار پر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سبط حسن صدارت کر رہے تھے، انعام درانی نے جالبؔ صاحب کے لیے نظم پڑھی تھی۔ سعیدہ گزدر نے مضمون پڑھا تھا۔ سامعین میں عظیم الشان شاعر، صحافی خالد علیگ بیٹھے تھے اور صدر پریس کلب کی فرمائش پر کہ ''جالبؔ صاحب موصوف کے لیے کچھ لکھ کر لایئے گا'' اور جالبؔ صاحب موصوف کے لیے لکھ کر لائے جو انھوں نے پہلی بار وہاں پڑھا تھا۔
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
اماں کا یہ بڑا بیٹا ہمارا سب کا بڑا پیارا بھائی عبدالحمید چھاپرا ہے۔ 77 بہاریں دیکھنے والا خدا کرے 77 بہاریں صحت، تندرستی کے ساتھ اور دیکھے۔ (آمین)