مذہبی رواداری کو نگلتے رویے

اس احتجاج میں چند شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور رائل روڈ پر واقع ہندو دھرم شالا کو آگ لگا دی۔

اس احتجاج میں چند شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور رائل روڈ پر واقع ہندو دھرم شالا کو آگ لگا دی۔ فوٹو : فائل

چند روز قبل لاڑکانہ میں مبینہ طور پر مقدس اوراق کی بے حرمتی کی خبر پر شہر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس احتجاج میں چند شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور رائل روڈ پر واقع ہندو دھرم شالا کو آگ لگا دی۔ ان کی جانب سے مندر میں مورتیوں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ پولیس نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے والے مبینہ ملزم سنگیت کمار اور اس کے بھائی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ واقعے سے متعلق مختلف باتیں گردش کرتی رہیں کہ بے حرمتی کا الزام دراصل رقم کے لین دین کے تنازع پر لگایا گیا، ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم پرانی ردی جلا رہا تھا، جس میں اسلامیات کی کتاب بھی شامل تھی، جسے تین افراد نے دیکھا اور اس پر شور مچا دیا۔ ان سب پہلوؤں پر تحقیقات ہونا باقی ہیں، لیکن اس کی مکمل تحقیق کیے بغیر پوری اقلیتی برادری سے لیا جانے والا انتقام ہماری مذہبی رواداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ حالات کشیدہ ہونے پر ضلع قمبر شہداد کوٹ اور شکارپور سے بھی پولیس کو طلب کیا گیا، تاہم اس وقت تک احتجاج اور ہنگامہ آرائی لاڑکانہ شہر سے نکل کر سکھر، نوڈیرو، جیکب آباد، شکارپور، جیکب آباد، دادو، کے علاوہ بلوچستان میں ڈیرہ اللہ یار، جعفرآباد تک جا پہنچی تھی۔ مختلف واقعات میں ہندوؤں کی دکانیں جلا دی گئیں۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے جب کہ درجنوں گرفتار کر لیے گئے۔

یہاں یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ ہندو تہوار ہولی کے دن ہی پیش آیا۔ وزیراعظم اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی رواداری اور قومی یک جہتی کو برباد کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پی پی پی کی راہ نما فریال تالپور نے ذاتی خرچ پر مندر کی از سر نو تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ہندو پنچایت کے صدر سیٹھ نند، جنرل سیکریٹری روی دھاوانی، لاڑکانہ ہندو پنچایت کی چیئر پرسن ایڈووکیٹ کلپنا دیوی نے کہا کہ ہندو کمیونٹی میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے، ملزمان کو شفاف تحقیقات کے بعد سزا ضرور ملنی چاہیے۔ واقعے کے دوسرے روز مشتعل افراد نے ایک بار پھر تمام کاروباری مراکز بند کرواتے ہوئے احتجاج شروع کردیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے راہ نما نثار کھوڑو، اقلیتی ایم این اے رمیش لعل کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا، جس میں خیر محمد شیخ، ڈاکٹر سعید احمد، گھنور لغاری، ڈی آئی جی خادم رند، ایس ایس پی خالد مصطفی کورائی ، ہندو پنچایت کے عہدے داروں اور مسلم علمائے کرام نے شرکت کی۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں تحقیقات کے لیے اے ایس پی سٹی توقیر نعیم کی سربراہی میں چھے رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کے اراکین کی جانب سے تحقیقات کے لیے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔


دوسری جانب پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئر پرسن غنویٰ بھٹو اور ایس ٹی پی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے بھی لاڑکانہ میں ہندو دھرم شالا میں کلپنا دیوی و دیگر سے ملاقات کی اور اظہار افسوس کیا۔ صورت حال کچھ بہتر ہوئی تو اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں نے ہولی منائی، جس میں ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ بھی شریک ہوئے۔

پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے رتو ڈیرو ریسٹ ہاؤس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی چار اپریل کو برسی کے انتظامات کے لیے اجلاس کی صدارت کی۔ صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تھر میں قحط سالی سے نہیں بلکہ شدید ٹھنڈ پڑنے سے بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔ آئینی اعتبار سے صوبے کا سربراہ وزیر اعظم نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہوتا ہے، کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن پہلے بھی ان کی نگرانی میں ہوا اور آئندہ بھی جاری رہے گا، وزیر اعظم نواز شریف کی سندھ آمد سے فاصلے کم اور محبت بڑھی ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی میں بلاول بھٹو اور آصف زرداری سمیت ملک بھر سے پارٹی کے راہ نما شریک ہوں گے۔ کراچی کے حالات پہلے بہتر ہوئے تھے۔ جنوری اور فروری میں کچھ حالات خراب ہوئے، لیکن حکومت اس کے کنٹرول کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اجلاس میں لاڑکانہ شہر میں گندگی اور تجاوزات کی شکایات پر برہمی کاا ظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے افسران کو مسائل پر ایک ہفتے میں قابو پانے کی ہدایات کیں، انہوںنے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے لاڑکانہ آکر دوبارہ صورت حال کا جائزہ لیں گے۔

الیکشن ٹریبونل سکھر کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے چوبیس اپریل کو لاڑکانہ کے صوبائی حلقے پی ایس 35 باقرانی لاڑکانہ ون پر ضمنی انتخابات کے لیے 28 امیدواروں نے اپنے کاغذات نام زدگی جمع کرائے، جن میں پیپلز پارٹی سے وابستہ سہیل انور سیال، ڈاڈو اللہ بخش انڑ، عادل انڑ، غلام عمر انڑ، آزاد امیدوار شفقت حسین انڑ، مسلم لیگ (ق) کے صوبائی سیکریٹری جنرل بابو سرور سیال، مسلم لیگ فنکشنل کے سرفراز احمد بگھیو، جمعیت علمائے اسلام کے محبت علی کھوڑو، جمعیت علمائے پاکستان کے حافظ احمد علی عباسی اور دیگر شامل ہیں۔ کاغذات نام زدگی کی جانچ پڑتال 19 مارچ تک جاری رہی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ضمنی انتخابات کے لیے پارٹی کے امیدوار سہیل انور سیال کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر نائب صدر خیر محمد شیخ کے مطابق پیپلز پارٹی کے مزید 6 امیدواروں نے کورنگ امیدوار کے طور پر کاغذات نام زدگی داخل کرائے ہیں ۔
Load Next Story