پنجاب میں امن قائم کرنے میں وزیر قانون کا کردار
یہ رانا صاحب کی ذہانت اور ان کے نچلی سطح تک لوگوں سے روابط کا کمال ہے کہ انہوں نے پنجاب میں خونریزی کا راستہ روک دیا۔
مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری اطلاعات بلال ایوب گورائیہ میرا ہم شہر ہے، راقم کے ان کے ساتھ صحافیانہ ہی نہیں بلکہ خاندانی مراسم ہیں ۔
ان کے والد چوہدری ایوب گورائیہ ایڈووکیٹ مرحوم میرے دوست تھے۔ بلال گورائیہ نے دوستوں کے لئے کاسمو پولیٹین کلب میں تقریب کا اہتمام کیا۔ وہ اکثر دوستوں کو آپس میں ملانے کے لئے ایسی تقاریب کرتے رہتے ہیں۔ کاسمو کلب میں ہونے والی یہ تقریب اس لئے یادگار تھی کہ اس میں میرے ذاتی دوست بھی شامل تھے۔ ایاز خان، لطیف چوہدری تو شامل تھے ہی لیکن اس میں پنجاب کے صوبائی وزیر برائے قانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اﷲ کی شرکت میرے لئے بڑی خوشی کا باعث تھی ۔
رانا ثناء اللہ سے راقم کا 22 سال پرانا تعلق ہے۔ انہوں نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا اور مجھ سے ملتے ہوئے خود کو کبھی وزیر بھی نہیں سمجھا ، میں ان کی سیاسی جدوجہد کا عینی شاہد بھی ہوں ۔ رانا صاحب گراس روٹ لیول سے اوپر آئے ہیں، ایسا نہیں کہ کسی نے انہیں مسلط کیا ہے۔ آج اگر وہ وزیر ہیں تو اس کے پیچھے ان کی طویل سیاسی جدوجہد موجود ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی جلا وطنی کے دوران انہوں نے پنجاب میں جو جدوجہد کی ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مشرف آمریت میں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ، اس کے باوجود پنجاب اسمبلی کے فلور پر رانا ثناء اللہ کی آواز کو دبایا نہ جا سکا ۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی رانا صاحب کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور یہی وجہ ہے کہ رانا ثناء اﷲ کابینہ میں سب سے اہم وزیر ہیں اور وزیراعلیٰ بہت سے امور میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ پنجاب میں انتہاپسندی سے منسلک بہت سے مسائل ہیں اور انہیں سلجھانے میں رانا ثناء اﷲ کا اہم ترین کردار ہے ورنہ یہاں تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو انتہا پسندی کے نام پر پنجاب میں بھی خونریزی چاہتے ہیں ۔
یہ رانا صاحب کی ذہانت اور ان کے نچلی سطح تک لوگوں سے روابط کا کمال ہے کہ انہوں نے پنجاب میں خونریزی کا راستہ روک دیا ۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ شاید رانا ثناء اﷲ انتہا پسند نظریات کے حامل سیاستدان ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، رانا صاحب جدید سیاسی خیالات کے حامل سیاستدان ہیںاور انتہا پسند نظریات سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں ہے، البتہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں سرگرم مذہبی جماعتوں کے قائدین سے ان کا احترام کا رشتہ موجود ہے۔ مذہبی قیادت رانا ثناء اللہ کی بات کو سنتی بھی ہے اور وزن بھی دیتی ہے۔ رانا صاحب نے ہی سانحہ راولپنڈی کے بعد حالات کو سنبھالا دینے میں اصل کردار ادا کیا۔ اگر مرکزی سطح پر بھی رانا صاحب جیسی شخصیت موجود ہوتی تو آج پاکستان انتہا پسندی کے معاملے کو خاصی حد تک حل کر چکا ہوتا ۔ رانا صاحب کے بارے میں بہرحال یہ ساری باتیں اس لئے بتانا پڑیں کہ وہ بلال گورائیہ اور میری دعوت پر کاسمو کلب میں چلے آئے۔ رانا ثناء اللہ کی آمد سے یہ محفل میرے لئے ایک ایسی انجمن بن گئی جس میں ایک کارکن سیاستدان شریک تھا ۔
یوں تو اس محفل میں بہت سے دوست شامل تھے جن میں وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل، میرے بہت پیارے دوست صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو ، نو منتخب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن شفقت محمود چوہان ، مسلم لیگ فنکشنل کے سینئر نائب صدر خان سلطان محمود خاں ، مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے جنرل سیکرٹری عمران ریاض ، سینئر سیکرٹری پنجاب اسمبلی رائے ممتاز حسین بابر ، اراکین پنجاب اسمبلی نجیب اﷲ نیازی ، غضنفر عباس چھینہ ، عارف گل، شیخ اعجاز ، نعیم اﷲ گل سمیت دیگر دوست شریک ہوئے جن کا نام لکھوں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی ۔ یہاں ایک دوست کا چلتے چلتے ضرور ذکر کرنا چاہوں گا ، یہ ہیں پنجاب کے وزیر جنگلات ملک آصف بھا ، وہ درویش منش انسان ہیں ۔ ان کی درویشی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ وزیر ہونے کے باوجود وہ پیپلزہاؤس میں رہ رہے ہیں ۔
انہوں نے جی او آر میں سرکاری رہائش گاہ نہیں لی اور اپنے ساتھی ارکان اسمبلی کے ساتھ رہ کر خوش ہیں ۔ ورنہ آج کل کے حالات میں وہ کون ہے جو سرکاری رہائش کا طلب گار نہ ہو ۔ ملک آصف بھا خوشاب سے 2002ء میں پہلی بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں پارلیمانی سیکرٹری برائے بیت المال بنایا گیا۔ انہوں نے اس الیکشن میں ٹوانہ خاندان کو شکست دی ۔ وہ 2008ء میں آزاد الیکشن جیت گئے اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔ اب 2013ء میں تیسری بار بھاری اکثریت سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں ۔ وہ بڑے مخلص آدمی ہیں، ان کا اپنے حلقے میں عام آدمی تک براہ راست رابطہ ہے۔ اس تقریب کو کامیاب بنانے میں وزیر انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کا اہم رول تھا ، انہوں نے اس تقریب کی ساری کوآرڈینیشن کی ۔
رانا ثناء اﷲ کو نواز شریف اور شہباز شریف نے وزیر بنایا اور وہ ان پر بہت اعتماد کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی پنجاب کی کارکردگی اور گورننس کے حوالے سے مثال دی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے اور امن کی صورتحال ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں اس امن میں رانا ثناء اﷲ کا بہت بڑا کردار ہے اور یہ کردار پنجاب پولیس سے بھی زیادہ ہے لیکن یہاں پر شہباز شریف کو بھی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے رانا ثناء اﷲ جیسی با صلاحیت اور مخلص شخصیت پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنی ٹیم میں شامل کیا۔
ان کے والد چوہدری ایوب گورائیہ ایڈووکیٹ مرحوم میرے دوست تھے۔ بلال گورائیہ نے دوستوں کے لئے کاسمو پولیٹین کلب میں تقریب کا اہتمام کیا۔ وہ اکثر دوستوں کو آپس میں ملانے کے لئے ایسی تقاریب کرتے رہتے ہیں۔ کاسمو کلب میں ہونے والی یہ تقریب اس لئے یادگار تھی کہ اس میں میرے ذاتی دوست بھی شامل تھے۔ ایاز خان، لطیف چوہدری تو شامل تھے ہی لیکن اس میں پنجاب کے صوبائی وزیر برائے قانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اﷲ کی شرکت میرے لئے بڑی خوشی کا باعث تھی ۔
رانا ثناء اللہ سے راقم کا 22 سال پرانا تعلق ہے۔ انہوں نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا اور مجھ سے ملتے ہوئے خود کو کبھی وزیر بھی نہیں سمجھا ، میں ان کی سیاسی جدوجہد کا عینی شاہد بھی ہوں ۔ رانا صاحب گراس روٹ لیول سے اوپر آئے ہیں، ایسا نہیں کہ کسی نے انہیں مسلط کیا ہے۔ آج اگر وہ وزیر ہیں تو اس کے پیچھے ان کی طویل سیاسی جدوجہد موجود ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی جلا وطنی کے دوران انہوں نے پنجاب میں جو جدوجہد کی ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مشرف آمریت میں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ، اس کے باوجود پنجاب اسمبلی کے فلور پر رانا ثناء اللہ کی آواز کو دبایا نہ جا سکا ۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی رانا صاحب کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور یہی وجہ ہے کہ رانا ثناء اﷲ کابینہ میں سب سے اہم وزیر ہیں اور وزیراعلیٰ بہت سے امور میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ پنجاب میں انتہاپسندی سے منسلک بہت سے مسائل ہیں اور انہیں سلجھانے میں رانا ثناء اﷲ کا اہم ترین کردار ہے ورنہ یہاں تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو انتہا پسندی کے نام پر پنجاب میں بھی خونریزی چاہتے ہیں ۔
یہ رانا صاحب کی ذہانت اور ان کے نچلی سطح تک لوگوں سے روابط کا کمال ہے کہ انہوں نے پنجاب میں خونریزی کا راستہ روک دیا ۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ شاید رانا ثناء اﷲ انتہا پسند نظریات کے حامل سیاستدان ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، رانا صاحب جدید سیاسی خیالات کے حامل سیاستدان ہیںاور انتہا پسند نظریات سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں ہے، البتہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں سرگرم مذہبی جماعتوں کے قائدین سے ان کا احترام کا رشتہ موجود ہے۔ مذہبی قیادت رانا ثناء اللہ کی بات کو سنتی بھی ہے اور وزن بھی دیتی ہے۔ رانا صاحب نے ہی سانحہ راولپنڈی کے بعد حالات کو سنبھالا دینے میں اصل کردار ادا کیا۔ اگر مرکزی سطح پر بھی رانا صاحب جیسی شخصیت موجود ہوتی تو آج پاکستان انتہا پسندی کے معاملے کو خاصی حد تک حل کر چکا ہوتا ۔ رانا صاحب کے بارے میں بہرحال یہ ساری باتیں اس لئے بتانا پڑیں کہ وہ بلال گورائیہ اور میری دعوت پر کاسمو کلب میں چلے آئے۔ رانا ثناء اللہ کی آمد سے یہ محفل میرے لئے ایک ایسی انجمن بن گئی جس میں ایک کارکن سیاستدان شریک تھا ۔
یوں تو اس محفل میں بہت سے دوست شامل تھے جن میں وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل، میرے بہت پیارے دوست صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو ، نو منتخب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن شفقت محمود چوہان ، مسلم لیگ فنکشنل کے سینئر نائب صدر خان سلطان محمود خاں ، مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے جنرل سیکرٹری عمران ریاض ، سینئر سیکرٹری پنجاب اسمبلی رائے ممتاز حسین بابر ، اراکین پنجاب اسمبلی نجیب اﷲ نیازی ، غضنفر عباس چھینہ ، عارف گل، شیخ اعجاز ، نعیم اﷲ گل سمیت دیگر دوست شریک ہوئے جن کا نام لکھوں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی ۔ یہاں ایک دوست کا چلتے چلتے ضرور ذکر کرنا چاہوں گا ، یہ ہیں پنجاب کے وزیر جنگلات ملک آصف بھا ، وہ درویش منش انسان ہیں ۔ ان کی درویشی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ وزیر ہونے کے باوجود وہ پیپلزہاؤس میں رہ رہے ہیں ۔
انہوں نے جی او آر میں سرکاری رہائش گاہ نہیں لی اور اپنے ساتھی ارکان اسمبلی کے ساتھ رہ کر خوش ہیں ۔ ورنہ آج کل کے حالات میں وہ کون ہے جو سرکاری رہائش کا طلب گار نہ ہو ۔ ملک آصف بھا خوشاب سے 2002ء میں پہلی بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں پارلیمانی سیکرٹری برائے بیت المال بنایا گیا۔ انہوں نے اس الیکشن میں ٹوانہ خاندان کو شکست دی ۔ وہ 2008ء میں آزاد الیکشن جیت گئے اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔ اب 2013ء میں تیسری بار بھاری اکثریت سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں ۔ وہ بڑے مخلص آدمی ہیں، ان کا اپنے حلقے میں عام آدمی تک براہ راست رابطہ ہے۔ اس تقریب کو کامیاب بنانے میں وزیر انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کا اہم رول تھا ، انہوں نے اس تقریب کی ساری کوآرڈینیشن کی ۔
رانا ثناء اﷲ کو نواز شریف اور شہباز شریف نے وزیر بنایا اور وہ ان پر بہت اعتماد کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی پنجاب کی کارکردگی اور گورننس کے حوالے سے مثال دی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے اور امن کی صورتحال ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں اس امن میں رانا ثناء اﷲ کا بہت بڑا کردار ہے اور یہ کردار پنجاب پولیس سے بھی زیادہ ہے لیکن یہاں پر شہباز شریف کو بھی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے رانا ثناء اﷲ جیسی با صلاحیت اور مخلص شخصیت پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنی ٹیم میں شامل کیا۔