سیلاب کے ملکی معیشت پر اثرات

بیوروکریسی کے غیر ضروری اخراجات و مراعات پر پابندی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جانی چاہیے ۔

ملک کا دو تہائی حصہ پانی سے متاثر ہونے سے نقل و حمل اور اشیاء کی ترسیل بھی بری طرح متاثر ہے، زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ان حالات سے محفوظ ہو۔ ملکی معیشت جو پہلے ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے موجودہ سیلابی صورتحال سے ملکی اقتصادی پریشانیاں مزید بڑھنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ سیلاب سے ملکی معیشت کو 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق سیلاب ہی کی وجہ سے معاشی شرح نمو کا 3.5 فیصد کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا ، شرح نمو کا ہدف کم کرکے2.3 فیصد کردیا گیا ہے ، ادائیگیوں کے توازن اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی ملکی معیشت سیلاب سے مزید تباہ ہوگئی، سنبھالنے کے لیے دوست ملکوں سے تعاون چاہیے۔

آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری کے باوجود پاکستان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں, بارشوں اور سیلاب سے اہم شعبوں کی پیداوار میں نمایاں کمی سے ملکی برآمدات بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث تجارتی خسارہ 3 ارب ڈالر بڑھنے کا امکان ہے۔ رواں سال ملک میں مہنگائی کی شرح 25 سے 27 فیصد رہنے کا خدشہ ہے۔

بدقسمتی سے ملک میں تمام اشیاء خصوصاً یوٹیلیٹیز پر بھاری ٹیکسز اور محصولات غیر معمولی طور پر بڑھنے کے باوجود معیشت میں گراؤٹ کا رجحان برقرار ہے۔ زرعی معیشت ہونے کے باوجود اشیائے خورونوش 70 فیصد عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔

مہنگائی ریکارڈ سطح پر ہے اور ملک کے سماجی و اقتصادی شعبوں میں ترقی کا فقدان ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے اسٹاک مارکیٹ طویل المیعاد بنیادوں پر متاثر ہوسکتی ہے لیکن آگے جاکر ان اثرات سے اسٹاک مارکیٹ نکل جائے گی۔ دوسری جانب شرح سود پہلے ہی بلند سطح پر ہے جس میں مزید اضافے کی توقع نہیں لیکن مہنگائی بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر کمی کی بھی امید نہیں ہے۔

سیلاب کے تباہ کن اثرات ہماری زراعت پر براہ راست مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان جس کی معیشت 21 فیصد جی ڈی پی زراعت پر منحصر ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 45 فیصد ملازمتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے جڑی ہوئی ہیں اور 60 فیصد برآمدات زراعت پر مبنی اشیاء سے جڑی ہیں۔

حالیہ سیلابوں سے اندازاً 20 لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔ سندھ میں 15 لاکھ ایکڑ زمین، بلوچستان میں 3.5 لاکھ اور پنجاب میں 1 لاکھ 80 ہزار کے قریب رقبہ سیلاب سے تباہ ہو گیا ہے۔ اس رقبے پر لگی ہوئی فصلوں میں 2.5 ملین ٹن چاول، 7.5 ملین ٹن گنا، 0.7 ملین ٹن کاٹن اور 0.3 ملین ٹن مکئی سیلاب کے پانی سے تباہ ہو گئے ہیں اور اگلی فصل لگانے کے لیے بھی کسانوں کو زمین تیار کرنے میں بہت وقت لگے گا، جس کی وجہ سے ملک میں غذائی بحران کا بھی اندیشہ ہے۔ چھوٹی فصلیں یعنی سبزی اور کھجور بھی سیلابی پانی سے متاثر ہوئے ہیں۔

فصلوں کی تباہی سے جہاں غذا کی قلت پیدا ہو گئی وہیں دوسری طرف کھانے پینے کی جو اشیاء موجود ہیں ان کی قیمتوں میں انتہائی اضافے کی توقع ہے اس وقت حکومت کو عام لوگوں کو خوراک کی قلت سے بچانے کے لیے ہمسایہ ملکوں سے اجناس درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔

مقامی سبزی اور پھل منڈیوں کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان ، سندھ ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے کئی اضلاع میں سیلابی صورتحال کے باعث سبزیوں ، پھلوں اور دیگر اجناس کی ترسیل متاثر ہوگئی ہے جب کہ پانی میں بڑے پیمانے پر سبزیاں پھل ضایع بھی ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی منڈیوں میں سبزیوں اور پھلوں کی آمد کم ہونے کے باعث قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر جانوروں کی ہلاکت اور ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے گوشت اور دودھ کی بھی قیمت بڑھنے کا خدشہ ہے۔

مقامی ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ گھاس، بھوسہ اور دیگر چارے کی آمد رک گئی ہے جس کی وجہ سے چارہ مہنگا ہوگیا ہے، ڈیری فارمرز نے لاگت بڑھنے کے پیش نظر دودھ کی قیمت میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔

عالمی مارکیٹ میں بھی اجناس کی قیمتیں بلند سطح پر ہے اوپر سے ملک میں سیلابی صورتحال سے اشیاء صرف کی ترسیل متاثر ہونے کے باعث امکان ہے کہ آنے والے دو ماہ میں مہنگائی زیادہ رہے گی اور ماہانہ مہنگائی کی شرح 26تا27فیصد رہنے کا امکان ہے تاہم نومبر میں صورتحال معمول پر آنے کی توقع ہے۔

زراعت میں بہتری کے لیے سستے بیج ، کھاد اور بجلی کی فراہمی، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔


بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے۔ پانی کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اسے فوری بحال کیا جائے، سیلاب زدہ علاقوں کو ٹیکس فری زونز قرار دینا چاہیے، اور ان علاقوں کے لیے بجلی کے ٹیرف کو کم کر دینا چاہیے، ملکی اور غیر ملکی امداد سے ادویات اور خوراک کا فوری انتظام ضروری ہے، چھوٹے کسانوں کو جن کی زمین 30 ایکڑ سے کم ہے ان کے قرضے معاف کرنے چاہئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر سب اسٹیک ہولڈرز کو دنیا کی توجہ ہمارے ملک پر آئے ہوئے اس بھیانک ڈیزاسٹر کی طرف کرانی چاہیے تاکہ پاکستان میں جلد از جلد ہنگامی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے۔

جو قرض ادا کرنا ہے تمام ممالک سے اس کو ختم یا کم کرنے کی بات کی جائے، ایکسپورٹ کے لیے خام مال جو درآمد کیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے خام مال پر ٹیکس کو ختم کیا جائے۔

دوسری جانب جے ایس گلوبل نے اپنی ریسرچ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کسانوں کے ٹیوب ویل اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے جب کہ کھاد کی قیمت پہلے ہی بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آنے والی فصلیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔

پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو ملک کی جی ڈی پی کا 50 فیصد زراعت پر مشتمل تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غلط زرعی پالیسی اور کاشت کاری کو دنیا کے جدید اصولوں پر نہ چلانے کی وجہ سے ابھی آدھا ہو گیا ہے۔

پاکستان موسمیاتی ماحولیاتی چیلنج سے متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور حالیہ سیلاب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، اگر ہم نے نئی ٹیکنالوجی اور ٹریننگ میں سرمایہ کاری نہ کی تو اس چینج کے اثرات کی وجہ سے زراعت پر منحصر جی ڈی پی 5 فیصد پر بھی جا سکتا ہے۔

اس وقت جہاں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے فوری اقدامات ہیں۔ حکومت نے نقصانات کا تخمینہ 10 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے پہلے تقریباً 8 کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے تھے جس میں مزید اضافہ ہوگا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی صورتحال کے باعث زراعت ، اسمال انڈسٹریز اور دیگر ذاتی روزگار کرنے والے لوگوں کو براہ راست بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور شہریوں کی قوت خرید کم ہونے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی سست پڑنے کا امکان ہے جس کا اثر روزگار کے مواقعے کم ہونے کی صورت میں نکلے گا اور ملک میں بے روزگاری مزید بڑھ سکتی ہے۔

آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کے لیے قرضے پر نظرثانی اور توسیع کے لیے اپنی پیشگی شرائط عائد کیں جس پر غریب عوام کے لیے تو بھاری ٹیکسز اور لیویز عائد کر دی گئیں لیکن اراکین پارلیمنٹ، سرکاری افسران اور بیوروکریسی کی مراعات پر کوئی کٹ نہیں لگا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے، ملک میں مختلف کارٹیلز بھی (کاروباری مافیاز) مضبوط ہوگئے۔

یہ کارٹیلز حکومت کی رضامندی و غیر رضامندی سے بنیادی اشیائے خورونوش اور پٹرولیم کی قیمتوں اور سپلائی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ درحقیقت حکومت ان اندرونی اور بیرونی گروہوں ( کارٹیلز) کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔

یہی صورت حال پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی درپیش تھی اور اب اتحادی حکومت کے آنے کے بعد بھی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اس وقت ریاست کا معاشی انتظام غریب عوام پر بھاری اور تکلیف دہ ٹیکس نظام کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جو طویل مدت تک برقرار نہیں رہ سکتا۔ یقیناً ایٹمی پاکستان کا معاشی انتظام ایک کارپوریٹ کمپنی کی طرح نہیں چلایا جا سکتا اور نہ ہی اسے ایسے نااہل اور غیر سنجیدہ اقتصادی منتظمین کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے جن کی ترجیح پاکستان کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ اپنی عیش و عشرت پر خرچ کرنا ہو۔

اس بحرانی صورتحال میں جہاں سیلاب نے بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرین کی بحالی، بلا تفریق عوام کو ریلیف کی فراہمی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں کو دوبارہ جوڑنے اور ڈیموں اور پانی کے ذخیروں کی تعمیرکے ذریعے مستقبل میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے حکمت عملی وضع کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کی جائے۔

حکومت کو پاکستان کے معاشی انتظام کے لیے سنجیدہ اور انقلابی اصلاحات کے ذریعے ایسے اقدامات شروع کرنے چاہئیں کہ ملکی معیشت کا بیرونی ذرایع پر انحصار کم سے کم ہو۔ سرکاری افسران، اشرافیہ اور بیوروکریسی کے غیر ضروری اخراجات و مراعات پر پابندی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جانی چاہیے ۔
Load Next Story