جنگِ ستمبر‘ شاعروں موسیقاروں اور گلوکاروں کا کردار

جنگِ ستمبر میں ایک طرف جہاں پاک فوج کے جوان اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کر رہے تھے ، وہیں دوسری طرف اس جنگِ عظیم کے دوران ہمارے شاعروں ، موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔

اُن شاعروں اور گلوکاروں کا ایک ایک نغمہ للکار بن کر اُبھرا۔ اُس وقت ریڈیو پاکستان لاہور سینٹر سے حملے کی خبر نشر ہوتی تو اِس کے فورا بعد ہی ملی نغمہ لگا دیا جاتا۔ جس سے افواج پاکستان کا جذبہ اور بھی بڑھ جاتا اس جنگ ِستمبر کے دوران ملکہ ترنم نور جہاں اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ ایک بہادر اور نڈر مجاہدہ کی حیثیت سے سامنے آئیں۔

جنگ ِستمبر کے دوران انھوں نے 17 دنوں میں 17 جنگی ترانے ریکارڈ کروائے اُس وقت ہمارے شاعر حضرات اس قدر بیدار تھے کہ ہر روز نیا ترانہ یا ملی نغمہ لکھا جاتا جسے میڈم نور جہاں یا کسی اور گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کر کے نشر کیا جاتا۔ تاریخ کے اوراق میں ان ترانوں کے پروڈیوسر اعظم خان بتاتے ہیں کہ پہلے دن '' میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں'' دوسرے دن '' میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی'' جب کہ تیسرے دن کا ترانہ '' اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے '' جیسے لازوال نغمے اور ترانے معروف شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم کی تخلیق تھے۔ چوتھے دن جو نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ، اس کے تخلیق کار تنویر نقوی تھے۔

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

یہ لہو سرخی کی آزادی کے افسانے کی

یہ شفق رنگ لہو

اس کے بعد علامہ اقبال کا کلام ''ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن '' و دیگر نغمے اور ترانے ملکہ ترنم نور جہاں کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ ہو کر نشر ہوئے۔ جنگ ِستمبر کے بعد ایک انٹرویو کے دران ملکہ ترنم نور جہاں کا کہنا تھا کہ ''میں نے جنگ کے دوران جو ملی اور جنگی ترانے پیش کیے وہ محض ترانے نہیں تھے میری ممتا تھی۔

اس جنگ کے دوران میری بیٹیاں شدید بخار میں مبتلا تھیں مگر جنگ شروع ہوتے ہی مجھے جب ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر شمس الدین بٹ اور سنیئر پروڈیوسر اعظم خان کا فون آیا تو میں سب مصروفیات ترک کرکے بیمار بیٹیوں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر اس عزم کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن روانہ ہو گئی کہ اس وقت مختلف محاذوں پر دشمن سے نبرد آزما میرے ہزاروں مجاہد اور بہادر بیٹوں کو میری ضرورت ہے ، تو میں اپنے وطنِ عزیز کی تینوں مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرنے چلی آئی اس دوران مجھے میری بڑی بیٹی ظل ِہما کا فون بھی آیا کہ '' امی فورا گھر آجاؤ'' مگر میں نے جواب میں کہا کہ '' میں یہیں مروں گی لیکن ملک و قوم اور اپنی فوج کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔''ملکہ ترنم نور جہاں اور صوفی غلام مصطفی تبسم کے علاوہ بھی ہمارے بہت سے شاعروں ، موسیقاروں اور گلوکاروں نے جنگ ِستمبر کے دوران افواجِ پاکستان کی جرات اور بہادری اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کئی لازوال ملی نغمے اور ترانے تحریر کیے۔

جنھیں ریڈیو پاکستان سینٹر کے مختلف شہروں سے موسیقاروں اور گلوکاروں نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروا کر نشر کیے۔ ان میں طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا نغمہ عنایت حسین بھٹی کی آواز میں فلم چنگیز خان کا ترانہ '' اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا '' اس کے فورا بعد منور سلطانہ، دھنی رام اور قادر فریدی کی آواز میں نغمہ نشر ہوتا '' آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو '' اس نغمے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اسے ایک فلم کے لیے لکھا گیا تھا۔

ریڈیو پاکستان میں جتنے بھی جنگِ ستمبر کے حوالے سے پہلا ترانہ 6 ستمبر ہی کو تیار ہوا جو دراصل صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی تقریر کے الفاظ '' ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے'' تو اس زبردست جملہ سے متاثر ہو کر حمایت علی شاعر نے لکھا '' جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیو، مجاہدو ' ' یہ نغمہ آج بھی پاک فوج کے جذبات کو گرما دیتا ہے۔


اس نغمے کو مسعود رانا اور شوکت علی کی آواز میں پیش کیا گیا۔ اس نغمے کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ یہ نغمہ اُس وقت 2 دن قبل ہی ریلیز ہونے والی فلم ''مجاہد '' کا حصہ تھا جو جنگِ ستمبر کا مشہور ملی نغمہ ثابت ہوا۔ اسی روز مسعود رانا اور شوکت علی کی آواز میں حبیب جالب کا تحریر کردہ نغمہ '' کر دے گی قوم زندہ ماضی کی داستانیں '' بھی ریکارڈ ہوا جو بعد میں فلم '' وطن کا سپاہی'' کا حصہ بنا ، جب کہ فلم شہید کے لیے فیض احمد فیض کا لکھا ہوا نغمہ '' نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں'' بھی ریڈیو پاکستان لاہور سے افواج پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے گایا گیا۔

اس نغمے کو آواز دینے والے منیر حسین جنھوں نے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جن گیتوں کو اپنی آواز میں گا کر خود کو متعارف کروایا۔ اُن میں دشمن للکاریا ساڈے دیس دے جان نثاراں نوں ، مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو، زندہ ہے لاہور پایندہ ہے لاہور، سیالکوٹ کے لوگوں پہ فخر ہے ہم کو اور '' سمندروں کے پانیو! بہو تو تیز تر بہو!'' جیسے لازوال گیت شامل ہیں۔جنگِ ستمبر کے دوران پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور موسیقار میاں شہر یار نے مشیر کاظمی کا لکھا ہوا ایک نغمہ گلوکارہ نسیم بیگم کی احساس میں ڈوبی ہوئی آواز میں ریڈیو پاکستان سے پیش کیا ، اس نغمے کو بعض لوگ ملکہ ترنم نور جہاں سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔

اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

اس کے بعد مشہور گائیک اُستاد امانت علی خان نے بھی دو قومی نغمے ریڈیو پاکستان کو ریکارڈ کروائے ، جس میں ایک لازوال نغمہ تو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں ایسے محفوظ ہے جس کو بھول جانا نا ممکن ہوگا۔ اس نغمے کے بول تھے '' آ وطن پیارے وطن '' اس نغمے کو جلیل الدین عالی نے تحریر کیا۔ اس کے علاوہ جن گلوکاروں نے افواج پاکستان کے جوانوں کے لیے نغمے گائیں اُن میں صہبا اختر ، محمد عالم لوہار ، مہدی حسن، تاج ملتانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام نغموں کو آج بھی سُن کر روح بیدار ہو جاتی ہے ، کیونکہ یہ تمام تر گلوکار اپنے گلے سے نہیں بلکہ اپنے دل سے گاتے ہوئے روح میں اُتر جاتے تھے۔ جنگِ ستمبر کے حوالے سے جن شاعروں ، موسیقاروں اور گلوکاروں نے افواج پاکستان کے حوصلوں کو بلند رکھنے میں اہم خدمات انجام دیں۔

انھیں ہماری ادبی، ثقافتی اور فنی تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر پائے گی ، کیونکہ صدیوں تک شاعروں کے لکھے ہوئے نغمے ، موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنیں اور گلوکاروں کے گائے ہوئے یہ خوبصورت نغمہ ہائے ملی آنے والے طلبہ اور وطنِ عزیز پاکستان کی ملت کے لیے مشعل راہ رہیں گے ، آخر میں جنگِ ستمبر کے غازیوں کے نام اپنے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔

مَیں فوجی بنوں گا ، سپاہی بنوں گا

شہادت کے رستے کا راہی بنوں گا

لکھے روز و شب جو چمن کے ترانے

مَیں ایسے قلم کی سیاہی بنوں گا
Load Next Story