سانحہ بلدیہ فیکٹری دس برس بیت گئے
سانحہ 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا تھا، جس میں 260 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے
انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ایک حقیقت کا ہمارے سامنے انکشاف ہوتا ہے کہ ہر دور میں انسان کو حادثات کا سامنا رہا ہے ، یہ صداقت بھی ہے کہ عصر حاضر میں بھی انسان کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کم و بیش اس وقت بھی قریب قریب 20 لاکھ لوگ سالانہ پوری دنیا میں حادثات کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بہرکیف جب انسانی زندگی رواں دواں ہے تو انسان کو چھوٹے بڑے حادثات کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ حادثات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنھیں لاکھ کوشش کے باوجود ذہن سے محو نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی حادثات میں ایک حادثہ ہے سانحہ بلدیہ فیکٹری ، علی انٹرپرائزز۔ یہ سانحہ آج سے ٹھیک دس برس قبل برپا ہوا تھا ، یہ ایک ہولناک آتشزدگی تھی جوکہ 26 گھنٹے تک جاری رہی اور جب اس آتشزدگی پر قابو پایا گیا تو 260 افراد اس آتشزدگی کی لپیٹ میں آ کر شہید ہو چکے تھے اور ان شہدا کے لواحقین کی چیخ و پکار تھی کہ گویا قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی،گویا 2 کروڑ آبادی والا شہر کراچی اپنی کاروباری و عملی زندگی میں مصروف تھا ، یہ سانحہ 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا۔
اس سانحے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سانحے میں 50 افراد ایسے بھی تھے جوکہ اس آتشزدگی کے وقت اس فیکٹری میں موجود تھے اور قدرت کو ان کی زندگی مطلوب تھی۔ سو یہ 50 افراد بچ گئے مگر یہ اس قدر شدید زخمی ہوگئے تھے کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جوکہ بچ تو گئے مگر تاحیات معذوری ان کی منتظر تھی۔ یہ 50 افراد آج بھی معذوری کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام پورے کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت بیان کرنا، دل گردے کا کام ہے کہ پھر ان لوگوں کے گھر والے کس کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک الگ داستان ہے البتہ چند تلخ ترین حقائق ضرور ہیں جوکہ اگر بیان کردیے جائیں تو بے محل نہ ہوگا۔ اس سانحے کے وقت اس وقت کی حکمران جماعت نے تین وعدے شہدا کے لواحقین سے کیے تھے۔
(اول) ہر ایک شہید کے لواحقین کو امدادی رقم دی جائے گی۔
(دوم) ہر ایک شہید کے ورثا میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔
(سوم) ہر ایک متاثرہ خاندان کو ایک ایک رہائشی پلاٹ دیا جائے گا۔
ماسوائے نقد رقم کے دیگر دو وعدے سندھ حکومت آج تک پوری نہ کرسکی۔ البتہ امید کرتے ہیں سندھ میں آج بھی اسی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ نے مندرجہ بالا تین وعدے کیے تھے چنانچہ لازم ہے کہ سندھ حکومت دیگر دو وعدوں کو بھی پورے کرے۔ ایک وعدہ میاں محمد نواز شریف نے بھی کیا تھا کہ ہر ایک متاثرہ خاندان کو حکومت پنجاب کی جانب سے تین تین لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
البتہ میاں محمد نواز شریف جوکہ بعد ازاں 2013 میں وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے مگر شہدا کے لواحقین کو رقم دینے سے قاصر رہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں دس برس قائم رہی۔ اب ایک صوبائی وزیر کا احوال بھی عرض کردیتے ہیں۔
یہ سانحہ بلدیہ فیکٹری شہدا کی چھٹی برسی کا دن تھا کہ وزیر موصوف ایک پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ ''آج شہدا بلدیہ فیکٹری کی پانچویں برسی ہے'' ہم نے یہ الفاظ سنے تو یوں نظر انداز کردیے کہ آخر وزیر موصوف بھی انسان ہیں اور بھول چوک انسان سے ہو ہی جاتی ہے، مگر تھوڑی دیر میں یہ وزیر موصوف متاثرہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے مقام پر بہ نفس نفیس آئے اور ایک طویل ترین تقریر کر ڈالی۔
یہ روایتی سیاست دان و وزیر کی تقریر تھی، محترم وزیر نے خوب وعدے کیے، متاثرین کو ہر قسم کی امداد و عدالت عالیہ سے انصاف کی فراہمی کا پورا پورا یقین دلایا، البتہ اپنی تقریر کے اختتام پر اپنی قابلیت کا ان الفاظ میں اظہار کردیا کہ کون سی فیکٹری ہے جوکہ آتشزدگی کا شکار ہوئی تھی؟ یہ تھی ان وزیر موصوف کی بلدیہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے بارے میں معلومات۔ یہ صاحب آج بھی سندھ حکومت میں وزارت پر فائز ہیں اور نجی ٹیلی وژن چینلز پر اپنی گفتگو سے فیض یاب فرماتے رہتے ہیں۔
حالانکہ کمسن بچے بھی جب اس متاثرہ فیکٹری کے سامنے سے اپنے والدین کے ساتھ گزرتے ہیں تو وہ اپنے والدین کو متوجہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ابو ، امی یہ فیکٹری تھی، جس میں مزدور جل کر فوت ہوئے تھے۔ گویا کراچی شہر کا بچہ بچہ اس فیکٹری میں ہونے والے سانحے سے آگاہ ہے، مگر یہ وزیر موصوف اس فیکٹری کے سامنے کھڑے تھے اور اس فیکٹری کے مقام سے بے خبر تھے۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بلدیہ فیکٹری کے شہدا کی چھٹی برسی کے روز یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 11 ستمبر کو سیفٹی ڈے کے طور پر ہر سال منایا جائے گا مگر پورے صوبہ سندھ میں آج بھی مزدور بغیر سیفٹی کے کام کرتے ہیں اور سیفٹی اصولوں پر عمل درآمد کم کم ہی نظر آتا ہے۔
اس بے عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس 27 اگست کو کورنگی مہران ٹاؤن میں ایک فیکٹری بدترین آتشزدگی کا شکار ہوگئی اور 16 مزدور اس بدترین آتشزدگی کے باعث شہید ہوگئے۔ ہمارے خیال میں اگر سیفٹی قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو بہت سارے چھوٹے بڑے حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ممکن تھا کہ سانحہ مہران ٹاؤن رونما نہ ہوتا۔ چنانچہ لازم ہے کہ تمام فیکٹریز میں سیفٹی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے تمام مزدوروں کو تمام قسم کے قانونی حقوق حاصل ہوں۔
تمام فیکٹریوں میں خواتین و مرد مزدوروں کو مساوی اجرت دی جائے۔ آخر میں ہم شہدا بلدیہ فیکٹری کے تمام شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ تمام صوبائی حکومتیں و وفاقی حکومت تمام مزدوروں کا کام کے دوران تحفظ یقینی بنائیں گی، تمام مزدوروں کو تمام قانونی حقوق دلائیں گی۔
چنانچہ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کم و بیش اس وقت بھی قریب قریب 20 لاکھ لوگ سالانہ پوری دنیا میں حادثات کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بہرکیف جب انسانی زندگی رواں دواں ہے تو انسان کو چھوٹے بڑے حادثات کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ حادثات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنھیں لاکھ کوشش کے باوجود ذہن سے محو نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی حادثات میں ایک حادثہ ہے سانحہ بلدیہ فیکٹری ، علی انٹرپرائزز۔ یہ سانحہ آج سے ٹھیک دس برس قبل برپا ہوا تھا ، یہ ایک ہولناک آتشزدگی تھی جوکہ 26 گھنٹے تک جاری رہی اور جب اس آتشزدگی پر قابو پایا گیا تو 260 افراد اس آتشزدگی کی لپیٹ میں آ کر شہید ہو چکے تھے اور ان شہدا کے لواحقین کی چیخ و پکار تھی کہ گویا قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی،گویا 2 کروڑ آبادی والا شہر کراچی اپنی کاروباری و عملی زندگی میں مصروف تھا ، یہ سانحہ 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا۔
اس سانحے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سانحے میں 50 افراد ایسے بھی تھے جوکہ اس آتشزدگی کے وقت اس فیکٹری میں موجود تھے اور قدرت کو ان کی زندگی مطلوب تھی۔ سو یہ 50 افراد بچ گئے مگر یہ اس قدر شدید زخمی ہوگئے تھے کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جوکہ بچ تو گئے مگر تاحیات معذوری ان کی منتظر تھی۔ یہ 50 افراد آج بھی معذوری کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام پورے کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت بیان کرنا، دل گردے کا کام ہے کہ پھر ان لوگوں کے گھر والے کس کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک الگ داستان ہے البتہ چند تلخ ترین حقائق ضرور ہیں جوکہ اگر بیان کردیے جائیں تو بے محل نہ ہوگا۔ اس سانحے کے وقت اس وقت کی حکمران جماعت نے تین وعدے شہدا کے لواحقین سے کیے تھے۔
(اول) ہر ایک شہید کے لواحقین کو امدادی رقم دی جائے گی۔
(دوم) ہر ایک شہید کے ورثا میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔
(سوم) ہر ایک متاثرہ خاندان کو ایک ایک رہائشی پلاٹ دیا جائے گا۔
ماسوائے نقد رقم کے دیگر دو وعدے سندھ حکومت آج تک پوری نہ کرسکی۔ البتہ امید کرتے ہیں سندھ میں آج بھی اسی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ نے مندرجہ بالا تین وعدے کیے تھے چنانچہ لازم ہے کہ سندھ حکومت دیگر دو وعدوں کو بھی پورے کرے۔ ایک وعدہ میاں محمد نواز شریف نے بھی کیا تھا کہ ہر ایک متاثرہ خاندان کو حکومت پنجاب کی جانب سے تین تین لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
البتہ میاں محمد نواز شریف جوکہ بعد ازاں 2013 میں وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے مگر شہدا کے لواحقین کو رقم دینے سے قاصر رہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں دس برس قائم رہی۔ اب ایک صوبائی وزیر کا احوال بھی عرض کردیتے ہیں۔
یہ سانحہ بلدیہ فیکٹری شہدا کی چھٹی برسی کا دن تھا کہ وزیر موصوف ایک پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ ''آج شہدا بلدیہ فیکٹری کی پانچویں برسی ہے'' ہم نے یہ الفاظ سنے تو یوں نظر انداز کردیے کہ آخر وزیر موصوف بھی انسان ہیں اور بھول چوک انسان سے ہو ہی جاتی ہے، مگر تھوڑی دیر میں یہ وزیر موصوف متاثرہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے مقام پر بہ نفس نفیس آئے اور ایک طویل ترین تقریر کر ڈالی۔
یہ روایتی سیاست دان و وزیر کی تقریر تھی، محترم وزیر نے خوب وعدے کیے، متاثرین کو ہر قسم کی امداد و عدالت عالیہ سے انصاف کی فراہمی کا پورا پورا یقین دلایا، البتہ اپنی تقریر کے اختتام پر اپنی قابلیت کا ان الفاظ میں اظہار کردیا کہ کون سی فیکٹری ہے جوکہ آتشزدگی کا شکار ہوئی تھی؟ یہ تھی ان وزیر موصوف کی بلدیہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے بارے میں معلومات۔ یہ صاحب آج بھی سندھ حکومت میں وزارت پر فائز ہیں اور نجی ٹیلی وژن چینلز پر اپنی گفتگو سے فیض یاب فرماتے رہتے ہیں۔
حالانکہ کمسن بچے بھی جب اس متاثرہ فیکٹری کے سامنے سے اپنے والدین کے ساتھ گزرتے ہیں تو وہ اپنے والدین کو متوجہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ابو ، امی یہ فیکٹری تھی، جس میں مزدور جل کر فوت ہوئے تھے۔ گویا کراچی شہر کا بچہ بچہ اس فیکٹری میں ہونے والے سانحے سے آگاہ ہے، مگر یہ وزیر موصوف اس فیکٹری کے سامنے کھڑے تھے اور اس فیکٹری کے مقام سے بے خبر تھے۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بلدیہ فیکٹری کے شہدا کی چھٹی برسی کے روز یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 11 ستمبر کو سیفٹی ڈے کے طور پر ہر سال منایا جائے گا مگر پورے صوبہ سندھ میں آج بھی مزدور بغیر سیفٹی کے کام کرتے ہیں اور سیفٹی اصولوں پر عمل درآمد کم کم ہی نظر آتا ہے۔
اس بے عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس 27 اگست کو کورنگی مہران ٹاؤن میں ایک فیکٹری بدترین آتشزدگی کا شکار ہوگئی اور 16 مزدور اس بدترین آتشزدگی کے باعث شہید ہوگئے۔ ہمارے خیال میں اگر سیفٹی قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو بہت سارے چھوٹے بڑے حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ممکن تھا کہ سانحہ مہران ٹاؤن رونما نہ ہوتا۔ چنانچہ لازم ہے کہ تمام فیکٹریز میں سیفٹی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے تمام مزدوروں کو تمام قسم کے قانونی حقوق حاصل ہوں۔
تمام فیکٹریوں میں خواتین و مرد مزدوروں کو مساوی اجرت دی جائے۔ آخر میں ہم شہدا بلدیہ فیکٹری کے تمام شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ تمام صوبائی حکومتیں و وفاقی حکومت تمام مزدوروں کا کام کے دوران تحفظ یقینی بنائیں گی، تمام مزدوروں کو تمام قانونی حقوق دلائیں گی۔