بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شدید اختلافات

مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراء اور مشیروں نے اپنے عہدوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراء اور مشیروں نے اپنے عہدوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ فوٹو:فائل

بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراء اور مشیروں نے اپنے عہدوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں کیاگیا جوکہ مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈروسینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری کی صدارت میں کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ(ن) اورمسلم لیگ(ق) کے وزراء ،مشیروں اور اراکین نے شرکت کی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اجلاس میں صوبائی وزراء اورمشیروں نے استعفے دینے کا حتمی فیصلہ کیا ہے اور استعفے تمام وزراء اور مشیروں نے سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری کے پاس جمع کروادیئے ہیں، ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اجلاس میں اہم اور سخت فیصلے بھی کئے گئے جن کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر وصوبائی صدر اور سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ خان زہری کافی عرصے کے بعد جب کوئٹہ پہنچے تو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کے پاس صوبے میں واضح اکثریت ہے جب چاہیں حکومت تبدیل کر سکتے ہیں مگر پارٹی کے قائد، وزیراعظم نوازشریف کے حکم اور مری معاہدے کے ہم پابند ہیں ۔نواب ثناء اﷲ زہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ کے وزراء اورمشیروں نے وزیر اعلیٰ سے شکایت اور تحفظات پر احتجاج کرتے ہوئے دفاتر کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور استعفے میرے پاس جمع کروا رکھے ہیں جنہیں ابھی تک مرکزی قیادت کو ارسال نہیں کیا گیا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آئے تھے۔

میں نے ان سے یہ بات کہی تھی کہ اب اداکار اور رائٹر تبدیل ہو گیا ہے لیکن ولن وہی پرانا ہے اسے جلد تبدیل کر دیں، لیکن شاید وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو میری بات سمجھ نہیں آئی، اگر انہوں نے اب بھی ولن کو تبدیل نہیں کیا تو وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کو یہ تاثر ختم کرنا ہو گا کہ وزیر اعلی ٰ ہاؤس پر صرف دو جماعتوں کا قبضہ ہے۔ اس وقت صوبے میں مخلوط حکومت ہے ہم اپنے قائد میاں محمد نوازشریف کے فیصلے کے پابند ہیں کیونکہ انہوں نے جو فیصلہ کیا ہم اس کی پاسداری کر رہے ہیں لیکن اکثریت ہمارے پاس ہے اگر ہم چاہیں تو حکومت کو تبدیل کر سکتے ہیں اور حکومت کی تبدیلی کے لئے ہمیں کسی اورجماعت کے کندھے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام صورتحال سے اپنے قائدین کو آگاہ کر دیا ہے اور اس کے باوجود میں پھر ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے اپنے وزراء اورمشیروں کے تحفظات سے انہیں آگاہ کروں گا جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔




سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی جانب سے احتجاج اور مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اﷲ زہری کی صحافیوں سے بات چیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت میں اختلافات موجود ہیں ۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) اس وقت صرف اپنی مرکزی قیادت کو دیکھ رہی ہے کہ وہ اسے اس معاملے میں کیا اشارہ کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت صوبے میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی بھی سگنل دیتی ہے تو بلوچستان میں جلد ہی سیاسی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اوران کی اتحادی جماعت پشتونخوامیپ نے مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کو اس حوالے سے مکمل طور پر گھیرے رکھا ہے۔ اپنے طور پر نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کی قیادت اس حوالے سے مطمئن ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مسلم لیگ(ن)کی مرکزی قیادت کو اس حوالے سے مکمل طور پر مطمئن رکھا ہوا ہے اورمسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کی حمایت انہیں حاصل ہے اس لئے مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت، وزراء اور مشیروں کے احتجاج کے باوجود کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی صوبائی قیادت کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے صوبے میں ان کے ساتھ جاری زیادتی اور ناانصافیوں سے پارٹی کی مرکزی قیادت کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت 60فیصد مطمئن ہوچکی ہے اور صوبے میں کسی وقت بھی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق اقتدار کی یہ رسہ کشی اب آخری مراحل میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے اور صوبے میں سیاسی تبدیلی کسی بھی وقت رونما ہو سکتی ہے جس کے لئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

حال ہی میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اہلسنت والجماعت نے اپنے مرکزی امیر مولانا محمد احمد لدھیانوی کی آمد پر سیاسی جلسہ عام کرکے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ اہلسنّت والجماعت نے اپنی سیاست کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ عوام کی بڑی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ جماعت اہلسنت والجماعت کے صدر محمد احمد لدھیانوی نے اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران نہ صرف وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی بلکہ انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے بھی ملاقات کی۔ سیاسی حلقے آنے والے دنوں میں اہلسنّت والجماعت کو سیاسی جماعتوں کے لئے ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے جانب سے عطاء محمد زئی اور رضا محمد بلوچ کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کوئٹہ ، گوادر، حب ، خضدار، نوشکی قلات، مستونگ دالبندین، چاغی نوکنڈی، خاران جعفرآباد، سبی بولان آواران، تربت، پنجگور، اورماڑہ ،بسیمہ، تمپ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی اس دوران مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران کہا گیا کہ بلوچستان بالخصوص خضدار میں دانستہ طور پر حالات خراب کرنے کیلئے پارٹی کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے ۔ پارٹی رہنماؤں نے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کو اس کے مشن اور جدوجہد سے نہیں روکا جاسکتا۔
Load Next Story