یوکرائن کا بحران اور عالمی طاقتیں
اوباما نے یوکرائن کے سابق صدر وکٹر یانکووچ ، ان کے ایک اعلیٰ مشیر اور کریمیا کے دو باغی لیڈروں پر بھی پابندی عائد کردی
روس نے کریمیا کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق صدر پیوٹن نے کریمیا کی آزاد حیثیت کے اعلان پردستخط کر دیے ہیں۔ روس کے صدارتی دفتر کے ذرایع نے روس کی طرف سے کریمیا کو ایک خومختار ریاست تسلیم کرنے کے حوالے سے کہا کہ'یہ حکم نامہ اس دن سے لاگو ہوگا جس دن اس پر دستخط کیے گئے۔ اس سے پہلے کریمیا کی پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر یوکرائن سے علیحدگی اختیار کرنے اور روس کے ساتھ الحاق کے لیے درخواست دی تھی جب کہ امریکا اور یورپی یونین نے روس کے نائب وزیراعظم سمیت 32 افراد پر پابندیاں عائد کردیں۔ کریمیا کی پارلیمنٹ کی جانب سے منظوری کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کریمیا میں موجود یوکرائن کے تمام ریاستی اثاثوں کو قومیا لیا جائے گا۔ ادھر یوکرائن کی پارلیمان نے دارالحکومت کیف میں باضابطہ طور پر 40 ہزار فوجیوں کو جزوی طور پر اکٹھا کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ امریکا نے کریمیا میں ریفرنڈم کے جواب میں روس کے 7 اعلیٰ سرکاری حکام پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں روس کے نائب وزیراعظم، ڈوما کے سینئر ارکان اور صدر پیوٹن کے مشیر بھی شامل ہیں۔
اوباما نے یوکرائن کے سابق صدر وکٹر یانکووچ ، ان کے ایک اعلیٰ مشیر اور کریمیا کے دو باغی لیڈروں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین نے بھی21 روسی اور یوکرائنی شہریوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ یورپی یونین کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں 13 روسی اور 8 یوکرائنی حکام کے خلاف پابندیاں لگائی گئیں۔یو کرائن کے بحران کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کا علاقہ کریمیا اس سے الگ ہو گیا ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے اس بحث میں پڑے بغیر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بحران کے دنیا پرمثبت اثرات پڑیں گے یا کہ اس کا اثر منفی ہو گا۔ اس بحران سے ایک چیز تو واضح ہے کہ امریکا 'یورپی یونین اور روس کے درمیان ایک بار پھر محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن اب ایک بار پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آ رہے ہیں۔ شام کے معاملے میں بھی امریکا اور روس کے درمیان سخت اختلافات ہیں۔اس سے قبل عراق اور لیبیا کے مسئلے پر بھی روس نے امریکا کی مخالفت کی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے خود کو واحد سپر پاور کے درجے پر فائز کرتے ہوئے دنیا کے کمزور اور پسماندہ ممالک میں جارحیت کی۔عراق 'افغانستان'لیبیا 'صومالیہ اور شام اس کی واضح مثالیں ہیں۔
سوڈان میں امریکا اور یورپ کی مداخلت اس قدر بڑھی کہ اس ملک کے دو ٹکڑے کر دیے گئے اور جنوبی سوڈان کے نام سے الگ ملک بنا دیا گیا۔ اس سے قبل انڈونیشیا کے جزیرے مشرقی تیمورکو بھی آزاد ملک کا درجہ دے دیا گیا۔ جب امریکا اور یورپی یونین دنیا میں یہ کھیل کھیلیں گے تو پھر روس جیسا طاقتور ملک بھی یہی روایت پر عمل کرے گا۔ یوکرائن روس کے مقابلے میں کمزور ملک ہے۔ کریمیا میں روسی نژاد لوگوں کی اکثریت ہے۔ اسی عسکریت کا فائدہ اٹھا کر روس نے کریمیا کو اپنے اندر ضم کر لیا ہے۔ اب امریکا اور یورپی یونین جن شخصیات پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں 'کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقتور اقوام من مانی کررہی ہیں۔ وہ جس ملک کو چاہتی ہیں اسے تقسیم کر دیتی ہیں اور جسے چاہتی ہیں اسے متحد رکھتی ہیں۔ چین ایک طاقتور ملک ہے 'اس نے ہانگ کانگ بھی لے لیا اور مکاؤبھی اس کے پاس ہے۔ اس کے مقابلے میں کشمیری اور فلسطینی برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔بڑی طاقتوں کے اس دہرے معیار نے دنیا کو بدامنی کو ہوا دی۔یوکرائن کا بحران بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اوباما نے یوکرائن کے سابق صدر وکٹر یانکووچ ، ان کے ایک اعلیٰ مشیر اور کریمیا کے دو باغی لیڈروں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین نے بھی21 روسی اور یوکرائنی شہریوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ یورپی یونین کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں 13 روسی اور 8 یوکرائنی حکام کے خلاف پابندیاں لگائی گئیں۔یو کرائن کے بحران کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کا علاقہ کریمیا اس سے الگ ہو گیا ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے اس بحث میں پڑے بغیر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بحران کے دنیا پرمثبت اثرات پڑیں گے یا کہ اس کا اثر منفی ہو گا۔ اس بحران سے ایک چیز تو واضح ہے کہ امریکا 'یورپی یونین اور روس کے درمیان ایک بار پھر محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن اب ایک بار پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آ رہے ہیں۔ شام کے معاملے میں بھی امریکا اور روس کے درمیان سخت اختلافات ہیں۔اس سے قبل عراق اور لیبیا کے مسئلے پر بھی روس نے امریکا کی مخالفت کی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے خود کو واحد سپر پاور کے درجے پر فائز کرتے ہوئے دنیا کے کمزور اور پسماندہ ممالک میں جارحیت کی۔عراق 'افغانستان'لیبیا 'صومالیہ اور شام اس کی واضح مثالیں ہیں۔
سوڈان میں امریکا اور یورپ کی مداخلت اس قدر بڑھی کہ اس ملک کے دو ٹکڑے کر دیے گئے اور جنوبی سوڈان کے نام سے الگ ملک بنا دیا گیا۔ اس سے قبل انڈونیشیا کے جزیرے مشرقی تیمورکو بھی آزاد ملک کا درجہ دے دیا گیا۔ جب امریکا اور یورپی یونین دنیا میں یہ کھیل کھیلیں گے تو پھر روس جیسا طاقتور ملک بھی یہی روایت پر عمل کرے گا۔ یوکرائن روس کے مقابلے میں کمزور ملک ہے۔ کریمیا میں روسی نژاد لوگوں کی اکثریت ہے۔ اسی عسکریت کا فائدہ اٹھا کر روس نے کریمیا کو اپنے اندر ضم کر لیا ہے۔ اب امریکا اور یورپی یونین جن شخصیات پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں 'کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقتور اقوام من مانی کررہی ہیں۔ وہ جس ملک کو چاہتی ہیں اسے تقسیم کر دیتی ہیں اور جسے چاہتی ہیں اسے متحد رکھتی ہیں۔ چین ایک طاقتور ملک ہے 'اس نے ہانگ کانگ بھی لے لیا اور مکاؤبھی اس کے پاس ہے۔ اس کے مقابلے میں کشمیری اور فلسطینی برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔بڑی طاقتوں کے اس دہرے معیار نے دنیا کو بدامنی کو ہوا دی۔یوکرائن کا بحران بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔