دارالخلافہ یا دا رالخرافات
جو لوگ سرمایہ کاری کو ملک میں فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے بیانات داغ رہے ہیں وہ اپنے بچوں سمیت عملًا اس ملک سے جا چکے ہیں
ہمارے یہاں اور کچھ ہو یا نہ ہو تصویریں بڑی غضب کی چھپتی ہیں۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے بہترین نمونے سامنے آتے ہیں۔ کل کے اخباروں میں وزیر اعظم نواز شریف اور چین کے اسٹیٹ گرڈ کارپوریشن کے صدر جیازی کیانگ کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ دونوں سرخ پھولوں کے گلدستوں کے ارد گرد بیٹھے دو پرچموں کے سائے میں محو گفتگو ہیں۔ جیازی متوجہ ہیں، وزیر اعظم اپنے مخصوص انداز میں خوشگوار تاثرات کے ساتھ کچھ فرما رہے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کے مہنگے صوفے، ٹیلی فون، سنہری لکیروں والی تپائیا ں، سب کچھ ایک مکمل اور جاذب نظر لمحے کو تفصیل کے ساتھ تصویر کی صورت میں پیش کر رہا ہے۔ اس خبر کے ساتھ وزیر اعظم کا چھپا ہوا بیان بھی پاکستان کی زبردست نمایندگی کرتا ہے۔ خبر کے مطابق وزیر اعظم نے چینی مہمان کو یہ ضمانت دی کہ ان کی سرمایہ کاری اور اثاثے پاکستان میں محفوظ رہیں گے۔ اور بین الاقوامی کمپنیوں کو بہترین اور آسان شرائط پر پاکستان میں ترقی کا عمل تیز کرنے کے لیے خاص سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ خبر میں چائنا کے حوالے سے 35 ارب ڈالر کی اگلے پانچ سال میں سرمایہ کاری کا عندیہ بھی موجود ہے۔ کیوں کہ چین سے ہماری دوستی ہمیشہ سے ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری رہی ہے۔
لہٰذا وزیر اعظم کے ساتھ تمام فیصلہ ساز افراد اس میٹنگ میں موجود تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف، نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر، سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین مصباح اسمعیل، وزیر اعظم کے پرسنل سیکریٹری جاوید عالم اور ہمیشہ سے خوش لباس اور چاک و چوبند ہر دم حاضر ڈاکٹر آصف کرمانی، اس گروپ کی موجودگی سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ میٹنگ کتنی اہم تھی۔ ہم اس میٹنگ کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس خوبصورت ماحول پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے جو بذریعہ کیمرہ قوم تک پہنچایا گیا۔ لہٰذا اخباروں میں کچھ اور بھی لکھا گیا جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جس دن پاکستان چین تعاون اور وزیر اعظم کا بیان صفحہ اول کی زینت بنا اس روز ملک کے ایک اور اہم ادارے یعنی عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے بیان بھی چھپے ہوئے تھے ۔ اسلام آباد کچہری حملے کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے معزز بینچ کے اراکین، تصدق حسین جیلانی، عظمت سعید اور خلجی عارف حسین نے حالات حاضرہ پر اپنے ریمارکس کے ذریعے کچھ یوں تبصرہ فرمایا ''ضلعی عدالت پر حملہ ریاست کی ناکامی کی علامت ہے، ریاست شہریوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کی ذمے دار ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حملہ کرنے کا الزام قبول کرنے والی تنظیم نجانے اصلی بھی یا نہیں ہے ہو سکتا ہے فرضی نام ہو ، حکومت کو بتانا چاہیے کہ واقعے کا اصل ذمے دار کون ہے۔
حالات بہت خراب ہیں' حکومت کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں ۔ گھر سے کام کے لیے جانے والے ہر شخص کے اہل خانہ اس کی بحفاظت واپسی کے شدت سے منتظر رہتے ہیں بہت ہو گیا اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں ۔ حملہ کرنے والی تنظیم کو بخوبی علم ہے کہ اگر حکومت کو ان کے بارے میں پتہ چل بھی جائے تو کون سا حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کر لینی ہے''۔ اسی اخبار جس میں وزیر اعظم ہشاش بشاش چینی دوست کے ساتھ باہمی تعلقات مزید گہرے کر رہے تھے۔ تھر کے حوالے سے بھی کئی خبریں چھپی ہوئی تھی جن میں مزید بچوں کی اموات اور بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان خبروں کے مطابق مرکز اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے باوجود کئی طویل دن اور رات گزرنے کے بعد بھی اس علاقے میں سب لوگوں تک امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ ڈاکٹروں کی تعیناتی، گندم اور دوائیوں کی فراہمی، متحرک این جی اوز، ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کی بھرمار (جن میں سے چند ایک دوستوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ تھر پاکستان کا حصہ ہے) اس سب اچھل کود کے باوجود ہم اپنی سر زمین پر مرتے ہوئے بچے نہیں بچاپا رہے ہیں۔
میرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران شاید حقیقت کو ذہن سے جھٹک کر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان کاروباری ہے۔ اگر ان کو یہ اخبار پڑھنے کو ملے جس میں ملک کے ججز صاحبان شہریوں کی جان کے بارے میں فکر مند ہوں۔ تہذیب کے ختم ہو جانے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہوں۔ جہاں پر عدالتیں اپنے تحفظ کے لیے حکومت سے سیکیورٹی کی طالب ہوں اور منصف یہ کہہ رہے ہوں کہ حملہ آور تنظیموں کی روک تھام نہیں کی جا رہی اور ان کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ وہاں پر کیا میاں صاحب خود سرمایہ کاری کریں گے؟ پاکستان سے باہر سرمایہ جانے کی رفتار پاکستان کے اندر سرمایہ آنے کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کو ملک میں فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے بیانات داغ رہے ہیں وہ اپنے بچوں سمیت عملًا اس ملک سے جا چکے ہیں۔ ان کی چھٹیاں، علاج، کاروبار سب کچھ اس ملک سے باہر منتقل ہو چکا ہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کے اپنے بچے ملک سے باہر کاروبار کر نے کو ترجیع دے رہے ہوں وہاں پر گلدستے حاضر محفل کرنے کے باوجود اب کیسے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دل موہ لیے گئے۔ ہاں پیسہ آئے گا مگر اس طریقے سے جیسے سعودی عرب سے آیا یا جیسے امریکی امداد آتی رہتی ہے۔ یہ ممالک نجی کمپنیوں کی طرح اپنی شرائط منوا گئے۔ آپ یہ کہہ کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے گے کہ ہم کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر رہے لیکن حقیقت اس سے بالکل بر عکس رہے گی۔ خیبر پختونخوا سے کراچی تک اور اب کراچی سے اسلام آباد تک اندرونی حالات کو درست کیے بغیر آپ ذرایع ابلاغ کو اشتہارات کے ذریعے اچھی تشہیر پر مامور تو کر سکتے ہیں مگر اصل سرمایہ کاروں کو مائل نہیں کر سکتے۔
یا مائل کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند منافع خوری پر ہاتھ نہیں رکھ سکتے۔ اس ضمن میں ایک اور خبر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اندرونی سلامتی کی پالیسی کے بعد ایک خبر میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان پڑھا کہ ملک کے دارالخلافہ کی حفاظت کا بہترین منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ حفاظت کے اس بہترین منصوبے میں کلیدی کردار رینجرز کو سونپ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ حیران کن اور متضاد بات شاید ہی کوئی اور ہو ۔ رینجرز خصوصی سیکیورٹی کا نفاذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کو غیر معمولی حالات میں طلب کیا جاتا ہے۔ غیر معمولی حالات دو قسم کے ہو سکتے ہیں، ایک جب بحران اتنا بڑھ جائے کہ پولیس اور انتظامیہ تمام تر کوشش کے بعد اس پر قابو نہ پا سکیں اور دوسرا جب پولیس اور انتظامیہ اس حد تک ناکارہ ہو جائے کہ اپنے بنیادی کام سر انجام نہ دے پا رہی ہوں۔ کراچی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یہاں پر رینجرز کو بدترین حالات کے پیش نظر اہم ذمے داریاں اور طا قت سونپی گئی ہیں۔ اس شہر کے بعض حصوں میں اندرونی جنگ کا سا سماں ہے۔ روزانہ درجنوں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ایسی نفسا نفسی ہے کہ جس پر صوبائی حکومت بے بسی کی حالت میں مرکز سے مدد طلب کر رہی ہے۔ رینجرز کا کراچی میں لگایا جانا سرکاری اعتراف ہے کہ حالات بے قابو ہو رہے ہیں۔ مگر اسلام آباد میں رینجر ز پر انحصار کرنے کی پالیسی کو بہترین سیکیورٹی منصوبے کے طور پر متعارف کروا کے بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ گھروں اور دفاتر کے سامنے ایل ایم جی تانے رینجرز ریت کی بوریوں کے پیچھے سے جب لوگوں کو نظر آتے ہیں تو اس سے تحفظ کا احساس بڑھتا نہیں، جو ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے پاس ایک بہترین جمہوری نظام ہے لہٰذا کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کسی بیان یا امید میں منطق یا حقیقت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بس تصویر چھپنی چاہیے۔ لمحاتی خوشگوار کیفیت بنانا واحد قومی ہدف بن چکا ہے۔ اگر یہ روایت برقرار رہی تو جلد ہی اسلام آباد کو داالخلافہ نہیں دارالخرافات کہنا پڑے گا۔
لہٰذا وزیر اعظم کے ساتھ تمام فیصلہ ساز افراد اس میٹنگ میں موجود تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف، نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر، سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین مصباح اسمعیل، وزیر اعظم کے پرسنل سیکریٹری جاوید عالم اور ہمیشہ سے خوش لباس اور چاک و چوبند ہر دم حاضر ڈاکٹر آصف کرمانی، اس گروپ کی موجودگی سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ میٹنگ کتنی اہم تھی۔ ہم اس میٹنگ کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس خوبصورت ماحول پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے جو بذریعہ کیمرہ قوم تک پہنچایا گیا۔ لہٰذا اخباروں میں کچھ اور بھی لکھا گیا جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جس دن پاکستان چین تعاون اور وزیر اعظم کا بیان صفحہ اول کی زینت بنا اس روز ملک کے ایک اور اہم ادارے یعنی عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے بیان بھی چھپے ہوئے تھے ۔ اسلام آباد کچہری حملے کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے معزز بینچ کے اراکین، تصدق حسین جیلانی، عظمت سعید اور خلجی عارف حسین نے حالات حاضرہ پر اپنے ریمارکس کے ذریعے کچھ یوں تبصرہ فرمایا ''ضلعی عدالت پر حملہ ریاست کی ناکامی کی علامت ہے، ریاست شہریوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کی ذمے دار ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حملہ کرنے کا الزام قبول کرنے والی تنظیم نجانے اصلی بھی یا نہیں ہے ہو سکتا ہے فرضی نام ہو ، حکومت کو بتانا چاہیے کہ واقعے کا اصل ذمے دار کون ہے۔
حالات بہت خراب ہیں' حکومت کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں ۔ گھر سے کام کے لیے جانے والے ہر شخص کے اہل خانہ اس کی بحفاظت واپسی کے شدت سے منتظر رہتے ہیں بہت ہو گیا اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں ۔ حملہ کرنے والی تنظیم کو بخوبی علم ہے کہ اگر حکومت کو ان کے بارے میں پتہ چل بھی جائے تو کون سا حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کر لینی ہے''۔ اسی اخبار جس میں وزیر اعظم ہشاش بشاش چینی دوست کے ساتھ باہمی تعلقات مزید گہرے کر رہے تھے۔ تھر کے حوالے سے بھی کئی خبریں چھپی ہوئی تھی جن میں مزید بچوں کی اموات اور بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان خبروں کے مطابق مرکز اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے باوجود کئی طویل دن اور رات گزرنے کے بعد بھی اس علاقے میں سب لوگوں تک امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ ڈاکٹروں کی تعیناتی، گندم اور دوائیوں کی فراہمی، متحرک این جی اوز، ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کی بھرمار (جن میں سے چند ایک دوستوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ تھر پاکستان کا حصہ ہے) اس سب اچھل کود کے باوجود ہم اپنی سر زمین پر مرتے ہوئے بچے نہیں بچاپا رہے ہیں۔
میرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران شاید حقیقت کو ذہن سے جھٹک کر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان کاروباری ہے۔ اگر ان کو یہ اخبار پڑھنے کو ملے جس میں ملک کے ججز صاحبان شہریوں کی جان کے بارے میں فکر مند ہوں۔ تہذیب کے ختم ہو جانے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہوں۔ جہاں پر عدالتیں اپنے تحفظ کے لیے حکومت سے سیکیورٹی کی طالب ہوں اور منصف یہ کہہ رہے ہوں کہ حملہ آور تنظیموں کی روک تھام نہیں کی جا رہی اور ان کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ وہاں پر کیا میاں صاحب خود سرمایہ کاری کریں گے؟ پاکستان سے باہر سرمایہ جانے کی رفتار پاکستان کے اندر سرمایہ آنے کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کو ملک میں فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے بیانات داغ رہے ہیں وہ اپنے بچوں سمیت عملًا اس ملک سے جا چکے ہیں۔ ان کی چھٹیاں، علاج، کاروبار سب کچھ اس ملک سے باہر منتقل ہو چکا ہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کے اپنے بچے ملک سے باہر کاروبار کر نے کو ترجیع دے رہے ہوں وہاں پر گلدستے حاضر محفل کرنے کے باوجود اب کیسے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دل موہ لیے گئے۔ ہاں پیسہ آئے گا مگر اس طریقے سے جیسے سعودی عرب سے آیا یا جیسے امریکی امداد آتی رہتی ہے۔ یہ ممالک نجی کمپنیوں کی طرح اپنی شرائط منوا گئے۔ آپ یہ کہہ کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے گے کہ ہم کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر رہے لیکن حقیقت اس سے بالکل بر عکس رہے گی۔ خیبر پختونخوا سے کراچی تک اور اب کراچی سے اسلام آباد تک اندرونی حالات کو درست کیے بغیر آپ ذرایع ابلاغ کو اشتہارات کے ذریعے اچھی تشہیر پر مامور تو کر سکتے ہیں مگر اصل سرمایہ کاروں کو مائل نہیں کر سکتے۔
یا مائل کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند منافع خوری پر ہاتھ نہیں رکھ سکتے۔ اس ضمن میں ایک اور خبر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اندرونی سلامتی کی پالیسی کے بعد ایک خبر میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان پڑھا کہ ملک کے دارالخلافہ کی حفاظت کا بہترین منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ حفاظت کے اس بہترین منصوبے میں کلیدی کردار رینجرز کو سونپ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ حیران کن اور متضاد بات شاید ہی کوئی اور ہو ۔ رینجرز خصوصی سیکیورٹی کا نفاذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کو غیر معمولی حالات میں طلب کیا جاتا ہے۔ غیر معمولی حالات دو قسم کے ہو سکتے ہیں، ایک جب بحران اتنا بڑھ جائے کہ پولیس اور انتظامیہ تمام تر کوشش کے بعد اس پر قابو نہ پا سکیں اور دوسرا جب پولیس اور انتظامیہ اس حد تک ناکارہ ہو جائے کہ اپنے بنیادی کام سر انجام نہ دے پا رہی ہوں۔ کراچی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یہاں پر رینجرز کو بدترین حالات کے پیش نظر اہم ذمے داریاں اور طا قت سونپی گئی ہیں۔ اس شہر کے بعض حصوں میں اندرونی جنگ کا سا سماں ہے۔ روزانہ درجنوں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ایسی نفسا نفسی ہے کہ جس پر صوبائی حکومت بے بسی کی حالت میں مرکز سے مدد طلب کر رہی ہے۔ رینجرز کا کراچی میں لگایا جانا سرکاری اعتراف ہے کہ حالات بے قابو ہو رہے ہیں۔ مگر اسلام آباد میں رینجر ز پر انحصار کرنے کی پالیسی کو بہترین سیکیورٹی منصوبے کے طور پر متعارف کروا کے بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ گھروں اور دفاتر کے سامنے ایل ایم جی تانے رینجرز ریت کی بوریوں کے پیچھے سے جب لوگوں کو نظر آتے ہیں تو اس سے تحفظ کا احساس بڑھتا نہیں، جو ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے پاس ایک بہترین جمہوری نظام ہے لہٰذا کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کسی بیان یا امید میں منطق یا حقیقت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بس تصویر چھپنی چاہیے۔ لمحاتی خوشگوار کیفیت بنانا واحد قومی ہدف بن چکا ہے۔ اگر یہ روایت برقرار رہی تو جلد ہی اسلام آباد کو داالخلافہ نہیں دارالخرافات کہنا پڑے گا۔