کراچی میں ادویات کا بحران شدت اختیار کرنے لگا
بخار، زکام، پیٹ درد، کھانسی اور مرگی کے دورے کی بیشتر ادویات نایاب ہوگئیں
کراچی میں ادویات کا بحران شدت اختیار کرنے لگا ہے جس کے باعث شہر میں بخار، زکام، پیٹ درد، کھانسی اور مرگی کے دورے کی بیشتر ادویات نایاب ہوچکی ہیں جبکہ نامور سرکاری و نجی اسپتال، دواساز ادارے اور طبی ماہرین سمیت شہری بھی پریشانی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبے سندھ میں سیلابی صورتحال کے سبب بیشتر وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، شہر کے تمام فلاحی ادارے، اسپتال سمیت مخیر حضرات کی جانب سے ادویات کا عطیہ کیا جا رہا ہے، شہر میں گزشتہ ماہ سے سیلاب متاثرین کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے مختلف وبائی امراض کے خدشات میں اضافہ ہوچکا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے لگائے گئے کیمپس میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی، ملیریا، ہیضہ، اسہال، ٹائیفائیڈ، چیسٹ الرجی، آئی انفیکشن اور جلدی امراض کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے، اندرون سندھ میں سیلاب کے بعد مختلف اداروں اور مخیر حضرات کی جانب سے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جس کے بعد شہر میں ادویات کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق کچھ ملٹی نیشنل کمپینز کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا اور ان کمپینیوں کی جانب سے ادویات کا اسٹاک صرف ریٹیلرز کو فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ ان کمپینیوں کی جانب سے ادویات کی ہول سیلز بازاروں میں ادویات کا اسٹاک نہیں دیا جا رہا ہے۔
بیشتر ہوسیلرز ادویات کی قلت کا ذمہ دار ڈالر کی اونچی اڑان کو بھی ٹہرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے خام مال کی خرید و فروخت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شہر میں جہاں ایک جانب بخار، زکام، پیٹ درد، پٹھوں اور ہڈیوں میں درد کی شکایات کے ساتھ مریض سرکاری اور نجی اسپتال میں آرہے ہیں وہیں دوسری جانب بخار، زکام ، پیٹ درد اور مرگی کے دورے کے سیرپ اور گولیوں کے قفدان نے سر اٹھا لیا ہے۔
ڈاکٹرز کی جانب سے ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں لیکن مریضوں کو تجویز کردہ ادویات نہ تو اسپتال میں دستیاب کی جا رہی ہیں اور نہ ہی کسی میڈیکل اسٹور پر یہ ادویات موجود ہیں، شہر میں ادویات کی ہول سیل مارکیٹ میں بھی بروفن، پیناڈول، ایرینک، اینٹا میزول، ٹکسائلکس، سوموجیل، ایپیول اور ٹیگرل کا بحران ہے۔
ذرائع کے مطابق شہر میں محکمہ صحت سندھ کے ماتحت جناح اسپتال، سول اسپتال اور عالمی ادارہ برائے صحت اطفال سمیت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے عباسی شہید اسپتال میں بھی مندرجہ بالا ادویات کے بحران نے شہریوں کی دشواریوں میں اضافہ کر دیا ہے، میڈیکل اسٹورز پر بھی یہ ادویات نایاب ہوچکی ہیں۔
بیشتر ادارے اس کی بلیک مارکیٹنگ میں بھی ملوث ہیں اور مختلف فارماسوٹیکل کمپینیز کی جانب سے یہ ادویات صرف کچھ صارفین کو فرخت کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے ہی ادویات مہنگے دام فروخت کی جا رہی ہیں، 25 پتوں والا بروفین کا ڈبا 680 روپے کا فروخت کیا جا رہا ہے، 20پتوں والا پیناڈول کا ڈبا جو 340 روپے میں فروخت کیا جاتا تھا وہ اب 700 روپے میں دسپتاب ہے، 10 پتوں ایرینک کا ڈبا 850، اینٹا میزول کا ایک پتہ 110 روپے میں فروجت ہو رہا ہے جبکہ ایپیوال کے 10 پتے 1140 روپے میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبے سندھ میں سیلابی صورتحال کے سبب بیشتر وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، شہر کے تمام فلاحی ادارے، اسپتال سمیت مخیر حضرات کی جانب سے ادویات کا عطیہ کیا جا رہا ہے، شہر میں گزشتہ ماہ سے سیلاب متاثرین کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے مختلف وبائی امراض کے خدشات میں اضافہ ہوچکا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے لگائے گئے کیمپس میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی، ملیریا، ہیضہ، اسہال، ٹائیفائیڈ، چیسٹ الرجی، آئی انفیکشن اور جلدی امراض کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے، اندرون سندھ میں سیلاب کے بعد مختلف اداروں اور مخیر حضرات کی جانب سے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جس کے بعد شہر میں ادویات کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق کچھ ملٹی نیشنل کمپینز کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا اور ان کمپینیوں کی جانب سے ادویات کا اسٹاک صرف ریٹیلرز کو فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ ان کمپینیوں کی جانب سے ادویات کی ہول سیلز بازاروں میں ادویات کا اسٹاک نہیں دیا جا رہا ہے۔
بیشتر ہوسیلرز ادویات کی قلت کا ذمہ دار ڈالر کی اونچی اڑان کو بھی ٹہرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے خام مال کی خرید و فروخت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شہر میں جہاں ایک جانب بخار، زکام، پیٹ درد، پٹھوں اور ہڈیوں میں درد کی شکایات کے ساتھ مریض سرکاری اور نجی اسپتال میں آرہے ہیں وہیں دوسری جانب بخار، زکام ، پیٹ درد اور مرگی کے دورے کے سیرپ اور گولیوں کے قفدان نے سر اٹھا لیا ہے۔
ڈاکٹرز کی جانب سے ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں لیکن مریضوں کو تجویز کردہ ادویات نہ تو اسپتال میں دستیاب کی جا رہی ہیں اور نہ ہی کسی میڈیکل اسٹور پر یہ ادویات موجود ہیں، شہر میں ادویات کی ہول سیل مارکیٹ میں بھی بروفن، پیناڈول، ایرینک، اینٹا میزول، ٹکسائلکس، سوموجیل، ایپیول اور ٹیگرل کا بحران ہے۔
ذرائع کے مطابق شہر میں محکمہ صحت سندھ کے ماتحت جناح اسپتال، سول اسپتال اور عالمی ادارہ برائے صحت اطفال سمیت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے عباسی شہید اسپتال میں بھی مندرجہ بالا ادویات کے بحران نے شہریوں کی دشواریوں میں اضافہ کر دیا ہے، میڈیکل اسٹورز پر بھی یہ ادویات نایاب ہوچکی ہیں۔
بیشتر ادارے اس کی بلیک مارکیٹنگ میں بھی ملوث ہیں اور مختلف فارماسوٹیکل کمپینیز کی جانب سے یہ ادویات صرف کچھ صارفین کو فرخت کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے ہی ادویات مہنگے دام فروخت کی جا رہی ہیں، 25 پتوں والا بروفین کا ڈبا 680 روپے کا فروخت کیا جا رہا ہے، 20پتوں والا پیناڈول کا ڈبا جو 340 روپے میں فروخت کیا جاتا تھا وہ اب 700 روپے میں دسپتاب ہے، 10 پتوں ایرینک کا ڈبا 850، اینٹا میزول کا ایک پتہ 110 روپے میں فروجت ہو رہا ہے جبکہ ایپیوال کے 10 پتے 1140 روپے میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔