وعدے توڑنے کی روایت

سندھ میں نجی شعبہ میں صنعتی ادارے قائم کر کے روزگار کے نئے وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں

tauceeph@gmail.com

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہیں اور ان دونوں جماعتوں کے درمیان سندھ کا نظام منصفانہ بنیادوں پر چلانے اور نچلی سطح تک اختیارکے بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے ایک معاہدہ موجود ہے البتہ دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے طویل ہیں۔

حکومت سندھ نے اچانک فیصلہ کیا کہ صوبہ میں ملازمتوں اور پروفیشنل اداروں میں داخلے کے لیے مستقل سکونت سرٹیفکیٹ P.R.C وہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔

جو ایک سال سے ایک ضلع میں مقیم ہو۔ سندھ حکومت کے قواعد و ضوابط کے تحت جو فرد تین سال تک ایک ضلع میں قیام پذیر ہے وہ پی آر سی کا حقدار ہوگا۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کا بیانیہ ہے کہ حکومت سندھ نے اپنے حامیوں کوکراچی کا پی آر سی کا حقدار قرار دینے کے لیے خفیہ طور پر قوانین میں ترمیم کی ہے ، اس فیصلہ سے کراچی کے نوجوانوں کے حقوق متاثر ہونگے۔

سندھ حکومت کے تمام وزراء اندرون سندھ سیلاب کی تباہی کا شکار عوام کی داد رسی میں مصروف ہیں۔ مرتضیٰ وہاب نے جوکراچی میں سڑکوں کی مرمت کے کام میں دن رات مصروف رہتے ہیں ، ایم کیو ایم کے اس احتجاج پر خاموشی اختیارکر لی ہے۔ مخصوص حکمت عملی کے تحت اس معاملہ پر انھوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔

سندھ میں کوٹہ سسٹم سے منسلک ڈومیسائل اور پی آر سی کا تنازعہ گزشتہ 50 برسوں سے موجود ہے۔ کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی تاریخ بتانے والے سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 1970میں جب ون یونٹ ختم ہوا اور سابقہ مغربی پاکستان میں ضم کیے جانے والے صوبے بحال ہوئے تو اس وقت ملک کے صدر جنرل یحییٰ خان نے لیفٹیننٹ جنرل رحمن گل کو سندھ کا پہلا گورنر مقررکیا تھا۔

جنرل رحمن گل نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دیہی سندھ شہری سندھ کے مقابلہ میں پسماندہ ہے، وہاں خواندگی کی شرح کم ہے۔ پولیس ، بیوروکریسی اور مسلح افواج میں دیہی سندھ کی نمایندگی بڑھ جائے اور یہ فیصلہ اس بنیاد پرکیا گیا کہ آبادی کی اکثریت کا تعلق دیہی سندھ سے ہے۔ اس بناء پر ملازمتوں اور پروفیشنل کالجوں میں دیہی سندھ کا کوٹہ 60 فیصد ہوگا۔

1973کے آئین میں کوٹہ سسٹم کو 10سال کے نفاذ کا تحفظ فراہم کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس میں مزید 10سال کا اضافہ کیا۔ اب کوٹہ سسٹم کی قانونی حیثیت کیا ہے مختلف لسانی پس منظر رکھنے والے وکلاء متضاد بیانات دیتے ہیں۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں اندرون سندھ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے سیکڑوں طالب علم جن میں خواتین بھی شامل تھیں فارغ التحصیل ہوئے۔

دیہی سندھ کے نوجوانوں نے میڈیکل اور سپیریئر سروس کے امتحانات میں خصوصی دلچسپی لی۔ ڈاکٹروں جن میں خواتین ڈاکٹرزکی تعداد زیادہ ہے مزید بڑھ گئی۔ اندرون سندھ کے نوجوانوں کے مسلح افواج میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔ سندھی افسران کراچی کے علاوہ اسلام آباد سیکریٹریٹ میں بھی نظر آنے لگے۔


جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا۔ کراچی اور حیدرآباد میں سٹی گورنمنٹ قائم ہوئی۔ وفاق نے سٹی گورنمنٹ کی براہِ راست سرپرستی کی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت چوتھی دفعہ اقتدار میں آئی۔ 2010 میں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی امور کے لیے قومی مالیاتی ایوارڈ N.F.C کے فارمولہ کے تحت ترتیب دیا گیا، یوں سندھ کی آمدنی میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی 2018 سے برسر اقتدار ہے۔ اصولی طور پر این ایف سی ایوارڈ کے تحت آمدنی کو دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے اور ذرایع مواصلات کی ترقی اور صوبہ کو ایک جدید صنعتی صوبہ بنانے پر خرچ ہونا چاہیے تھا ۔ سندھ میں سرکاری شعبہ میں کئی میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اور ہر ڈویژن میں ایک ثانوی بورڈ قائم ہوا۔ اسی طرح ہر ضلع میں اسکول اور کالج قائم ہوئے۔ اس وقت دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سندھ کا سب سے زیادہ پسماندہ ضلع تھر ہے۔

تھر میں آج بھی لڑکیوں کا ایک ہائی اسکول اور ایک کالج ہے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی نے وہاں پر ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے جس میں صرف تین شعبے ہیں اور طلبہ کی تعداد 65 کے قریب ہے۔

اس طرح سندھ یونیورسٹی نے میرپور خاص میں ایک کیمپس بنایا ہے جس میں چند شعبوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ تھرکا تو نہ کوئی تعلیمی بورڈ ہے اور نہ کوئی میڈیکل یا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے۔ دیہی علاقوں سے شہریوں نے شہروں کی طرف ہجرت کی۔ کراچی میں غیر سرکاری سیکیورٹی ایجنسیوں میں ملازمتوں ، رکشہ اور چنگ چی ڈرائیوروں کی حیثیت سے اندرون سندھ کے باسی خاصی تعداد میں نظر آنے لگے۔

اب کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے لیے دیے جانے والے دلائل کو جانچنے کے لیے سوالات ابھرے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری ہر روز یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی نگرانی میں سندھ نے ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، جب بھی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول آتا ہے یا کوئی ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو حکومت سندھ لاکھوں روپے کے اشتہارات ٹی وی چینلز کو دیتی ہے۔

ان اشتہارات میں اندرون سندھ ترقی کے مناظر پیش کیے جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دعوؤں میں خاصا وز ن ہوگا۔ معروضی صورتحال یہ ہے کہ شہری علاقوں کے نوجوان پیپلز پارٹی کی امتیازی پالیسیوں کی بناء پر مایوس ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں سندھ پبلک سروس کمیشن بے اختیار ہوا۔ ملازمتوں کی فروخت کے بازار لگے۔

کچھ صحافی کہتے ہیں کہ گزشتہ 14برسوں میں حکومت سندھ نے گریڈ 17 میں اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس افسران کو ملازمتیں دیں۔ ان کی فہرستوں کو ایک نظر دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کن اضلاع سے ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا نعرہ لگایا ۔ ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے معاہدوں کے تحت مقبولیت انتہائی کم ہوگئی ہے۔

ایم کیوایم کی جگہ تحریک انصاف لے رہی ہے۔ اس صورتحال میں شہریوں کو اس بات کی تحقیقات ضرورکرنی چاہیے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے 15سال ہونے کے باوجود کون سے اضلاع پسماندہ رہ گئے ہیں۔ ان اضلاع کے تعلیمی، صحت اور دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے کتنی رقوم مختص کی گئیں اور وہ کہاں خرچ ہوئیں۔ اس تحقیقات کے نتیجہ میں اگر کچھ اضلاع کو اب بھی پسماندہ قرار دیا جائے تو وہاں کے لیے کوٹہ مخصوص عرصہ کے لیے مختص ہونا چاہیے ۔

سندھ امن کا صوبہ ہے۔ سندھ کے باسیوں نے ہمیشہ اردو بولنے والوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ ان برادریوں کا سب کچھ سندھ میں ہے۔ صوبہ میں پبلک سروس کمیشن کو خود مختار بنایا جائے اور میرٹ کا اصول نافذ کیا جائے۔ سندھ میں نجی شعبہ میں صنعتی ادارے قائم کر کے روزگار کے نئے وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو بات چیت کے ذریعہ مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو وعدے توڑنے کی روایت کو ختم کردینا چاہیے۔
Load Next Story