پاکستان میں 5000 سال پرانے آثارقدیمہ کی ڈیجیٹل میپنگ کروانے پرغور
ڈیجیٹل میپنگ کا انحصار ٹوپوگرافک شیٹ، ہائیڈروجیکل انوائرمنٹ، فاریسٹری اورموسمیاتی ڈیٹا پر ہے، ماہرین
پاکستان میں پانچ ہزارسال پرانے آثارقدیمہ کی ڈیجیٹل میپنگ کروانے پرغورکیا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل میپنگ کا انحصار ٹوپوگرافک شیٹ، ہائیڈروجیکل انوائرمنٹ، فاریسٹری اورموسمیاتی ڈیٹا پر ہے، جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم اور سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ کے ذریعے پاکستان کے آثار قدیمہ کی نقشہ سازی اورتحفظ کے حوالے سے اقدامات اٹھائے میں مدد ملے گی۔
چیئرمین شعبہ آثار قدیمہ، پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹرمحمد حمید نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا ڈیجیٹل میپنگ سے حاصل ہونیوالے اعدادوشمار سے مستقل کی پالیسی سازی میں مدد ملے گی جس کے ذریعے ہم نہ صرف آثار قدیمہ کے ورثے کو بچا سکتے ہیں بلکہ اپنی موجودہ سائٹس کو قدرتی آفات سے بھی بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ملکی اورغیرملکی ماہرین کی معاونت لی جائیگی ۔ حال ہی میں اس موضوع پر انٹرنیشنل سیمینارکروایا گیا ہے جس میں غیرملکی ماہرین نے ڈیجیٹل میپنگ کے حوالے سے اپنے تجربات اورتجاویز سے آگاہ کیاہے۔ ڈاکٹر محمد حمید کے مطابق یہ منصوبہ پیپرورک کے مرحلے میں ہے تاہم جب اس پرعمل درآمد شروع ہوگا تو اس وقت مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔
انہوں نے بتایا ماضی کی آبادیاں کیسے، کیوں اور کہاں تباہ ہوئیں؟ اردگرد کے ماحول کا کیا اثر ہوا؟ سائٹس کی ترقی، توسیع اور تباہی کا طریقہ کیا تھا؟ قدیم معاشروں نے بدلتے ہوئے موسمی حالات پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟ پانی کے ذرائع کو کیسے استعمال کیا گیا اور ان کے شدید اثرات کیا تھے؟ نقشہ سازی کے منصوبے سے ہمیں مقامات کی تباہی کے ذمہ دار اسباب اور شہری کاری، زراعت اور قدرتی آفات کے کردار کے بارے میں جاننے میں بھی مدد ملے گی۔
ڈاکٹرمحمد حمید کے مطابق ڈیجیٹل میپنگ کے لئے سیٹلائٹ ،ڈرون اورزمینی سروے کی مدد لی جائیگی۔ پانچ ہزارسال پرانی وادی سندھ کی تہذہب سے لیکر آج تک پاکستان کی سرزمین پرکون سے اہم آثارتھے ان کوتلاش کیاجاسکے گا۔اس کے علاوہ ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ اس وقت کون سے آثار باقی ہیں، گزشتہ 100 سال یا 50 سال پہلے جن آثار کا ریکارڈہمارے پاس تھا آج وہ کس حالت میں ہیں۔ ملک میں آنیوالے سیلابوں ،زلزلوں، موسمیاتی تبدیلیوں نے ان آثار کو کس حدتک متاثر کیا ہے، اس مقصد کے لئے چاروں صوبوں کے محکمہ آثارقدیمہ، آرکیالوجیکل ماہرین اورغیرملکی ماہرین کے علاوہ سیٹلائیٹ کی مدد لی جائیگی۔
یونیورسٹی آف کیمبرج شعبہ آرکیالوجی کے معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کیمرون اے پیٹرنے لاہورمیں منعقدہ ایک سیمینارمیں اظہارخیال کرتے ہوئے بتایاآثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے پر مشتمل مقامات کی ڈیجیٹل میپنگ کے ذریعے تقریباً5 ہزار سال تک کے آثار کو بیان کیا جا سکتا ہے تاہم ڈیجیٹل میپنگ کا انحصار ٹوپوگرافک شیٹ، ہائیڈروجیکل انوائرمنٹ، فاریسٹری اورموسمیاتی ڈیٹا پر ہے۔انہوں نے بتایا کہ آرکیالوجیکل تفتیش و تحقیق میں تمام جیو سائنسز کی ایپلیکیشن کے استعمال سے نہ صرف آثار قدیمہ کو دریافت کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کا ماضی بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے میدان میں تمام جغرافیائی سائنسز کے استعمال سے نہ صرف سائٹس کی شناخت، دریافت اور محفوظ کرنے کے عمل کو سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ہمیں ان علاقوں میں موجود موسمی، ماحولیاتی اور جغرافیائی نمونوں کی تشکیل نو اور سمجھنے کے لیے منفرد ڈیٹا بھی فراہم کریں۔
ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرپنجاب آرکیالوجی افضل خان کہتے ہیں آثارقدیمہ کی ڈیجیٹل میپنگ ایک بہت بڑا اقدام ہوگا، اس سے ہمیں آثارقدیمہ سے متعلق مزید بہترطریقے سے جاننے اورسمجھنے میں مدد ملے گی، انہوں نے بتایا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس طریقہ کارکو اپنایا گیاہے۔ سائنسی بنیادوں ہونیوالی تحقیق اورنقشہ سازی سے ہم قدیم تہذیبوں سے متعلق زیادہ مستند طریقے سے جان سکیں گے۔
افضل خان کا کہنا تھا ڈیجیٹل میپنگ کے لیے ہمیں پاکستانی ماہرین کی ہی خدمات لینی چاہیں،اگر کوئی غیرملکی ٹیکنالوجی درکار ہو تو اس کے متعلقہ کمپنوں سے پاکستانی ماہرین کو ٹریننگ دلوانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ایک امریکی ادارے نے ہڑپہ میں تحقیق کا معاہدہ کیا اور یہ طے پایا تھا کہ وہ ادارہ ہرسال دوپاکستانی آرکیالوجی کے طلبا کو پی ایچ ڈی کروائے گا مگر 35 برسوں میں اس ادارے نے ہمارے کسی ایک طالب علم کو بھی پی ایچ ایچ ڈی نہیں کروائی۔ غیرملکی ادارے ریسرچ کے بعد ڈیٹا خود لے جاتے ہیں اور پھر ہمیں اپنے ہی ملک کے آثار قدیمہ سے متعلق ان سے معلومات لینا پڑتی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت،بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک غیرملکی کمپنیوں کو اس طرح کے پراجیکٹس اکیلے مکمل کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں
چیئرمین شعبہ آثار قدیمہ، پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹرمحمد حمید نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا ڈیجیٹل میپنگ سے حاصل ہونیوالے اعدادوشمار سے مستقل کی پالیسی سازی میں مدد ملے گی جس کے ذریعے ہم نہ صرف آثار قدیمہ کے ورثے کو بچا سکتے ہیں بلکہ اپنی موجودہ سائٹس کو قدرتی آفات سے بھی بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ملکی اورغیرملکی ماہرین کی معاونت لی جائیگی ۔ حال ہی میں اس موضوع پر انٹرنیشنل سیمینارکروایا گیا ہے جس میں غیرملکی ماہرین نے ڈیجیٹل میپنگ کے حوالے سے اپنے تجربات اورتجاویز سے آگاہ کیاہے۔ ڈاکٹر محمد حمید کے مطابق یہ منصوبہ پیپرورک کے مرحلے میں ہے تاہم جب اس پرعمل درآمد شروع ہوگا تو اس وقت مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔
انہوں نے بتایا ماضی کی آبادیاں کیسے، کیوں اور کہاں تباہ ہوئیں؟ اردگرد کے ماحول کا کیا اثر ہوا؟ سائٹس کی ترقی، توسیع اور تباہی کا طریقہ کیا تھا؟ قدیم معاشروں نے بدلتے ہوئے موسمی حالات پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟ پانی کے ذرائع کو کیسے استعمال کیا گیا اور ان کے شدید اثرات کیا تھے؟ نقشہ سازی کے منصوبے سے ہمیں مقامات کی تباہی کے ذمہ دار اسباب اور شہری کاری، زراعت اور قدرتی آفات کے کردار کے بارے میں جاننے میں بھی مدد ملے گی۔
ڈاکٹرمحمد حمید کے مطابق ڈیجیٹل میپنگ کے لئے سیٹلائٹ ،ڈرون اورزمینی سروے کی مدد لی جائیگی۔ پانچ ہزارسال پرانی وادی سندھ کی تہذہب سے لیکر آج تک پاکستان کی سرزمین پرکون سے اہم آثارتھے ان کوتلاش کیاجاسکے گا۔اس کے علاوہ ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ اس وقت کون سے آثار باقی ہیں، گزشتہ 100 سال یا 50 سال پہلے جن آثار کا ریکارڈہمارے پاس تھا آج وہ کس حالت میں ہیں۔ ملک میں آنیوالے سیلابوں ،زلزلوں، موسمیاتی تبدیلیوں نے ان آثار کو کس حدتک متاثر کیا ہے، اس مقصد کے لئے چاروں صوبوں کے محکمہ آثارقدیمہ، آرکیالوجیکل ماہرین اورغیرملکی ماہرین کے علاوہ سیٹلائیٹ کی مدد لی جائیگی۔
یونیورسٹی آف کیمبرج شعبہ آرکیالوجی کے معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کیمرون اے پیٹرنے لاہورمیں منعقدہ ایک سیمینارمیں اظہارخیال کرتے ہوئے بتایاآثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے پر مشتمل مقامات کی ڈیجیٹل میپنگ کے ذریعے تقریباً5 ہزار سال تک کے آثار کو بیان کیا جا سکتا ہے تاہم ڈیجیٹل میپنگ کا انحصار ٹوپوگرافک شیٹ، ہائیڈروجیکل انوائرمنٹ، فاریسٹری اورموسمیاتی ڈیٹا پر ہے۔انہوں نے بتایا کہ آرکیالوجیکل تفتیش و تحقیق میں تمام جیو سائنسز کی ایپلیکیشن کے استعمال سے نہ صرف آثار قدیمہ کو دریافت کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کا ماضی بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے میدان میں تمام جغرافیائی سائنسز کے استعمال سے نہ صرف سائٹس کی شناخت، دریافت اور محفوظ کرنے کے عمل کو سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ہمیں ان علاقوں میں موجود موسمی، ماحولیاتی اور جغرافیائی نمونوں کی تشکیل نو اور سمجھنے کے لیے منفرد ڈیٹا بھی فراہم کریں۔
ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرپنجاب آرکیالوجی افضل خان کہتے ہیں آثارقدیمہ کی ڈیجیٹل میپنگ ایک بہت بڑا اقدام ہوگا، اس سے ہمیں آثارقدیمہ سے متعلق مزید بہترطریقے سے جاننے اورسمجھنے میں مدد ملے گی، انہوں نے بتایا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس طریقہ کارکو اپنایا گیاہے۔ سائنسی بنیادوں ہونیوالی تحقیق اورنقشہ سازی سے ہم قدیم تہذیبوں سے متعلق زیادہ مستند طریقے سے جان سکیں گے۔
افضل خان کا کہنا تھا ڈیجیٹل میپنگ کے لیے ہمیں پاکستانی ماہرین کی ہی خدمات لینی چاہیں،اگر کوئی غیرملکی ٹیکنالوجی درکار ہو تو اس کے متعلقہ کمپنوں سے پاکستانی ماہرین کو ٹریننگ دلوانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ایک امریکی ادارے نے ہڑپہ میں تحقیق کا معاہدہ کیا اور یہ طے پایا تھا کہ وہ ادارہ ہرسال دوپاکستانی آرکیالوجی کے طلبا کو پی ایچ ڈی کروائے گا مگر 35 برسوں میں اس ادارے نے ہمارے کسی ایک طالب علم کو بھی پی ایچ ایچ ڈی نہیں کروائی۔ غیرملکی ادارے ریسرچ کے بعد ڈیٹا خود لے جاتے ہیں اور پھر ہمیں اپنے ہی ملک کے آثار قدیمہ سے متعلق ان سے معلومات لینا پڑتی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت،بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک غیرملکی کمپنیوں کو اس طرح کے پراجیکٹس اکیلے مکمل کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں