سیلاب زدگان اور حکومتی ذمے داریاں
اتنی بڑی آفت اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اکیلے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں، آج دنیا پر ایک بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کرے، اتنی بڑی آفت اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اکیلے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں، ہمیں فطرت کے خلاف جنگ بھی بند کرنا ہوگی۔
حالیہ سیلاب بڑے پیمانے پر انسانی المیہ کو جنم دے رہا ہے، دوسری جانب سوئیڈن کی 19 سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشیں اور سیلاب ایک مثال ہیں، اب بھی وقت ہے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف عمل کرنے کا۔
بلاشبہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں، لیکن کیا ہم نے ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے کیا کوئی پیش بندی کی ہے؟ جواب منفی ہے کیونکہ ہم صرف اور صرف وقتی طور پر مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہماری قیادت طویل اور مربوط منصوبہ بندی اور ویژن سے خالی ہے ۔
ذرا سوچیں، کیا محض ہمدردی کے دو بول، طفل تسلیوں، نام نہاد وعدوں سے اس قدر شدید جانی و مالی نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔ سیکڑوں چھوٹے، بڑے پل سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے ہیں، پاکستانی عوام تو پہلے ہی شدید مہنگائی اور خوراک کی کمی کے ہاتھوں عاجز تھے کہ اْنہیں اتنی بڑی مشکل نے آن گھیرا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں، جہاں ڈویژنل اور ضلعی دفاتر قائم ہیں، انتظامی معاملات کے لیے سالانہ کروڑوں روپے مختص ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ وہاں بھی بہت نقصان ہوا، لوگ کئی دنوں تک پانی کے ریلوں میں پھنسے رہے، بھوک پیاس سے تڑپتے رہے، لیکن کسی نے ان کی جانب توجہ نہیں کی۔ سیاسی سرگرمیاں اْسی طمطراق سے جاری رہیں۔
وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جس پر وائرل ہونے والی تصاویر اور وڈیوز نے دیگر پاکستانیوں کی توجہ عوام کی جانب مبذول کروائی، ورنہ شاید کسی کا اْن کی طرف دھیان بھی نہ جاتا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز نے دْکھ کی اس گھڑی میں سیلاب زدہ علاقوں کا دَورہ تک کرنا گوارہ نہیں کیا، گو مالی امداد کے اعلانات بھی کیے، لیکن تاحال عوام کے حالات میں بہتری کی کوئی اْمید نظر نہیں آتی، جب کہ اس وقت عوام کو اعلانات، وعدوں، دلاسوں کی نہیں، فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ویسے سننے میں تو یہ بھی میں آیا ہے کہ بیش تر سیاسی جماعتیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے ووٹرز لسٹ بنانے میں مصروف ہیں۔
عوام سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری، پیاروں کے بچھڑ جانے کے غم، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور بے سروسامانی پر ماتم نہ کریں، تو کیا کریں ، بقول صدام ساگر:
بارشوں نے کیا دیا میری دعاؤں کا صلہ
دھوپ نکلے گی تو قسمت سائباں پر روئے گی
عوام کو درحقیقت اسی بات کا رنج ہے کہ آج جب وہ مصیبت میں گھر ے ہیں، اْنہیں سخت مصائب کا سامنا ہے تو محض زبانی جمع خرچ سے کام لیا جا رہا ہے، وہ ڈرون کیمرے، جو سیاسی ریلیوں اور اجتماعات میں استعمال ہوتے ہیں، کیا وہ سیلاب متاثرین کی مانیٹرنگ کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔ عوام پر مصیبت آن پڑی ہے، تو کوئی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا۔ دردناک پہلو تو یہ ہے کہ لاتعداد آبادیاں تہس نہس ہو گئیں، سیکڑوں افراد پانی کے ریلوں میں بہہ گئے، لوگوں سے ان کی چھتیں چِھن گئیں، مال مویشی ہلاک ہوگئے، زراعت اور فصلیں تباہ ہوگئیں، غریبوں کی خون پسینے کی کمائی برباد ہوگئی، لیکن سیاست دانوں کا ضمیر نہیں جاگا۔
ہمارے رویے منفی ہیں، جیسے بعض مذہبی و سیاسی رہنما سیلاب کو عذاب اور گناہوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، ہمارے بعض لوگ واقعی خود کو گناہ گار سمجھنے لگتے ہیں اور ایک طرح سے ان کے اندر احساس گناہ جاگ اٹھتا ہے، جو ہنگامی صورتحال کے خاتمے کے بعد بھی انھیں اندر ہی اندر ڈستا رہتا ہے، کیونکہ ہمارے لوگوں کی ذہنی سطح ایسی بلند نہیں کہ وہ اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکیں۔ ان کے پاس سائنسی علم نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو جان سکیں، سو وہ خود کو مجرم محسوس کرتے ہیں۔ دراصل ایسے بیانات حیران کن نہیں، افسوسناک ہیں۔ اس سے بڑی بے حسی کیا ہو گی کہ ایک طرف لوگ مر رہے ہیں دوسری طرف وکٹم بلیمنگ کی جا رہی ہو۔ طاقتور طبقات جان بوجھ کر ایسی مابعدالطبیعیاتی موشگافیوں میں الجھاتے ہیں۔
اس کا لامحالہ اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی ناقص پالیسیوں اور انتظامات پر سوال اٹھانے کے بجائے خود کو ہی مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ چیز بطور سماج نہ صرف ہمارے فکری بلکہ مادی افلاس کا بھی سبب ہے۔ دراصل ایسے مسائل کا حل سائنسی طرز فکر میں پوشیدہ ہے، اگر سائنسی طرز فکر ہماری زندگی اور رویوں کا حصہ بنے گا تو ہم قدرتی آفات کی نہ صرف بہتر تفہیم کر سکیں گے بلکہ ان کے سدباب کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور عمدہ انتظامات کر سکنے کے قابل ہوں گے۔
آج اگر پاکستان میں مقامی حکومتیں ہوتیں تو وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو سیلابی پانی کا جائزہ نہ لینا پڑتا، کسی بھی محلے کے افراد سے جتنا وہاں کا کونسلر واقف ہوتا ہے دوسرا کوئی بھی نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ ہی گلیوں اور محلوں میں پیدا ہونے والے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لیے لوگ کونسلر سے رابطہ کرتے تھے، پولیس اور عوام کے درمیان کونسلر رابطے کا بھی بہترین ذریعہ ثابت ہوتے رہے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی یہی کونسلر ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے تھے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی بانجھ ہے ، جن عوامی نمایندوں کا کام قانون سازی کرنا تھا انھیں گلیاں پکی کرانے ، سڑکوں پر لگے بینر اتروانے، دیواروں سے وال چاکنگ ختم کروانے جیسے ''عوامی فلاحی'' کاموں پر لگا دیا گیا ہے، الٹی گنگا جمہوریت کے نام پر بہائی جارہی ہے۔
مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں جمہوریت کیوں مضبوط ہے اور دنیا اس کی تعریف کیوں کرتی ہے اس کی بنیاد بھی مقامی حکومتوں کے نظام کا قائم ہونا ہی بتایا جاتا ہے وہاں جمہوریت کا پہلا تعارف دراصل مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ہوا تھا جب 1983 میں پہلی بار کلکتہ اور ممبئی میں محدود نمایندہ حکومت قائم کی گئی اس نظام کی کامیابی نے ہی وہاں جمہوریت کو مضبوط کیا۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 140-Aصوبوں پر یہ ذمے داری عائد کرتا ہے کہ وہ انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات اضلاع کو منتقل کریں کیونکہ مقامی حکومتوں کے نظام میں شہریوں کو بھر پور شرکت کا موقع ملتا ہے اور ان کی وطن کے ساتھ کمٹمنٹ میں اضافہ ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جذبہ ہمدردی اور خود اپنی ذات پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر شہری خود کو یتیم اور لاوارث سمجھتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج کسی شہری کو اپنے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے نمایندے کے نام سے بھی واقفیت کم ہی ہوتی ہے کیونکہ اشرافیہ کا رابطہ ہی رعایا سے نہیں ہوتا۔ آج اگر مقامی حکومتیں فعال ہوتی تو سیلاب کی تباہ کاریوں میں مقامی نمایندوں سے بہتر اور اچھے انداز میں کام لے کر بہتر خدمات میں نام کمایا جاسکتا تھا لیکن اس کے لیے عقل اور ویژن کی ضرورت ہے۔
بہرکیف، یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر ڈیمز، پلوں، سڑکوں اور عمارتوں کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیتے ہوئے ذمے داران کے خلاف کارروائی کرے۔ اب تک ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے، محکمہ موسمیات و ماحولیات کی پیش گوئیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آبادیوں کے لیے محفوظ منصوبہ بندی کرے، اگر پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات ہیں، تو انھیں فوراً ختم کیا جانا چاہیے، نکاسیِ آب کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔
حالیہ سیلاب بڑے پیمانے پر انسانی المیہ کو جنم دے رہا ہے، دوسری جانب سوئیڈن کی 19 سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشیں اور سیلاب ایک مثال ہیں، اب بھی وقت ہے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف عمل کرنے کا۔
بلاشبہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں، لیکن کیا ہم نے ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے کیا کوئی پیش بندی کی ہے؟ جواب منفی ہے کیونکہ ہم صرف اور صرف وقتی طور پر مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہماری قیادت طویل اور مربوط منصوبہ بندی اور ویژن سے خالی ہے ۔
ذرا سوچیں، کیا محض ہمدردی کے دو بول، طفل تسلیوں، نام نہاد وعدوں سے اس قدر شدید جانی و مالی نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔ سیکڑوں چھوٹے، بڑے پل سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے ہیں، پاکستانی عوام تو پہلے ہی شدید مہنگائی اور خوراک کی کمی کے ہاتھوں عاجز تھے کہ اْنہیں اتنی بڑی مشکل نے آن گھیرا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں، جہاں ڈویژنل اور ضلعی دفاتر قائم ہیں، انتظامی معاملات کے لیے سالانہ کروڑوں روپے مختص ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ وہاں بھی بہت نقصان ہوا، لوگ کئی دنوں تک پانی کے ریلوں میں پھنسے رہے، بھوک پیاس سے تڑپتے رہے، لیکن کسی نے ان کی جانب توجہ نہیں کی۔ سیاسی سرگرمیاں اْسی طمطراق سے جاری رہیں۔
وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جس پر وائرل ہونے والی تصاویر اور وڈیوز نے دیگر پاکستانیوں کی توجہ عوام کی جانب مبذول کروائی، ورنہ شاید کسی کا اْن کی طرف دھیان بھی نہ جاتا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز نے دْکھ کی اس گھڑی میں سیلاب زدہ علاقوں کا دَورہ تک کرنا گوارہ نہیں کیا، گو مالی امداد کے اعلانات بھی کیے، لیکن تاحال عوام کے حالات میں بہتری کی کوئی اْمید نظر نہیں آتی، جب کہ اس وقت عوام کو اعلانات، وعدوں، دلاسوں کی نہیں، فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ویسے سننے میں تو یہ بھی میں آیا ہے کہ بیش تر سیاسی جماعتیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے ووٹرز لسٹ بنانے میں مصروف ہیں۔
عوام سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری، پیاروں کے بچھڑ جانے کے غم، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور بے سروسامانی پر ماتم نہ کریں، تو کیا کریں ، بقول صدام ساگر:
بارشوں نے کیا دیا میری دعاؤں کا صلہ
دھوپ نکلے گی تو قسمت سائباں پر روئے گی
عوام کو درحقیقت اسی بات کا رنج ہے کہ آج جب وہ مصیبت میں گھر ے ہیں، اْنہیں سخت مصائب کا سامنا ہے تو محض زبانی جمع خرچ سے کام لیا جا رہا ہے، وہ ڈرون کیمرے، جو سیاسی ریلیوں اور اجتماعات میں استعمال ہوتے ہیں، کیا وہ سیلاب متاثرین کی مانیٹرنگ کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔ عوام پر مصیبت آن پڑی ہے، تو کوئی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا۔ دردناک پہلو تو یہ ہے کہ لاتعداد آبادیاں تہس نہس ہو گئیں، سیکڑوں افراد پانی کے ریلوں میں بہہ گئے، لوگوں سے ان کی چھتیں چِھن گئیں، مال مویشی ہلاک ہوگئے، زراعت اور فصلیں تباہ ہوگئیں، غریبوں کی خون پسینے کی کمائی برباد ہوگئی، لیکن سیاست دانوں کا ضمیر نہیں جاگا۔
ہمارے رویے منفی ہیں، جیسے بعض مذہبی و سیاسی رہنما سیلاب کو عذاب اور گناہوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، ہمارے بعض لوگ واقعی خود کو گناہ گار سمجھنے لگتے ہیں اور ایک طرح سے ان کے اندر احساس گناہ جاگ اٹھتا ہے، جو ہنگامی صورتحال کے خاتمے کے بعد بھی انھیں اندر ہی اندر ڈستا رہتا ہے، کیونکہ ہمارے لوگوں کی ذہنی سطح ایسی بلند نہیں کہ وہ اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکیں۔ ان کے پاس سائنسی علم نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو جان سکیں، سو وہ خود کو مجرم محسوس کرتے ہیں۔ دراصل ایسے بیانات حیران کن نہیں، افسوسناک ہیں۔ اس سے بڑی بے حسی کیا ہو گی کہ ایک طرف لوگ مر رہے ہیں دوسری طرف وکٹم بلیمنگ کی جا رہی ہو۔ طاقتور طبقات جان بوجھ کر ایسی مابعدالطبیعیاتی موشگافیوں میں الجھاتے ہیں۔
اس کا لامحالہ اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی ناقص پالیسیوں اور انتظامات پر سوال اٹھانے کے بجائے خود کو ہی مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ چیز بطور سماج نہ صرف ہمارے فکری بلکہ مادی افلاس کا بھی سبب ہے۔ دراصل ایسے مسائل کا حل سائنسی طرز فکر میں پوشیدہ ہے، اگر سائنسی طرز فکر ہماری زندگی اور رویوں کا حصہ بنے گا تو ہم قدرتی آفات کی نہ صرف بہتر تفہیم کر سکیں گے بلکہ ان کے سدباب کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور عمدہ انتظامات کر سکنے کے قابل ہوں گے۔
آج اگر پاکستان میں مقامی حکومتیں ہوتیں تو وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو سیلابی پانی کا جائزہ نہ لینا پڑتا، کسی بھی محلے کے افراد سے جتنا وہاں کا کونسلر واقف ہوتا ہے دوسرا کوئی بھی نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ ہی گلیوں اور محلوں میں پیدا ہونے والے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لیے لوگ کونسلر سے رابطہ کرتے تھے، پولیس اور عوام کے درمیان کونسلر رابطے کا بھی بہترین ذریعہ ثابت ہوتے رہے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی یہی کونسلر ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے تھے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی بانجھ ہے ، جن عوامی نمایندوں کا کام قانون سازی کرنا تھا انھیں گلیاں پکی کرانے ، سڑکوں پر لگے بینر اتروانے، دیواروں سے وال چاکنگ ختم کروانے جیسے ''عوامی فلاحی'' کاموں پر لگا دیا گیا ہے، الٹی گنگا جمہوریت کے نام پر بہائی جارہی ہے۔
مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں جمہوریت کیوں مضبوط ہے اور دنیا اس کی تعریف کیوں کرتی ہے اس کی بنیاد بھی مقامی حکومتوں کے نظام کا قائم ہونا ہی بتایا جاتا ہے وہاں جمہوریت کا پہلا تعارف دراصل مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ہوا تھا جب 1983 میں پہلی بار کلکتہ اور ممبئی میں محدود نمایندہ حکومت قائم کی گئی اس نظام کی کامیابی نے ہی وہاں جمہوریت کو مضبوط کیا۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 140-Aصوبوں پر یہ ذمے داری عائد کرتا ہے کہ وہ انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات اضلاع کو منتقل کریں کیونکہ مقامی حکومتوں کے نظام میں شہریوں کو بھر پور شرکت کا موقع ملتا ہے اور ان کی وطن کے ساتھ کمٹمنٹ میں اضافہ ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جذبہ ہمدردی اور خود اپنی ذات پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر شہری خود کو یتیم اور لاوارث سمجھتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج کسی شہری کو اپنے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے نمایندے کے نام سے بھی واقفیت کم ہی ہوتی ہے کیونکہ اشرافیہ کا رابطہ ہی رعایا سے نہیں ہوتا۔ آج اگر مقامی حکومتیں فعال ہوتی تو سیلاب کی تباہ کاریوں میں مقامی نمایندوں سے بہتر اور اچھے انداز میں کام لے کر بہتر خدمات میں نام کمایا جاسکتا تھا لیکن اس کے لیے عقل اور ویژن کی ضرورت ہے۔
بہرکیف، یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر ڈیمز، پلوں، سڑکوں اور عمارتوں کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیتے ہوئے ذمے داران کے خلاف کارروائی کرے۔ اب تک ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے، محکمہ موسمیات و ماحولیات کی پیش گوئیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آبادیوں کے لیے محفوظ منصوبہ بندی کرے، اگر پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات ہیں، تو انھیں فوراً ختم کیا جانا چاہیے، نکاسیِ آب کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔