فائنل میں شکست گرین شرٹس کی ناقص پلاننگ کا پول کھل گیا
لہولہان ہو چکے مگر مڈل آرڈر کو ٹیم کا بڑا مسئلہ نہیں ماننا،شعیب ملک کو کیوں نہیں کھلارہے؟ حفیظ
ایشیا کپ فائنل میں شکست نے گرین شرٹس کی ناقص پلاننگ کا پول کھول دیا، سابق کرکٹرز بھی پھٹ پڑے۔
ایشیا کپ سپر فور میچ میں میں پاکستان ٹیم کو سری لنکا سے شکست ہوئی تو توقعات وابستہ کی گئیں کہ فائنل میں زبردست کم بیک ہوگا،گرین شرٹس بھرپور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بابر اعظم نے ٹاس بھی جیت لیا تو امیدیں بڑھ گئیں،آئی لینڈرز کی ابتدائی 5وکٹیں جلد ہاتھ آگئیں تو جیت کے امکانات روشن نظر آنے لگے۔
اس موقع پر کمزور قیادت اور ڈراپ کیچز نے سری لنکن بیٹرز کو میچ میں واپسی کا راستہ دکھا دیا، چھٹی وکٹ کیلیے اسٹرائیک بولرز کو آزمانے کے بجائے اوورز پورے کرنے کی کارروائی پر توجہ رہی،محمد نواز سے صرف ایک اوور کروایا گیا،ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ٹاپ آرڈر نے دھوکا دیا، محمد رضوان نے ٹیسٹ میچ جیسی اننگز کھیلی،وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تو بنے مگر مڈل آرڈر پر بوجھ ڈال گئے جو پہلے ہی پورے ٹورنامنٹ میں غیر مستحکم نظر آرہی تھی۔
اس شکست پر جہاں شائقین دلبرداشتہ نظر آئے، وہاں سابق کرکٹرز بھی ناقص پلاننگ اور سلیکشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، محمد حفیظ نے شکست کے بعد قومی ٹیم کی سلیکشن پر سوالات اٹھائے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم لہولہان ہو چکے لیکن بات نہیں ماننی کہ ٹیم کا مڈل آرڈر یعنی 4،5 اور 6 نمبر ہمارا مسئلہ ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کھلاڑی بْرے ہیں لیکن اگر یہ پرفارم نہیں کرتے تو ہمارے پاس اور بھی پلیئرز موجود ہیں، شعیب ملک کوکیوں نہیں کھلارہے؟
حیدر علی ہمارے پاس ہیں انھیں موقع دیں،اس ٹیلنٹ کو کیوں ضائع کر رہے ہیں، اگر حیدر تیسرے نمبر پر نہیں کھلانا تو چوتھے، پانچویں پر آزمائیں، یہ سب ہمارے اپنے ہیں لیکن آصف علی کے 1 یا2 چھکوں کے انتظار میں کتنے میچز دیں گے،انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی اس ہار سے سبق سیکھنا چاہیے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی بہترین ٹیم بنانے کیلیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
شعیب اختر نے کہا کہ ٹیم کمبی نیشن کام نہیں کررہا،محمد رضوان کے 50گیندوں پر 50 رنز کسی کام کے نہیں، ورلڈ کپ سر پر ہے،بہت سے معاملات پر ازسر نو غور کرنا ہوگا، فخرزمان، افتخار احمد اور خوشدل شاہ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، بطور بیٹر کپتان بابر اعظم کیلیے یہ ایک بھیانک ٹورنامنٹ تھا۔
وسیم اکرم نے کہا کہ ہانگ کانگ کیخلاف میچ میں محمد رضوان کا اسٹرائیک ریٹ دیکھتے ہوئے میں نے صحتمندانہ تنقید کی کہ بڑی ٹیموں کیخلاف اس اپروچ کا نقصان ہوگا،اس پرسوشل میڈیا پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لوگوں کا کہنا تھا کہ شاید میں رضوان کو سپورٹ نہیں کرتا،بہرحال کوئی میری رائے پوچھے تو سچی، صاف اور سیدھی بات کروں گا،میں جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا،سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتا ہوں۔
راشد لطیف نے کہا کہ 5وکٹیں جلد گرنے کے بعد ہدف 130سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ہسارنگا اور راجا پکسا کو اننگز کی بحالی کا موقع دیا گیا،اس وقت حارث رئوف کو بولنگ کیلیے لانا چاہیے تھا، پارٹ ٹائم بولر افتخار کے بجائے محمد نواز کو کیوں نہیں آزمایا؟ سست بیٹنگ کی،ہدف کا تعاقب ایسے نہیں ہوتا ہے۔
معین خان نے کہا کہ نجانے کپتان بابر اعظم نے میچ کو لمبا کھینچنے کی کوشش کیوں کی،انھوں نے آخری اوور کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا، یہ منفی سوچ ہے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ پورے ٹورنامنٹ بالخصوص فائنل میں سری لنکن کارکردگی داد کی مستحق ہے،میں نے شروع میں میچ دیکھا تو لگا کہ پاکستان یکطرفہ مقابلے کے بعد جیت جائے گا،مگر آخر میں الٹ ہوگیا، آئی لینڈرزایشیا کپ کے مستحق تھے۔
ایشیا کپ سپر فور میچ میں میں پاکستان ٹیم کو سری لنکا سے شکست ہوئی تو توقعات وابستہ کی گئیں کہ فائنل میں زبردست کم بیک ہوگا،گرین شرٹس بھرپور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بابر اعظم نے ٹاس بھی جیت لیا تو امیدیں بڑھ گئیں،آئی لینڈرز کی ابتدائی 5وکٹیں جلد ہاتھ آگئیں تو جیت کے امکانات روشن نظر آنے لگے۔
اس موقع پر کمزور قیادت اور ڈراپ کیچز نے سری لنکن بیٹرز کو میچ میں واپسی کا راستہ دکھا دیا، چھٹی وکٹ کیلیے اسٹرائیک بولرز کو آزمانے کے بجائے اوورز پورے کرنے کی کارروائی پر توجہ رہی،محمد نواز سے صرف ایک اوور کروایا گیا،ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ٹاپ آرڈر نے دھوکا دیا، محمد رضوان نے ٹیسٹ میچ جیسی اننگز کھیلی،وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تو بنے مگر مڈل آرڈر پر بوجھ ڈال گئے جو پہلے ہی پورے ٹورنامنٹ میں غیر مستحکم نظر آرہی تھی۔
اس شکست پر جہاں شائقین دلبرداشتہ نظر آئے، وہاں سابق کرکٹرز بھی ناقص پلاننگ اور سلیکشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، محمد حفیظ نے شکست کے بعد قومی ٹیم کی سلیکشن پر سوالات اٹھائے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم لہولہان ہو چکے لیکن بات نہیں ماننی کہ ٹیم کا مڈل آرڈر یعنی 4،5 اور 6 نمبر ہمارا مسئلہ ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کھلاڑی بْرے ہیں لیکن اگر یہ پرفارم نہیں کرتے تو ہمارے پاس اور بھی پلیئرز موجود ہیں، شعیب ملک کوکیوں نہیں کھلارہے؟
حیدر علی ہمارے پاس ہیں انھیں موقع دیں،اس ٹیلنٹ کو کیوں ضائع کر رہے ہیں، اگر حیدر تیسرے نمبر پر نہیں کھلانا تو چوتھے، پانچویں پر آزمائیں، یہ سب ہمارے اپنے ہیں لیکن آصف علی کے 1 یا2 چھکوں کے انتظار میں کتنے میچز دیں گے،انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی اس ہار سے سبق سیکھنا چاہیے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی بہترین ٹیم بنانے کیلیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
شعیب اختر نے کہا کہ ٹیم کمبی نیشن کام نہیں کررہا،محمد رضوان کے 50گیندوں پر 50 رنز کسی کام کے نہیں، ورلڈ کپ سر پر ہے،بہت سے معاملات پر ازسر نو غور کرنا ہوگا، فخرزمان، افتخار احمد اور خوشدل شاہ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، بطور بیٹر کپتان بابر اعظم کیلیے یہ ایک بھیانک ٹورنامنٹ تھا۔
وسیم اکرم نے کہا کہ ہانگ کانگ کیخلاف میچ میں محمد رضوان کا اسٹرائیک ریٹ دیکھتے ہوئے میں نے صحتمندانہ تنقید کی کہ بڑی ٹیموں کیخلاف اس اپروچ کا نقصان ہوگا،اس پرسوشل میڈیا پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لوگوں کا کہنا تھا کہ شاید میں رضوان کو سپورٹ نہیں کرتا،بہرحال کوئی میری رائے پوچھے تو سچی، صاف اور سیدھی بات کروں گا،میں جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا،سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتا ہوں۔
راشد لطیف نے کہا کہ 5وکٹیں جلد گرنے کے بعد ہدف 130سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ہسارنگا اور راجا پکسا کو اننگز کی بحالی کا موقع دیا گیا،اس وقت حارث رئوف کو بولنگ کیلیے لانا چاہیے تھا، پارٹ ٹائم بولر افتخار کے بجائے محمد نواز کو کیوں نہیں آزمایا؟ سست بیٹنگ کی،ہدف کا تعاقب ایسے نہیں ہوتا ہے۔
معین خان نے کہا کہ نجانے کپتان بابر اعظم نے میچ کو لمبا کھینچنے کی کوشش کیوں کی،انھوں نے آخری اوور کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا، یہ منفی سوچ ہے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ پورے ٹورنامنٹ بالخصوص فائنل میں سری لنکن کارکردگی داد کی مستحق ہے،میں نے شروع میں میچ دیکھا تو لگا کہ پاکستان یکطرفہ مقابلے کے بعد جیت جائے گا،مگر آخر میں الٹ ہوگیا، آئی لینڈرزایشیا کپ کے مستحق تھے۔