بلوچی فلم چل گئی
بلوچی زبان کی پہلی فلم 46 سال قبل 1976 میں معروف اداکار انور اقبال نے حمل و ماگنج کے نام سے بنائی
ہر طرف مہنگائی ، سیلاب کی تباہ کاریوں، اسٹریٹ کرائمز اور سیاسی محاذ آرائی کی خبروں سے ذہن پر بوجھ ہے۔ اس دور کی ایک خوش خبری یہ ہے کہ بلوچی زبان میں بننے والی دوسری فلم ''دودا'' کراچی میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی اور بلوچ ناظرین نے اپنی خیر مقدمی تالیوں سے اس فلم کو خوش آمدید کہا۔
بلوچی زبان کی پہلی فلم 46 سال قبل 1976 میں معروف اداکار انور اقبال نے حمل و ماگنج کے نام سے بنائی۔ سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے اس فلم میں اداکاری کی تھی مگر رجعت پسند بلوچ کلچر کے علم برداروں نے کراچی کی سڑکوں پر اتنا احتجاج کیا تھا کہ فلم کی نمائش ممکن نہ ہوسکی۔ سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ نے فلم کی نمائش کو ایک مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض بلوچ کارکنوں نے یہ غلط تاثر عام کیا تھا کہ بلوچی فلم، پشتو فلم کی طرح ہوگی۔ پشتو فلم میں اداکار بدر منیر کے کچھ ڈائیلاگ اور کچھ سین جوڑ دیے جاتے تھے۔
انور اقبال نے بلوچی زبان کی فلم کے بارے میں اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں اس فلم کی نمائش کا اہتمام کیا تھا مگر رائے عامہ تبدیل نہ ہوئی۔ آج انور اقبال زندہ ہوتے تو 45 سال قبل جو خواب انھوں نے دیکھا تھا اس خواب کی عملی تعبیر ان کے سامنے ہوتی۔
دودا کی کہانی لیاری کے باکسر کی کہانی ہے۔ لیاری جو ہمیشہ جمہوری تحریکوں کا مرکز رہا ہے یہاں کے باکسنگ اور فٹ بال سب سے زیادہ مقبول کھیل ہیں۔ بلوچ نوجوان جن کی زندگی کا آغاز غربت میں ہوتا ہے وہ باکسنگ جیسے توانائی والے کھیل میں بھرپور دلچسپی سے کھیلتے ہیں۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیے ہیں اور اولمپک کھیلوں میں گولڈ میڈل کے لیے ان تھک محنت کرتے ہیں۔ ایک غیر ملکی سفارت خانہ کی کوششوں سے لیاری کی طالبات کے لیے باکسنگ کی اکیڈمی قائم ہوئی ہے۔ فلم کے ہیروکا کردار شعیب حسن نے ادا کیا ہے۔
شعیب نے کئی ماہ تک باکسنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔ شعیب نے بتایا کہ ان کا کردار لیاری کے باکسر کا ہے۔ ا س فلم میں اداکاری کرنے والوں میں عمران بلوچ ، شکور بلوچ اور انور اقبال شامل ہیں۔ انور اقبال یکم جولائی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔
فلم کے پروڈیوسر عادل بلوچ کاکہنا ہے کہ پنجاب اور دیگر علاقوں کے ناظرین کے لیے اس فلم کو اردو میں ڈب کیا جائے گا۔ بلوچ کلچر اور بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور کا بیانیہ ہے کہ پہلی بلوچ فلم کے بانی انور اقبال آخری وقت تک بلوچ قوم سے شکوہ کرتے رہے کہ ان کی فلم کے خلاف لوگوں کو ورغلایا گیا۔ اس فلم کی کہانی بلوچی زبان کے نامور ادب سید ظہور شاہ ہاشمی نے لکھی تھی۔
سید ظہور شاہ ہاشمی گوادر میں پیدا ہوئے۔ انور اقبال کا تعلق پسنی سے تھا۔ دونوں کی تدفین کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی۔ سید ظہور شاہ ہاشمی نے گوادر میں انجمن اصلاح بلوچاں کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ اس وقت کے گوادر کے حکمراں سلطان قابوس آف عثمان نے اسے گوادر بدر کر دیا تھا۔ سید ظہور شاہ کراچی میں منتقل ہوئے۔ وہ بلوچ زبان ، ادب اور بلوچی زبان کی ڈکشنری پر کام کرتے رہے۔
پہلی بلوچی فلم حمل و ما گنج 1975 میں تیار ہوئی۔ اس فلم کی کہانی حمل و ما گنج کی داستان پر مشتمل تھی۔ پندرہویں صدی میں پرتگیزوں نے بلوچستان کی ساحلی بندرگاہ گوادر پر حملہ کیا تھا جہاں میر حمل قلمتی کی فوج نے پرتگیزوں کے حملہ کو ناکام بنایا تھا۔ اس زمانہ میں بلوچوں کا ہیڈ کوارٹر کلمت تھا۔ عوامی مؤرخ گل حسن کلمتی نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ پہلی بلوچی فلم لیاری میں ہونے والی سیاسی چپقلش کا شکار ہوئی تھی۔ اس فلم کی نمائش روکنے کے لیے 22 انجمنوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔ لالہ قیصر محمد بلوچ اس کے صدر اور محمد ابراہیم اس کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔
اس ایکشن کمیٹی نے یہ بیانیہ اخذ کیا تھا کہ فلم کے ذریعہ بلوچی ثقافت اور روایات کو نقصان ہوگا۔ اس زمانہ میں بلوچستان میں بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تھا اور بلوچستان میں ایک مزاحمتی تحریک جاری تھی، یوں اس فضاء میں پہلی بلوچی فلم بلوچ ناظرین تک نہیں پہنچ سکی۔
برصغیر میں گزشتہ صدی میں فلم سازی کا آغاز ہوا۔ بمبئی اور لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ ان مراکز میں اردو ، ہندی، بنگالی ، تامل ، میراٹھی اور دیگر زبانوں میں معرکتہ الآراء فلمیں بنیں۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں دلیپ کمار، 80ء کی دہائی میں امیتاب بچن اور 90ء کی دہائی میں شاہ رخ وغیرہ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ بھارت کی پہلی حکومت کانگریس کے رہنما پنڈت جواہر لعل نہروکی قیادت میں قائم ہوئی۔ اس حکومت نے فلم کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی ، یوں بھارتی فلمیں بین الاقوامی طور پر سینما میں اہمیت اختیار کرگئی ، یوں بھارت کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوا اور دنیا بھر میں بھارت کا جدید چہرہ دنیا کے سامنے آیا۔
قیام پاکستان کے بعد برسر اقتدار آنے والے حکمراں فلم اورکلچرکی اہمیت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی حکومت کے وزیر سردار عبدالرب نشتر نے فلم کو کافروں کا کھیل قرار دیا ، یوں رجعت پسندی کی فضاء میں فلم انڈسٹری ترقی نہ کرسکی، مگر ملک میں کئی معرکتہ الآراء فلمیں تیار ہوئی تھیں۔ پوری دنیا میں انھیں سراہا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (N.F.D.C) قائم ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں 50ء کی دہائی میں مسلم لیگ مخالف جماعتوں نے جگتو فرنٹ کے نام سے حکومت بنائی۔ بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن ثقافت کے وزیر مقرر ہوئے تھے ، انھوں نے مشرقی پاکستان میں فلمی صنعت کی ترقی کے لیے اسی طرح کی سرکاری کارپوریشن قائم کی تھی۔
بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر بلوچستان غربت کے اعداد و شمار کے اعتبار سے بھی پہلے نمبر پر ہے۔ زیبسٹ کے کلیہ سوشل سائنس کے ڈین اور سوشیالوجسٹ ڈاکٹر ریاض شیخ فلم دودا کے پس منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچی زبان کی پہلی فلم تو متحارب گروہوں کے دباؤ پر ریلیز نہیں ہوسکی تھی مگر اب 40سال بعد فلم دودا کا ریلیز ہونا اور بلوچ نوجوانوں کا فلم کو پسند کرنا ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ ڈاکٹر ریاض شیخ جو بلوچی کلچر کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیتے ہیں کہ فلم ایسے موضوع پر مبنی ہے جو لیاری اور اطراف کے علاقوں کے لیے اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ سوسائٹی نے اس فلم کو پسند کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں آرٹ اور تھیٹر کلاسیکل تھا جو ہندو کلچرل سوسائٹی میں موجود تھا۔ اس کلچر پر دوسرے ایرانی کلچر کے اثرات پڑے۔ اس میں اہم کردار پارسی کمیونٹی کا تھا۔ کلچر کی ترویج میں جی ٹی روڈ کا اہم کردار تھا۔ جی ٹی روڈ سے مختلف قافلے آتے تھے، یہی وجہ ہے کہ پشاور فن اور کلچر کا مرکز تھا مگر بیرونی کلچر کے بلوچستان پر اثرات ظاہر نہیں ہوئے مگرکوئٹہ اور سبی کے کنٹونمنٹ میں سینما قائم ہوئے تھے۔
اب گلوبلائزیشن کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کی بناء پر بلوچ سوسائٹی عالمی سوسائٹی سے منسلک ہوئی اور بلوچ معاشرہ میں ایک کھلے پن اور فن کے اظہار کا تصور قائم ہوا۔ آرٹ سوسائٹی اورکلچر سوسائٹی کو برداشت کے قابل بناتے ہیں اور مزاحمتی تحریک کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے مایوسی کے باوجود دودا کا خیرمقدم کیا ہے۔ بلوچستان میں نوجوانوں میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کی تربیت کی جائے تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
بلوچی زبان کی پہلی فلم 46 سال قبل 1976 میں معروف اداکار انور اقبال نے حمل و ماگنج کے نام سے بنائی۔ سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے اس فلم میں اداکاری کی تھی مگر رجعت پسند بلوچ کلچر کے علم برداروں نے کراچی کی سڑکوں پر اتنا احتجاج کیا تھا کہ فلم کی نمائش ممکن نہ ہوسکی۔ سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ نے فلم کی نمائش کو ایک مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض بلوچ کارکنوں نے یہ غلط تاثر عام کیا تھا کہ بلوچی فلم، پشتو فلم کی طرح ہوگی۔ پشتو فلم میں اداکار بدر منیر کے کچھ ڈائیلاگ اور کچھ سین جوڑ دیے جاتے تھے۔
انور اقبال نے بلوچی زبان کی فلم کے بارے میں اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں اس فلم کی نمائش کا اہتمام کیا تھا مگر رائے عامہ تبدیل نہ ہوئی۔ آج انور اقبال زندہ ہوتے تو 45 سال قبل جو خواب انھوں نے دیکھا تھا اس خواب کی عملی تعبیر ان کے سامنے ہوتی۔
دودا کی کہانی لیاری کے باکسر کی کہانی ہے۔ لیاری جو ہمیشہ جمہوری تحریکوں کا مرکز رہا ہے یہاں کے باکسنگ اور فٹ بال سب سے زیادہ مقبول کھیل ہیں۔ بلوچ نوجوان جن کی زندگی کا آغاز غربت میں ہوتا ہے وہ باکسنگ جیسے توانائی والے کھیل میں بھرپور دلچسپی سے کھیلتے ہیں۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیے ہیں اور اولمپک کھیلوں میں گولڈ میڈل کے لیے ان تھک محنت کرتے ہیں۔ ایک غیر ملکی سفارت خانہ کی کوششوں سے لیاری کی طالبات کے لیے باکسنگ کی اکیڈمی قائم ہوئی ہے۔ فلم کے ہیروکا کردار شعیب حسن نے ادا کیا ہے۔
شعیب نے کئی ماہ تک باکسنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔ شعیب نے بتایا کہ ان کا کردار لیاری کے باکسر کا ہے۔ ا س فلم میں اداکاری کرنے والوں میں عمران بلوچ ، شکور بلوچ اور انور اقبال شامل ہیں۔ انور اقبال یکم جولائی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔
فلم کے پروڈیوسر عادل بلوچ کاکہنا ہے کہ پنجاب اور دیگر علاقوں کے ناظرین کے لیے اس فلم کو اردو میں ڈب کیا جائے گا۔ بلوچ کلچر اور بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور کا بیانیہ ہے کہ پہلی بلوچ فلم کے بانی انور اقبال آخری وقت تک بلوچ قوم سے شکوہ کرتے رہے کہ ان کی فلم کے خلاف لوگوں کو ورغلایا گیا۔ اس فلم کی کہانی بلوچی زبان کے نامور ادب سید ظہور شاہ ہاشمی نے لکھی تھی۔
سید ظہور شاہ ہاشمی گوادر میں پیدا ہوئے۔ انور اقبال کا تعلق پسنی سے تھا۔ دونوں کی تدفین کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی۔ سید ظہور شاہ ہاشمی نے گوادر میں انجمن اصلاح بلوچاں کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ اس وقت کے گوادر کے حکمراں سلطان قابوس آف عثمان نے اسے گوادر بدر کر دیا تھا۔ سید ظہور شاہ کراچی میں منتقل ہوئے۔ وہ بلوچ زبان ، ادب اور بلوچی زبان کی ڈکشنری پر کام کرتے رہے۔
پہلی بلوچی فلم حمل و ما گنج 1975 میں تیار ہوئی۔ اس فلم کی کہانی حمل و ما گنج کی داستان پر مشتمل تھی۔ پندرہویں صدی میں پرتگیزوں نے بلوچستان کی ساحلی بندرگاہ گوادر پر حملہ کیا تھا جہاں میر حمل قلمتی کی فوج نے پرتگیزوں کے حملہ کو ناکام بنایا تھا۔ اس زمانہ میں بلوچوں کا ہیڈ کوارٹر کلمت تھا۔ عوامی مؤرخ گل حسن کلمتی نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ پہلی بلوچی فلم لیاری میں ہونے والی سیاسی چپقلش کا شکار ہوئی تھی۔ اس فلم کی نمائش روکنے کے لیے 22 انجمنوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔ لالہ قیصر محمد بلوچ اس کے صدر اور محمد ابراہیم اس کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔
اس ایکشن کمیٹی نے یہ بیانیہ اخذ کیا تھا کہ فلم کے ذریعہ بلوچی ثقافت اور روایات کو نقصان ہوگا۔ اس زمانہ میں بلوچستان میں بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تھا اور بلوچستان میں ایک مزاحمتی تحریک جاری تھی، یوں اس فضاء میں پہلی بلوچی فلم بلوچ ناظرین تک نہیں پہنچ سکی۔
برصغیر میں گزشتہ صدی میں فلم سازی کا آغاز ہوا۔ بمبئی اور لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ ان مراکز میں اردو ، ہندی، بنگالی ، تامل ، میراٹھی اور دیگر زبانوں میں معرکتہ الآراء فلمیں بنیں۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں دلیپ کمار، 80ء کی دہائی میں امیتاب بچن اور 90ء کی دہائی میں شاہ رخ وغیرہ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ بھارت کی پہلی حکومت کانگریس کے رہنما پنڈت جواہر لعل نہروکی قیادت میں قائم ہوئی۔ اس حکومت نے فلم کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی ، یوں بھارتی فلمیں بین الاقوامی طور پر سینما میں اہمیت اختیار کرگئی ، یوں بھارت کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوا اور دنیا بھر میں بھارت کا جدید چہرہ دنیا کے سامنے آیا۔
قیام پاکستان کے بعد برسر اقتدار آنے والے حکمراں فلم اورکلچرکی اہمیت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی حکومت کے وزیر سردار عبدالرب نشتر نے فلم کو کافروں کا کھیل قرار دیا ، یوں رجعت پسندی کی فضاء میں فلم انڈسٹری ترقی نہ کرسکی، مگر ملک میں کئی معرکتہ الآراء فلمیں تیار ہوئی تھیں۔ پوری دنیا میں انھیں سراہا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (N.F.D.C) قائم ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں 50ء کی دہائی میں مسلم لیگ مخالف جماعتوں نے جگتو فرنٹ کے نام سے حکومت بنائی۔ بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن ثقافت کے وزیر مقرر ہوئے تھے ، انھوں نے مشرقی پاکستان میں فلمی صنعت کی ترقی کے لیے اسی طرح کی سرکاری کارپوریشن قائم کی تھی۔
بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر بلوچستان غربت کے اعداد و شمار کے اعتبار سے بھی پہلے نمبر پر ہے۔ زیبسٹ کے کلیہ سوشل سائنس کے ڈین اور سوشیالوجسٹ ڈاکٹر ریاض شیخ فلم دودا کے پس منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچی زبان کی پہلی فلم تو متحارب گروہوں کے دباؤ پر ریلیز نہیں ہوسکی تھی مگر اب 40سال بعد فلم دودا کا ریلیز ہونا اور بلوچ نوجوانوں کا فلم کو پسند کرنا ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ ڈاکٹر ریاض شیخ جو بلوچی کلچر کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیتے ہیں کہ فلم ایسے موضوع پر مبنی ہے جو لیاری اور اطراف کے علاقوں کے لیے اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ سوسائٹی نے اس فلم کو پسند کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں آرٹ اور تھیٹر کلاسیکل تھا جو ہندو کلچرل سوسائٹی میں موجود تھا۔ اس کلچر پر دوسرے ایرانی کلچر کے اثرات پڑے۔ اس میں اہم کردار پارسی کمیونٹی کا تھا۔ کلچر کی ترویج میں جی ٹی روڈ کا اہم کردار تھا۔ جی ٹی روڈ سے مختلف قافلے آتے تھے، یہی وجہ ہے کہ پشاور فن اور کلچر کا مرکز تھا مگر بیرونی کلچر کے بلوچستان پر اثرات ظاہر نہیں ہوئے مگرکوئٹہ اور سبی کے کنٹونمنٹ میں سینما قائم ہوئے تھے۔
اب گلوبلائزیشن کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کی بناء پر بلوچ سوسائٹی عالمی سوسائٹی سے منسلک ہوئی اور بلوچ معاشرہ میں ایک کھلے پن اور فن کے اظہار کا تصور قائم ہوا۔ آرٹ سوسائٹی اورکلچر سوسائٹی کو برداشت کے قابل بناتے ہیں اور مزاحمتی تحریک کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے مایوسی کے باوجود دودا کا خیرمقدم کیا ہے۔ بلوچستان میں نوجوانوں میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کی تربیت کی جائے تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔