آئی ایس آئی کو نہ صرف اسامہ کا علم تھا بلکہ اس حوالے سے ایک ڈیسک بھی قائم تھی امریکی اخبار
اس قسم کے الزامات کا مقصد پاکستان اور اس کے قومی اداروں کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں، انٹیلی جنس ذرائع
KARACHI:
امریکی اخبار نے الزام لگایا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کو نہ صرف اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا بلکہ ان کے معاملات دیکھنے کے لئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک بھی قائم تھی۔
امریکی اخبار''نیو یارک ٹائمز'' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی حکام کو چند ایسے شواہد ملے جن کی مدد سے انہیں پتہ چلا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں پوری طرح واقف تھے۔ یہ خبر امریکی حکام کے لئے حیران کن تھی کیونکہ وہ احمد شجاع پاشا کو طالبان کے خلاف لڑائی میں آئی ایس آئی کا سب سے زیادہ تعاون کرنے والا سربراہ سمجھتے تھے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والے خطوط، تحریروں، اور کمپیوٹرز میں موجود ڈیٹا کی روشنی میں امریکی حکام کویہ بھی پتہ چلا کہ اسامہ یہاں رہ کر اپنے نمائندوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے کمانڈروں کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا۔ ان کمانڈروں کو بھی معلوم تھا کہ القاعدہ کا سربراہ کہاں ہے ان میں کالعدم لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید اور ملا عمر بھی شامل ہیں۔ آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو اس کے کچھ نمائندوں کا پتہ تھا اس لئے اسامہ بن لادن کسی بھی نمائندے پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوئی بھی تحریک لوگوں میں میل جول رکھے بغیر نہیں چل سکتی اس لئے وہ خود بھی اپنے ساتھیوں سے ملاقات کے لئے سفر کیا کرتے تھے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009 میں اسامہ ایبٹ آباد سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گئے جہاں تک پہنچنے کے دوران ان کے قافلے نے کئی چیک پوسٹیں عبور کیں لیکن انہیں کہیں بھی نہیں روکا گیا۔ قبائلی علاقے میں انہوں نے ''بابائے جہاد'' کے نام سے مشہور طالبان کمانڈر قاری سیف اللہ اختر سے ملاقات کی، اسی قاری سیف اللہ اختر نے 1998 میں اسامہ بن لادن اور 2001 میں ملا عمر کو امریکی بمباری سے بچایا تھا، 2007 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری اسی کو سونپی گئی تھی۔ ملاقات کے دوران اس نے اسامہ سے پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹرپر حملے کے لئے معاونت مانگی تھی جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا، ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے کے بجائے امریکا کے خلاف جہاد ایک عظیم مقصد ہے، وہ چاہتا تھا کہ امریکا کے خلاف لڑائی کے لئے رضاکاروں کی بھرتی کے عمل کو تیز کیا جائے، افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کے سمندر سے جنگ شروع کی جائے گی، جس کے لئے افغانستان ، پاکستان ، صومالیہ اور بحر ہند کا خطہ القاعدہ کا اصل میدان جنگ ہوگا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے معاملات کو دیکھنے کے لئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک تشکیل دیا تھا جو اس سلسلے میں فیصلے کرنے میں خود مختار فوجی سربراہ کے ماتحت کام کرتا تھا اور اس کے بارے میں صرف پاک فوج کے اعلیٰ ترین عسکری قیادت ہی جانتی تھی۔
دوسری جانب انٹلی جنس ذرائع نے اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا کسی کو علم نہیں تھا، آئی ایس آئی کے سباق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ نہیں تھا۔ اس قسم کے الزامات کا مقصد پاکستان اور اس کے قومی اداروں کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔
امریکی اخبار نے الزام لگایا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کو نہ صرف اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا بلکہ ان کے معاملات دیکھنے کے لئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک بھی قائم تھی۔
امریکی اخبار''نیو یارک ٹائمز'' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی حکام کو چند ایسے شواہد ملے جن کی مدد سے انہیں پتہ چلا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں پوری طرح واقف تھے۔ یہ خبر امریکی حکام کے لئے حیران کن تھی کیونکہ وہ احمد شجاع پاشا کو طالبان کے خلاف لڑائی میں آئی ایس آئی کا سب سے زیادہ تعاون کرنے والا سربراہ سمجھتے تھے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والے خطوط، تحریروں، اور کمپیوٹرز میں موجود ڈیٹا کی روشنی میں امریکی حکام کویہ بھی پتہ چلا کہ اسامہ یہاں رہ کر اپنے نمائندوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے کمانڈروں کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا۔ ان کمانڈروں کو بھی معلوم تھا کہ القاعدہ کا سربراہ کہاں ہے ان میں کالعدم لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید اور ملا عمر بھی شامل ہیں۔ آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو اس کے کچھ نمائندوں کا پتہ تھا اس لئے اسامہ بن لادن کسی بھی نمائندے پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوئی بھی تحریک لوگوں میں میل جول رکھے بغیر نہیں چل سکتی اس لئے وہ خود بھی اپنے ساتھیوں سے ملاقات کے لئے سفر کیا کرتے تھے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009 میں اسامہ ایبٹ آباد سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گئے جہاں تک پہنچنے کے دوران ان کے قافلے نے کئی چیک پوسٹیں عبور کیں لیکن انہیں کہیں بھی نہیں روکا گیا۔ قبائلی علاقے میں انہوں نے ''بابائے جہاد'' کے نام سے مشہور طالبان کمانڈر قاری سیف اللہ اختر سے ملاقات کی، اسی قاری سیف اللہ اختر نے 1998 میں اسامہ بن لادن اور 2001 میں ملا عمر کو امریکی بمباری سے بچایا تھا، 2007 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری اسی کو سونپی گئی تھی۔ ملاقات کے دوران اس نے اسامہ سے پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹرپر حملے کے لئے معاونت مانگی تھی جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا، ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے کے بجائے امریکا کے خلاف جہاد ایک عظیم مقصد ہے، وہ چاہتا تھا کہ امریکا کے خلاف لڑائی کے لئے رضاکاروں کی بھرتی کے عمل کو تیز کیا جائے، افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کے سمندر سے جنگ شروع کی جائے گی، جس کے لئے افغانستان ، پاکستان ، صومالیہ اور بحر ہند کا خطہ القاعدہ کا اصل میدان جنگ ہوگا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے معاملات کو دیکھنے کے لئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک تشکیل دیا تھا جو اس سلسلے میں فیصلے کرنے میں خود مختار فوجی سربراہ کے ماتحت کام کرتا تھا اور اس کے بارے میں صرف پاک فوج کے اعلیٰ ترین عسکری قیادت ہی جانتی تھی۔
دوسری جانب انٹلی جنس ذرائع نے اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا کسی کو علم نہیں تھا، آئی ایس آئی کے سباق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ نہیں تھا۔ اس قسم کے الزامات کا مقصد پاکستان اور اس کے قومی اداروں کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔