آہ نیرہ نور بھی دنیا میں نہ رہی
دنیائے موسیقی اداس ہے، ہوائیں اشک بار ہیں اور فضائیں سوگوار ہیں، آہ ! سروں کی دیوی نیرہ نور اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ وہ نیرہ نور جو سروں کا اجالا تھی، وہ نیرہ نور جس کی آواز میں ایک دلکشی اور جادو تھا، وہ بجا طور پر ایک منفرد آواز کی مالک گلوکارہ تھی۔
اس کی آواز میں تھا سوز و گداز
اس کی آواز میں سروں کا نور
اس کی آواز دل کو چھوتی تھی
اس کی آواز میں عجب تھا سرور
اس نے بحیثیت پلے پیک سنگر بے شمار فلمی گیت گائے اور اس کا ہر گیت ہی سپرہٹ ہوا تھا مگر اس کے گائے ہوئے دو ملی نغمے ایسے ہیں جو ہمیشہ ہماری دھرتی کی تاریخ دہراتے رہیں گے اور پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے ان میں سے ایک نغمہ:
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اور دوسرا نغمہ ہے:
وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا
وطن کی مٹی عظیم ہے تُو ، عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
وطن کی مٹی گواہ رہنا
اور پھر ایک دن اسی پاک دھرتی کی مٹی کی چادر اوڑھ کر نیرہ نور اس دنیائے فانی سے اوجھل ہوگئی۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ جس دن گلوکارہ نیرہ نور نے اپنا پہلا فلمی گیت گایا میں اس وقت ایور نیو فلم اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ ہال میں موجود تھا، میں بھی ان دنوں لاہور میں نیا نیا تھا اور نگار ویکلی کراچی کا لاہور میں نمایندہ بن کر گیا تھا۔ اس وقت فلم گھرانہ کے لیے ایک گیت کی ریکارڈنگ کی ریہرسل ہو رہی تھی۔
موسیقار ایم۔ اشرف اپنے بہت سارے سازندوں کیساتھ مذکورہ فلم کے گیت کی میوزک ریہرسل میں مصروف تھے۔ مشہور شاعرکلیم عثمانی بھی وہاں موجود تھے اور وہ فلم کا گیت انھوں نے ہی لکھا تھا۔ اسی دوران ایک بہت ہی نازک اندام اور دھان پان سی لڑکی میوزک ہال میں داخل ہوئی۔
اس نے موسیقار ایم۔اشرف اور شاعر کلیم عثمانی کو بڑے ادب سے سلام کیا، اسی دوران کلیم عثمانی نے بتایا کہ بھئی! آج جس گیت کی ریکارڈنگ ہے وہ اسی نئی گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا جائے گا۔ پھر میوزک ریہرسل کے بعد وہ گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ کئی ٹیکوں کے بعد وہ گیت جب فائنل ٹیک کیساتھ ریکارڈ ہوا تو نہایت پتلی دبلی لڑکی نیرہ نور بہت بوجھل ہوگئی تھی۔
پھر جب اس گیت کی فائنل ٹیک سنائی گئی تو وہاں موجود سب کے ہونٹوں پر ایک ہی بات تھی'' واہ! کیا خوبصورت آواز ہے۔'' پھر سینئر ریکارڈسٹ اے۔زیڈ بیگ نے اسی وقت پیش گوئی کر دی تھی کہ '' بہت ہی میٹھی اور سریلی آواز ہے۔ اب اس آواز کو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا'' اور پھر ایسا ہی ہوا۔
دیکھتے ہی دیکھتے گلوکارہ نیرہ نور فلمی دنیا میں چھاتی چلی گئی اور ہر موسیقار نیرہ نور کی آواز سے فائدہ اٹھا رہا تھا ، لیکن اس آواز کو فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرا موسیقار ایم۔اشرف کو ہی جاتا تھا۔ پھر موسیقار روبن گھوش اور موسیقار نثار بزمی کی بھی یہ پسندیدہ گلوکارہ ہوگئی تھی اور یکے بعد دیگرے جتنے بھی فلمی گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوتے رہے انھیں عوام میں پذیرائی ملتی رہی۔ نیرہ نور کے پہلے فلمی گیت کے بول تھے:
تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا
پلکیں بچھا دوں ساری عمر بتا دوں
اور اس گیت نے فلم کی ریلیز کے بعد اتنی دھوم مچائی تھی کہ اس سال یہ گیت نہ صرف بہت مشہور ہوا بلکہ بحیثیت گلوکارہ اپنے پہلے ہی گیت پر نیرہ نور کو نگار فلم پبلک ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور ایک نئی گلوکارہ کے فلمی کیریئر کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔
پھر بے شمار گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران میری نیرہ نور سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران میں فلمی صحافی کے ساتھ فلمی نغمہ نگار بھی بن چکا تھا اور پھر میری ایک یادگار اور بھرپور ملاقات نیرہ نور سے اس وقت ہوئی جب میں رنگیلا فلم پروڈکشن میں بحیثیت نغمہ نگار منتخب ہوا۔ ان دنوں فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار رنگیلا نے یکے بعد دیگرے دو فلمیں شروع کی تھیں۔
ایک '' کبڑا عاشق'' جس کے گیت قتیل شفائی لکھ رہے تھے اور دوسری فلم صبح کا تارا جس کے لیے میں گیت لکھ رہا تھا اور میرے لکھے ہوئے گیت مہدی حسن، گلوکار منصور رانا اور گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے ، جو گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا وہی مہدی حسن کی آواز میں بھی ریکارڈ ہوا ، جو فلم میں رنگیلا پر فلمایا گیا تھا۔ پھر وہ گیت جس کا مکھڑا وہی تھا مگر گیت کے انترے مختلف تھے وہ اداکارہ سنگیتا پر عکس بند کیا تھا۔ اس گیت کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
میڈم نور جہاں کے بعد گلوکارہ رونا لیلیٰ اور پھر گلوکارہ ناہید اختر نے بھی فلمی دنیا میں اپنا نام اور مقام بنایا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد رونا لیلیٰ کی آواز میں بھی ایک چمک تھی اور ناہید اختر کی آواز میں ایک سریلی گھن گرج تھی مگر نیرہ نور کی آواز میں بڑی مٹھاس تھی۔
اس کی آواز کا انداز ہر گلوکارہ سے مختلف تھا اور پھر غزلوں کی گائیکی میں نیرہ نور کی آواز کی مٹھاس اور سروں کی مہک نے ان غزلوں کو امر بنا دیا ہے۔ اساتذہ کی غزلوں کے علاوہ شاعر بہزاد لکھنوی اور فیض احمد فیض کی غزلوں کو گا کر نیرہ نور کی آواز نے ان غزلوں کے حسن میں اور اضافہ کردیا تھا۔ خاص طور پر بہزاد لکھنوی کی یہ غزل۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اور پھر فیض احمد فیض کی غزلوں اور نظموں کو نیرہ نور نے جس خوش اسلوبی اور رچاؤ کے ساتھ گایا وہ صرف نیرہ نور ہی کا کریڈٹ ہے جیسے کہ فیض احمد فیض صاحب کی مشہور غزلیں اور نظمیں:
ہم کے ٹھہرے اجنبی۔۔۔
...
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئے
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
یا پھر فیض صاحب کی یہ نظم:
آج بازار میں پا بجولاں چلو
چشمِ نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
دست افشاں چلو
مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو
خوں بداماں چلو
آج بازار میں پا بجولاں چلو
فیض صاحب کی اس طرح کی نظمیں کلاسک ادب میں شمار ہوتی ہیں اور ان نظموں کو نیرہ نور نے اتنی خوبصورتی کیساتھ گایا ہے کہ یہ نظمیں ادب کیساتھ ساتھ موسیقی کی دنیا کا بھی قیمتی سرمایا کہلائی جاتی ہیں۔
اس کی آواز میں تھا سوز و گداز
اس کی آواز میں سروں کا نور
اس کی آواز دل کو چھوتی تھی
اس کی آواز میں عجب تھا سرور
اس نے بحیثیت پلے پیک سنگر بے شمار فلمی گیت گائے اور اس کا ہر گیت ہی سپرہٹ ہوا تھا مگر اس کے گائے ہوئے دو ملی نغمے ایسے ہیں جو ہمیشہ ہماری دھرتی کی تاریخ دہراتے رہیں گے اور پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے ان میں سے ایک نغمہ:
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اور دوسرا نغمہ ہے:
وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا
وطن کی مٹی عظیم ہے تُو ، عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
وطن کی مٹی گواہ رہنا
اور پھر ایک دن اسی پاک دھرتی کی مٹی کی چادر اوڑھ کر نیرہ نور اس دنیائے فانی سے اوجھل ہوگئی۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ جس دن گلوکارہ نیرہ نور نے اپنا پہلا فلمی گیت گایا میں اس وقت ایور نیو فلم اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ ہال میں موجود تھا، میں بھی ان دنوں لاہور میں نیا نیا تھا اور نگار ویکلی کراچی کا لاہور میں نمایندہ بن کر گیا تھا۔ اس وقت فلم گھرانہ کے لیے ایک گیت کی ریکارڈنگ کی ریہرسل ہو رہی تھی۔
موسیقار ایم۔ اشرف اپنے بہت سارے سازندوں کیساتھ مذکورہ فلم کے گیت کی میوزک ریہرسل میں مصروف تھے۔ مشہور شاعرکلیم عثمانی بھی وہاں موجود تھے اور وہ فلم کا گیت انھوں نے ہی لکھا تھا۔ اسی دوران ایک بہت ہی نازک اندام اور دھان پان سی لڑکی میوزک ہال میں داخل ہوئی۔
اس نے موسیقار ایم۔اشرف اور شاعر کلیم عثمانی کو بڑے ادب سے سلام کیا، اسی دوران کلیم عثمانی نے بتایا کہ بھئی! آج جس گیت کی ریکارڈنگ ہے وہ اسی نئی گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا جائے گا۔ پھر میوزک ریہرسل کے بعد وہ گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ کئی ٹیکوں کے بعد وہ گیت جب فائنل ٹیک کیساتھ ریکارڈ ہوا تو نہایت پتلی دبلی لڑکی نیرہ نور بہت بوجھل ہوگئی تھی۔
پھر جب اس گیت کی فائنل ٹیک سنائی گئی تو وہاں موجود سب کے ہونٹوں پر ایک ہی بات تھی'' واہ! کیا خوبصورت آواز ہے۔'' پھر سینئر ریکارڈسٹ اے۔زیڈ بیگ نے اسی وقت پیش گوئی کر دی تھی کہ '' بہت ہی میٹھی اور سریلی آواز ہے۔ اب اس آواز کو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا'' اور پھر ایسا ہی ہوا۔
دیکھتے ہی دیکھتے گلوکارہ نیرہ نور فلمی دنیا میں چھاتی چلی گئی اور ہر موسیقار نیرہ نور کی آواز سے فائدہ اٹھا رہا تھا ، لیکن اس آواز کو فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرا موسیقار ایم۔اشرف کو ہی جاتا تھا۔ پھر موسیقار روبن گھوش اور موسیقار نثار بزمی کی بھی یہ پسندیدہ گلوکارہ ہوگئی تھی اور یکے بعد دیگرے جتنے بھی فلمی گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوتے رہے انھیں عوام میں پذیرائی ملتی رہی۔ نیرہ نور کے پہلے فلمی گیت کے بول تھے:
تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا
پلکیں بچھا دوں ساری عمر بتا دوں
اور اس گیت نے فلم کی ریلیز کے بعد اتنی دھوم مچائی تھی کہ اس سال یہ گیت نہ صرف بہت مشہور ہوا بلکہ بحیثیت گلوکارہ اپنے پہلے ہی گیت پر نیرہ نور کو نگار فلم پبلک ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور ایک نئی گلوکارہ کے فلمی کیریئر کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔
پھر بے شمار گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران میری نیرہ نور سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران میں فلمی صحافی کے ساتھ فلمی نغمہ نگار بھی بن چکا تھا اور پھر میری ایک یادگار اور بھرپور ملاقات نیرہ نور سے اس وقت ہوئی جب میں رنگیلا فلم پروڈکشن میں بحیثیت نغمہ نگار منتخب ہوا۔ ان دنوں فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار رنگیلا نے یکے بعد دیگرے دو فلمیں شروع کی تھیں۔
ایک '' کبڑا عاشق'' جس کے گیت قتیل شفائی لکھ رہے تھے اور دوسری فلم صبح کا تارا جس کے لیے میں گیت لکھ رہا تھا اور میرے لکھے ہوئے گیت مہدی حسن، گلوکار منصور رانا اور گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے ، جو گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا وہی مہدی حسن کی آواز میں بھی ریکارڈ ہوا ، جو فلم میں رنگیلا پر فلمایا گیا تھا۔ پھر وہ گیت جس کا مکھڑا وہی تھا مگر گیت کے انترے مختلف تھے وہ اداکارہ سنگیتا پر عکس بند کیا تھا۔ اس گیت کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
میڈم نور جہاں کے بعد گلوکارہ رونا لیلیٰ اور پھر گلوکارہ ناہید اختر نے بھی فلمی دنیا میں اپنا نام اور مقام بنایا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد رونا لیلیٰ کی آواز میں بھی ایک چمک تھی اور ناہید اختر کی آواز میں ایک سریلی گھن گرج تھی مگر نیرہ نور کی آواز میں بڑی مٹھاس تھی۔
اس کی آواز کا انداز ہر گلوکارہ سے مختلف تھا اور پھر غزلوں کی گائیکی میں نیرہ نور کی آواز کی مٹھاس اور سروں کی مہک نے ان غزلوں کو امر بنا دیا ہے۔ اساتذہ کی غزلوں کے علاوہ شاعر بہزاد لکھنوی اور فیض احمد فیض کی غزلوں کو گا کر نیرہ نور کی آواز نے ان غزلوں کے حسن میں اور اضافہ کردیا تھا۔ خاص طور پر بہزاد لکھنوی کی یہ غزل۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اور پھر فیض احمد فیض کی غزلوں اور نظموں کو نیرہ نور نے جس خوش اسلوبی اور رچاؤ کے ساتھ گایا وہ صرف نیرہ نور ہی کا کریڈٹ ہے جیسے کہ فیض احمد فیض صاحب کی مشہور غزلیں اور نظمیں:
ہم کے ٹھہرے اجنبی۔۔۔
...
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئے
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
یا پھر فیض صاحب کی یہ نظم:
آج بازار میں پا بجولاں چلو
چشمِ نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
دست افشاں چلو
مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو
خوں بداماں چلو
آج بازار میں پا بجولاں چلو
فیض صاحب کی اس طرح کی نظمیں کلاسک ادب میں شمار ہوتی ہیں اور ان نظموں کو نیرہ نور نے اتنی خوبصورتی کیساتھ گایا ہے کہ یہ نظمیں ادب کیساتھ ساتھ موسیقی کی دنیا کا بھی قیمتی سرمایا کہلائی جاتی ہیں۔